سرائیکی وسیب/عامر حسینی

اٹھارویں ترمیم کے پاس ہونے کے بعد سرائیکی وسیب کے لیے ایک صوبے کا سٹیٹس ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے بغیر سرائیکی وسیب نہ تو اپنے وسائل کا اپنے لیے استعمال کرسکتا ہے اور نہ ہی وفاق میں وہ مشترکہ اقتصادی کونسل ، ارسا جیسے اداروں میں اپنے حق کی لڑائی لڑ سکتا ہے ۔ تخت لاہور سرائیکی وسیب کے وسائل خاص طور پر اس کے زرعی رقبوں، جنگلات وغیرہ کے تحفظ میں عدم دلچسپی دکھا رہا ہے اور وہ غیر ملکی سرمایہ داروں، سویلین و فوجی نوکر شاہی کے بزنس ایڈونچر کے خلاف سرائیکی وسیب کے تحفظات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا ۔ ہاؤسنگ اور کمرشل رئیل اسٹیٹ بزنس جس میں سب سے بڑی فریق فوجی فاونڈیشن کی ذیلی کمپنیاں ہیں سرائیکی وسیب کی زمینوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہیں ۔ ان کے خلاف پنجاب حکومت ، پنجاب اسمبلی نے کوئی مزاحمت نہیں دکھائی ہے ۔ مسلم لیگ نواز، پی پی پی اور پی ٹی آئی یہ تینوں بڑی جماعتیں سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کر رہیں ۔

سرائیکی وسیب کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ اس کی ڈیموگرافی کی مسلسل تبدیلی سے ہے جس میں گزشتہ 24 سالوں میں بہت تیزی آئی ہے ۔ ایک طرف وسطی پنجاب سے مختلف شعبوں میں پنجابیوں کی بڑی تعداد غالب آرہی ہے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے سرائیکی خطے میں پشتونوں کی آمد اور یہاں پر ان کا جماو سرائیکی خطے میں پشتون آبادی کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے ۔ سرائیکی خطے کے باسی جن میں صرف سرائیکی اسپیکنگ ہی نہیں بلکہ اردو ، ہریانوی اور پنجابی بولنے والے بھی شامل ہیں اس ڈیموگرافی تبدیلی سے بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ اگر سرائیکی وسیب کی اجتماعی دانش نے اس ڈیموگرافی تبدیلی کے خلاف کوئی موثر تحریک نہ چلائی تو انھیں آنے والے دنوں میں مزید نقصان اٹھانے ہوں گے ۔

سرائیکی وسیب سیاسی نمائندگی کے لحاظ سے اس وقت انتہائی کمزور پوزیشن میں ہیں ۔ پنجاب کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت مسلم لیگ نواز وسطی پنجاب کے مفادات کی نمائندہ جماعت ہے ۔ پی ٹی آئی اگرچہ سرائیکی وسیب سے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں واحد سب سے زیادہ نمائندگی رکھنے والی جماعت ہے لیکن اس جماعت کی مرکزی اور صوبائی قیادت نے سرائیکی وسیب کے مفادات اور مطالبات پر کوئی دیرپا اور مستحکم سیاسی لائن اختیار نہیں کی ہے ۔

پیپلزپارٹی میں سرائیکی وسیب سے جو سیاست دان ہیں اگرچہ وہ صوبے کے قیام کے حامی تو ہیں لیکن ان کی پارٹی کی مرکزی قیادت اس وقت وفاق میں جو بھی لڑائی لڑتی ہے وہ سندھ کے مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ گزشتہ 24 سالوں میں پی پی پی کی زیادہ تر لڑائی سندھ کے لیے دستیاب صورت حال میں زیادہ سے زیادہ وسائل کی دستیابی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا انفارمیشن بیورو ان کے آفیشل اکاؤنٹ سندھ کا مقدمہ لڑتے نظر آتے ہیں ۔

اس وقت کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو پنجاب حکومت سے یہ مطالبہ کرتی ہو کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والے پنجاب کے سرائیکی وسیب میں شامل اضلاع کے لیے فنڈز میں غربت، پسماندگی کی شق کو شامل کرکے کم از کم 20 فیصد زائد فنڈز مختص کرے ۔ پنجاب وفاق اور صوبائی ملازمتوں میں وسطی اور جنوبی پنجاب کے درمیان کوٹہ سسٹم نافذ کرے ۔ اب تک وسطی پنجاب اور کے پی کے اور بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے جن افراد کے سرائیکی اضلاع میں جعلی ڈومی سائل بنے ہیں ان کا پتا چلایا جائے اور ان کو منسوخ کیا جائے ۔ سرائیکی وسیب میں موجود جامعات ، میڈیکل ، انجنئیرنگ اور بزنس تعلیمی اداروں میں 90 فیصد نشستیں سرائیکی وسیب کے لوگوں کے لیے مختص ہوں ۔ جبکہ وسطی پنجاب اور وفاقی تعلیمی اداروں میں سرائیکی وسیب کے لیے کم از کم 33 فیصد کوٹہ نافذ کیا جائے ۔ پنجاب حکومت ارسا میں ملنے والے پانی میں سرائیکی وسیب کا واضح شیئر رکھے اور پنجاب کے حصے کے پانی میں سرائیکی وسیب کی تمام نہروں کو وسطی پنجاب کی نہروں کی طرح 12 ماہ پانی دے۔ سرائیکی وسیب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب سمیت جنوبی پنجاب کے تمام سیکرٹری اور تمام اضلاع میں ڈی سی اور ڈی پی اوز کا ڈومی سائل سرائیکی وسیب کے اضلاع سے ہو ۔ اسی طرح تمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ اور ایجوکیشن اتھارٹیز کے سربراہ سرائیکی وسیب سے ہوں ۔ تمام جامعات ، میڈیکل و انجنیئرنگ کالجز کے پرنسپل سرائیکی وسیب سے ہوں ۔ یہ کم از کم اور عبوری سیاسی پروگرام ہے جس کے گرد سرائیکی وسیب کی دانش کو تحریک کی تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سرائیکی وسیب کو فی الفور محکمہ آثار قدیمہ کو دو خود مختار اتھارٹیز میں تقسیم کرنے کی مانگ کرنی چاہیے ۔ سب سے بڑھ کر اسے لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کی طرز پر ملتان والڈ سٹی اتھارٹی کی مانگ کرنی چاہیے اور جتنے فنڈز لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کو دیے جارہے ہیں اس کے برابر فنڈز ملتان والڈ سٹی اتھارٹی کو مہیا کرنے کی مانگ کرنی چاہیے ۔ فی الفور کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور اس وزرات کے تحت دو بااختیار وزراء کی مانگ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ سرائیکی وسیب کے لیے عبوری سیاسی پروگرام زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ سرائیکی وسیب کے باشندوں کو اس عبوری سیاسی پروگرام کے گرد خود کو جمع کرنا ہوگا اور اپنے وسیب کے سیاست دانوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ اس عبوری پروگرام کی حمایت کرکے ہی وہ اپنی سیاست وسیب میں کر پائیں گے ۔ یہ عبوری سیاسی پروگرام ہی سرائیکی وسیب کو الگ صوبے کی حثیت دلانے کی طرف لیکر جائے گا ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply