ہمارے گھر سے دو گھر چھوڑ کر ایک گھر میں چند ماہ پہلے آگ لگ گئی تھی تو اسے دوبارہ پلاٹ بنا دیا گیا یہاں تک کہ ٹاؤن لا ءکے تحت اسکا سوئمنگ پول تک مٹی سے بھر دیا گیا تاکہ دوبارہ تعمیر نئے سرے سے شروع ہو تو سوئمنگ پول کی کھدائی بھی دوبارہ ہو۔ اب وہ پلاٹ دو ملین ڈالر کے لئے برائے فروخت ہے۔ ہماری ڈویلپمنٹ میں سارے پلاٹ ایک ایکڑ یا اس سے تھوڑے بڑے ہیں۔ اب اسکی قیمت دو ملین ڈالر پاکستانی روپوں میں ساٹھ کروڑ بنتی ہے جو کہ امریکہ کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے لیکن مزے کی بات ہے کہ یہ ڈیفنس لاہور سے پھر بھی سستا ہے۔ کیونکہ ساٹھ کروڑ کا ایکڑ مطلب ساڑھے سات کروڑ کی کنال جو کہ ڈیفنس میں ایوریج ہے اور اگر ایک کنال کے دو تین پلاٹ ساتھ ساتھ ملے ہوں تو کئی گنا زیادہ۔
اب اس ایک ایکڑ پلاٹ کا پراپرٹی ٹیکس تقریباً چالیس ہزار ڈالر ہے اور جب گھر بنے گا تو اسّی ہزار سے ایک لاکھ ڈالر ہوگا۔ اس حساب سے ڈیفنس کے کنال کا پراپرٹی ٹیکس کم از کم پانچ ہزار ڈالر یا پندرہ لاکھ سالانہ ہونا چاہیے اور گھر بن کر جو یو ٹیوب پر تیس تیس کروڑ کے بکنے کے لئے لگے ہیں انکا کم از کم تیس لاکھ سالانہ پراپرٹی ٹیکس ہونا چاہیے۔ تو کیا ایسا ہے؟ ہرگز نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں پراپرٹی میں انویسٹمنٹ کی وجہ سے زمینی حقائق کا بخوبی اندازہ ہے۔
کبھی آپ نے نوٹ کیا ہے کہ سیاستدانوں کے جب اثاثے ظاہر ہوتے ہیں تو لکھا ہوتا ہے؛ “چار کنال کا گھر گلبرگ میں اسّی لاکھ کا”؛ “ایک عدد لینڈ کروزر پندرہ لاکھ کی”؛ “پچاس ایکڑ زرعی زمین ستر لاکھ کی” بندہ پوچھے اسّی لاکھ کا گلبرگ میں مرلہ نہیں تو چار کنال کیسے؟ پندرہ لاکھ میں ٹوٹی آلٹو نہیں آتی لینڈ کروزر کیسے؟ اسی طرح زرعی زمین؟ کوئی مذاق ہے؟اسکی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی تھرڈ پارٹی؛ پراپرٹی اویلیوایشن سسٹم نہیں ہے۔ جو مالک نے بتا دیا وہ لکھ دیا۔ اب آپ بتائیں کہ اس میں کونسی راکٹ سائنس ہے؟ یہ سب وزیر مشیر امریکہ یورپ میں پراپرٹی رکھتے ہیں، انھیں نہیں پتا کہ وہاں کیسے سالانہ اویلیوایشن ہوتی ہے اور ٹیکس بڑھتا ہے؟ جواب ہے کہ انھیں سب پتا ہے لیکن یہ ملک سے مخلص نہیں ہیں۔
نواز اور زرداری کی نااہلی اور کرپشن کے طعنے تو اب ترانے بن گئے ہیں لیکن عمران خان نے اس سلسلے میں کچھ کیا؟ اگر کیا ہو تو لنک کے ساتھ کمنٹ میں پیش کریں۔ اکبری کے گھر بیٹھے خود ساختہ کارناموں کی لسٹ اصغری بن کر پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہر طاقتور سیاستدان بالواسطہ یا بلاواسطہ پراپرٹی کے کام سے منسلک ہے اور جب بھی اس پر ٹیکس لگے گا تو کاروبار میں گھاٹا ہوگا۔
پراپرٹی پر ٹیکس کو اس طرح ڈیزائن کیا جاسکتا ہے کہ غریب کو اس پر فرق نہ پڑے۔ مثلاً دس مرلے تک کے مکان پر ٹیکس صفر اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس سالانہ جمع ہوتا رہے اور جب مالک مکان بیچے تو کیپیٹل گین ٹیکس کے ساتھ پراپرٹی ٹیکس وصول کیا جائے۔ مثلاً مکان اچھے وقتوں میں دس لاکھ کا بنا تھا اور اب تین کروڑ کا ہے۔ تو سالانہ ڈیڑھ لاکھ ٹیکس اس کے کھاتے میں جائے اور جب پانچ سال کے بعد وہ چار کروڑ کا بیچے تو اسکا منافع ہوا تین کروڑ نوے لاکھ تو اس میں سے پانچ سال کے ٹیکس یعنی ساڑھے سات بھی وصول کئے جائیں اور منافع کا ٹیکس الگ۔ یہی حال فائل اور پلاٹ رکھ کر چھوڑ دینے والوں کے ساتھ ہو جبکہ ایک کنال اور اوپر کے گھر سے سالانہ ٹیکس فی الوقت وصول کیا جائے جس سے معیشت کا پہیہ چلے۔
فوج کا واقعی پاکستانی سیاست اور ریاست میں بہت دخل ہے تاہم سیاستدان بھی فوج کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے ہیں۔ اب انھیں کیا فوج نے روکا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس نہ لگائیں؟ اگر دس پندرہ کروڑ کی لینڈ کروزر ہے تو اسکی انشورنس بھی قانونی طور پر ضروری ہو؛ انشورنس سے اسکی اصلی مالیت اور اثاثوں کی مجموعی مالیت کا پتا چلے گا۔ اسکا ڈائریکٹ اثر تو ہوگا ہی لیکن ان ڈائریکٹ منی لانڈرنگ، حوالے کی رقم پر بھی کنٹرول ہوگا۔ یہ سوال تو بنے گا ناں کہ لینڈر کروزر لینے والے پندرہ کروڑ کمائے تو اس پر ٹیکس کیوں نہیں دیا؟ اگر اسکے کسی بھائی نے “امریکہ” سے پیسے بھیجے ہیں تو وہاں آئی آر ایس کو رپورٹ کیا جاسکتا ہے۔

سنجیدہ مسائل کو سنجیدہ طریقے سے حل کیا جاتا ہے۔ قومی ٹیم سے لیکر قومی سیاست میں سنجیدگی، فکر، سوچ اور اخلاص کا فقدان ہے۔؛ یہ انسان ماں کے پیٹ سے لیکر پیدا ہوتا ہے۔ یا بطور ہم مسلمانوں کے کہ اللہ جس پر کرم کرتا ہے اسے حکمت ادا کرتا ہے جو کہ خیر کثیر ہے۔ تو ہمارے سیاستدان،نہ تو یہ ماں کے پیٹ سے اچھے پیدا ہوئے اور ناں ہی انھیں حکمت ملی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں