آئین سے متعلق مغالطے اور ان کے ازالے:
آمریت پرست یہ چاہتے ہیں کہ آمر کو بے لگام رہنے دیا جائے اور وہ من مانی کرتا رہے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے کئی طرح کے مغالطے ایجاد کر رکھے ہیں۔ ان سارے مغالطوں کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بقول ان کے ”بطور مسلمان ہمارا دین اسلام اور ہمارا آئین و قانون قرآن مجید اور سنت رسول(ص) ہے۔ لہٰذا کسی بھی مسلم ملک میں کوئی دوسرا قانون بنانا بدعت اور شریعت کے مقابلے میں دکان کھولنے کے مترادف ہے۔ اور اس قانون کو لازم قرار دینا دوسری بدعت اور قانون کی مخالفت کو جرم قرار دینا تیسری بدعت ہے۔“
ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آئین سازی کا عمل مذکورہ تین حوالوں سے بدعت ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ باتیں ایسی ہی ہیں جیسے جنگ صفین میں شامی لشکر نے قرآن نیزوں پہ بلند کیا تھا اور خوارج نے لا حکم الا لله کا نعرہ لگایا تھا۔
ان مغالطوں کا جواب سمجھنے کے لئے دو باتوں کی طرف توجہ کریں۔
1: یہ بات بہت واضح اور پوری امت میں متفق علیہ ہے کہ جب کوئی شخص ایسا حکم لگائے یا ایسا کام کرے جس کا شریعت میں ذکر نہیں ہوا اور یہ کہے کہ یہ خدا و رسول (ص) کا حکم ہے اور اس بنیاد پر اسے لازم قرار دے تب اسے بدعت کہا جائے گا۔
اور اگر کوئی شخص اپنی انفرادی زندگی میں اپنے لئے کچھ کاموں کو لازم و ضروری قرار دے، مثلاً مخصوص وقت میں سونا اور جاگنا، کسی مخصوص غذا کا کھانا یا مخصوص وقت میں کھانا اپنے لئے لازم قرار دے، تو اس کو بدعت نہیں کہتے۔
اسی طرح کسی چھوٹے گروہ یا جماعت کا اپنے اجتماعی امور میں کچھ کاموں کو لازم قرار دینا جیسے کسی گھر کے افراد یا کسی گاوں یا شہر کے افراد کا اپنے کاموں کے لئے ایک نظام الاوقات بنا کر اس کو اپنے لئے لازم قرار دینا بدعت نہیں۔
یونہی کسی بڑے سماجی گروہ یا جماعت کا اپنی سماجی زندگی کے لئے کوئی مخصوص وتیرہ قائم کرلینا مثلا کسی خطے یا ملک کے لوگوں کا اپنے لئے کچھ امور ضروری قرار دینا، اس کو بھی بدعت نہیں کہا جاسکتا۔ چاہے وہ اس کو زبانی حد تک اپنے لئے ضروری سمجھیں یا اس کے لئے کوئی دستوری ڈھانچہ (آئین) تحریر کر لیں۔
پس بدعت کا تعلق نیت و ارادہ سے ہے۔ یعنی ایسا کام بدعت ہے جو شریعت میں نہ ہو لیکن انسان اس کو شرعی اور خدائی ذمہ داری قرار دے۔
دوسری بات یہ کہ ایسا کام جو شریعت میں واجب نہیں لیکن اگر کوئی شخص اس کام کی منت مان لے تو واجب و لازم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کام کے کرنے کی قسم اٹھا لے یا خدا کے ساتھ عہد کر لے تو بھی وہ کام واجب ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی واجب کی ادائیگی کسی کام پر موقوف ہو تو وہ کام بھی واجب ہو جاتا ہے، جسے فقہ کی اصطلاح میں مقدمہ واجب کہتے ہیں۔ اور اس پر علمائے اسلام کا اتفاق ہے۔
جب یہ دو باتیں واضح ہو گئیں تو یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ فرمانروا کے اختیارات کو محدود کرنے اور نظام مملکت کی حفاظت کے لئے، آئین ضروری ہو جاتا ہے۔
اور جب تک آپ اس کے تمام مندرجات کو اللہ کی طرف منسوب نہ کریں، اس کو بدعت قرار دینا درست نہیں۔
ہمارے خیال میں یہ مغالطہ اخباری رجحان (1) کے ان نادانوں سے لیا گیا ہے جو شریعت کی روح کو سمجھ نہیں پائے اور انہوں نے اپنی کج فہمی کی وجہ سے توضیح المسائل (2) لکھنے کو بھی بدعت قرار دیا۔
آمریت پرستوں نے خود غرضی سے کام لیتے ہوئے فرمانرواوں کے اختیارات پہ پابندی لگانے کو بدعت قرار دیا۔ اور آمر بادشاہوں کے لامحدود اختیارات کو محدود کرنے کے لئے قانون کے تابع قرار دینے کو ان لوگوں نے نبوت کے مقابلے میں دکان کھولنے کے مترادف کہا۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ اخلد الی الارض واتبع ھواہ (3)
ترجمہ: ”اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا“۔
دوسری بات یہ کہ ملت کی بیداری اور دین کی بنیاد کا احیاء، جو کہ انیسویں اور بیسویں صدی (4) کے مجددین اور علما کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، اس کو وہ لوگ برباد کرنا چاہتے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!
کیا بدعت جیسا سادہ و عام فہم مسئلہ ان لوگوں کو معلوم نہیں تھا؟ یقیناً معلوم ہوگا۔ دراصل ان لوگوں نے تو دنیا کی خاطر سب کچھ بیچ دیا۔ اور یہ سب کسی منصوبے کے تحت تھا۔
جیسے حضرت علی(ع) نے خطبہ شقشقیہ میں فرمایا کہ ”بلی والله لقد سمعوھا و وعوھا و لکنھم حلیت الدنیا فی اعینھم و راقھم زبرجھا“۔
ترجمہ: ”ہاں ہاں، خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا، لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کُھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔“ (5)
غور کیا جائے تو دوسری بات درست لگتی ہے کہ یہ لوگ سب کچھ جانتے بوجھتے ایسا کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب زار روس کی ہدایت و معاونت کے ذریعے ملت ایران کی سعادت و سربلندی کی بنیاد گرا کر فوجی قانون نافذ کیا گیا۔ [یعنی آئینی جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا]۔ اور اسلام کے بنیادی احکام کو داؤ پر لگا کر روسی جرنیل لیاخوف کو مسلمانوں کی جان و مال پر اختیار دے دیا گیا۔ (6) تو اس وقت ان لوگوں میں سے کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔
4: شورای ملی یعنی قومی اسمبلی سے متعلق مغالطے اور ان کے ازالے۔
آمریت کی بقاء کی علت کا آخری جزء قومی اسمبلی کی نفی ہے۔ اسی لئے مخالفین نے اس پہ بہت زور لگایا۔ اس مقصد کے لئے قومی اسمبلی کے پہلے انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے نمائندوں پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے۔ ان لوگوں نے قومی اسمبلی کے قیام پر مضحکہ خیز اعتراضات کئے جن میں سے کچھ کو ہم ذکر کرتے ہیں۔
1: سب سے پہلے شہر تبریز کے کچھ جاہلوں نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں آیات و روایات کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ امت کو امامت و رہبری کے معاملات میں دخالت کا کوئی حق نہیں۔
مثل مشہور ہے کہ الٹے بانس بریلی کو (7) ان لوگوں نے بھی یہ پمفلٹ نجف اشرف کے علمی مرکز میں اس نوٹ کے ساتھ ارسال کیا کہ ”عوام کو امام مہدی (عج) کی امامت و سلطنت میں مداخلت کا کیا حق ہے؟“
ان لوگوں نے اپنے گمان میں تہران کو ناحیہ مقدسہ (8) یا کوفہ سمجھ لیا ہے اور یہ گمان کررہے ہیں کہ یہاں حکومت حضرت مولا علی (ع) کی ہے!
اور قومی اسمبلی کے نمائندوں نے امام مہدی (عج) یا حضرت علی (ع) کی حکومت و امامت میں مداخلت کی ہے!
خدا کرے کوئی ایسا مسیحا آئے جو قیدیوں جیسی زندگی گزارنے والی ستم رسیدہ ایرانی عوام کو اس ظلم و ستم سے نجات عطا کرے۔ اور ان لوگوں کو یہ واضح بات سمجھا سکے کہ نہ تو تہران ناحیہ مقدسہ یا کوفہ ہے اور نہ قومی اسمبلی کے نمائندے مقام امامت کے غاصب ہیں۔
حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ان نمائندوں کا مقصد شاہ کے آمرانہ اختیارات کو محدود کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
کاش کوئی مسیحا روح القدس کی مدد سے ہی ظلم کی اس بنیاد کو ویران کر دے۔ شاید کہ یہ لوگ اس عمل کو دیکھ کر سبق حاصل کر سکیں اور ان کے ابن کمونہ جیسے اعترضات دور ہو سکیں۔ (9)
حواشی و حوالے
1: عرض مترجم:
شیعہ امامیہ کے اندر فقہی حوالے سے دو قسم کے رجحان پائے جاتے ہیں۔ ایک اصولی رجحان اور دوسرا اخباری رجحان۔
اصولی رجحان اجتہادی رجحان ہے۔ ان کے نزدیک فقہ کے منابع و ماخذ چار ہیں۔ قرآن، سنت، اجماع اور عقل۔ ان کو اصولی اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اصول فقہ کے قواعد کی مدد سے شرعی و فقہی مسائل کو انہی چار منابع سے استنباط کرتے ہیں، جنہیں ادلہ اربعہ کہا جاتا ہے۔
جبکہ اخباری مسلک یا اخباری رجحان سے مراد وہ رجحان ہے جو اجتہادی روش کا قائل نہیں۔
یہ اصول فقہ کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک فقہ کے ماخذ صرف دو ہیں۔ قرآن اور سنت۔ یہ کتب اربعہ (کافی، من لایحضرہ الفقیہ، الاستبصار اور تہذیب الاحکام) کی ساری احادیث کو درست مانتے ہیں۔
ان میں سے بعض علما وسائل الشیعہ اور دیگر حدیثی کتب کو بھی من و عن قبول کرتے ہیں۔
2: عرض مترجم: مصنف نے متن میں رسالہ عملیہ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ رسالہ عملیہ سے مراد فقہی فتاویٰ کی جامع کتاب ہوتی ہے جس کو آج کل توضیح المسائل کہا جاتا ہے۔ جس میں اصولی رجحان کے حامل علما اپنے فتاوی بیان کرتے ہیں۔
چونکہ اخباری رجحان اجتہاد کا قائل نہیں اس لئے وہ توضیح المسائل/ رسالہ عملیہ لکھنے کو بدعت قرار دیتے ہیں۔
3: سورہ اعراف آیت 176۔
4: عرض مترجم:
علامہ نائینی نے یہاں پر تیرہویں صدی ہجری کی بات کی تھی۔ مترجم نے ہجری کی جگہ عیسوی صدی کر دیا کیونکہ اس کو سمجھنا قارئین کے لئے آسان ہے۔ عیسوی سال کے حساب سے یہ انیسویں اور بیسویں صدی کی بات تھی۔
5:ترجمہ از علامہ مفتی جعفر حسین۔
6: عرض مترجم : کرنل ولادیمیر لیاخوف روسی فوج کا ایک اعلی افسر تھا۔ جسے زارِ روس نے ایران میں روسی فوج کی بریگیڈ {جو قزاق بریگیڈ کے نام سے مشہور تھی} کا کمانڈر بنا کر بھیجا تھا۔ لیاخوف نے قاجاری شہنشاہ محمد علی شاہ کے حکم سے (اور درپردہ زار روس کے اشاروں سے) پارلیمنٹ پر توپخانے کی مدد سے حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں پارلیمنٹ کی عمارت کو بہت نقصان پہنچا جبکہ آزادی پسندوں کے کئی راہنما اور کئی پارلیمنٹ ممبران شہید ہوئے۔ بعض مذہبی راہنماؤں جیسے شیخ فضل اللہ نوری وغیرہ نے پارلیمنٹ پر حملے کی حمایت کی تھی ۔
جب آئینی جمہوریت کے مجاہدین نے تہران فتح کر کے پارلیمنٹ پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا تو لیاخوف کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن پھر وہ استعفیٰ دے کر واپس روس چلا گیا۔ 1917ء کے انقلاب کے دوران لیاخوف زار روس کی سفید فوج (White Army) میں شامل ہوگیا تھا۔ لیکن بالشویکوں کی کامیابی کے بعد جارجیا بھاگ گیا۔ اور وہیں پہ مارا گیا۔
8: عرض مترجم: متن میں علامہ نائینی نے عربی کی کہاوت لکھی ہے۔ ”کناقل التمر الی الحجر/الھجر“
حجر بحرین کا ایک شہر تھا جہاں انواع و اقسام کی کھجوریں زیادہ ہوتی تھیں۔
اس کہاوت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نجف جو دینی علوم کا مرکز ہے۔ یہ لوگ چھوٹا سا پمفلٹ چھاپ کر نجف والوں کو علم دین سکھانا چاہتے ہیں۔ جو ظاہر ہے بے وقوفی کی بات ہے۔
اردو کی کہاوت”الٹے بانس بریلی کو“ اور فارسی کی کہاوت ”زیرہ بہ کرمان بردن“ اسی مفہوم کو ادا کرتی ہیں۔ میں نے متن میں اردو کہاوت ڈال دی ہے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
8: عرض مترجم: ناحیہ مقدسہ اس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں امام مہدی (عج) لوگوں کی نظروں سے غائب ہوئے تھے۔ یہ مقام سامرا شہر میں واقع ہے۔ اور جس مقام پر امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کا مزار ہے، اس کے قریب ہی ایک سرداب (Basement) ہے۔ غیبت صغریٰ یعنی غیبت کا پہلا دور جس میں امام مہدی (عج) کے اپنے خاص نائبین سے رابطے برقرار تھے، اس دور میں یہ نائبین کے امام مہدی(عج) سے رابطے کا مقام تھا۔ اسی وجہ سے اس کی خاص اہمیت ہے۔
9: عرض مترجم: اِبْنِ كَمّونہ ایک فلسفی اور منطق دان گزرا ہے۔
اِبْنِ كَمّونہ کا پورا نام سعد بن منصور بن حسن بن ہبۃ اللہ اِبْنِ كَمّونہ تھا۔ وہ کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ اس کی طرف کچھ اعتراضات منسوب ہیں اور اس کی شہرت انہی اعتراضات کی وجہ سے ہے
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں