اسکول کے بہت ابتدائی دن مجھے یاد ہیں ، ہم ابو کے ساتھ اسکول جاتے۔ ہم دونوں بہنیں اور ابو کے عزیز ترین دوست مشتاق انکل اور انکے بیٹے منصور اور خرم بھی ساتھ ہوتے تھے۔ یہ دونوں میرے کزن فیصل بھائی جان کے ساتھ سینٹ بونا وینچر میں پڑھتے تھے جو سینٹ میریز سے ملا ہوا بوائز اسکول تھا۔
گورے چٹے سرخ سفید مشتاق انکل بہت ہی شفیق محبت کرنے والے انسان تھے۔ غالبا ً کامرس کالج میں اکاؤنٹنگ پڑھاتے تھے۔ یہ دنیا کا واحد سبجیکٹ جس سے مجھے قطعی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ایم بی اے کے دوران مجھے مشکل ہوئی تو ابوّ نے مشتاق انکل سے ذکر کیا۔ انہوں نے بجائے ہمیں گھر بلانے کے خود گھر آ کر مجھے اور میری بڑی بہن کو بنیادی کونسیپٹس بریف کیے۔
مجھے یاد ہے داؤد انجینئرنگ کالج کے ایڈمشن سے پیشتر مجھے اپنے کاغذات اور تصاویر اٹیسٹ کروانے تھے۔میں انکے گھر گئی۔ میں اس دور میں بہت سخت پردہ کرنے لگی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے چہرے پر مہر لگا دیں۔ میرا مقصد تھا کہ چہرہ کسی طرح چھپ جائے۔ انکل نے مجھے نرمی سے کہا کہ میں اپنی بیٹی کے چہرے پر کیسے مہر لگا سکتا ہوں۔ انکی یہ بات اور محبت اور شفقت سے لبریز لہجہ ہمیشہ ایک میٹھی یاد کی طرح ساتھ رہتاہے۔
مگر اس سے بھی پیشتر خود سے متعلق ایک بات مجھے ہمیشہ حیران کرتی ہے۔ میرا خیال ہے میں فرسٹ یا سیکنڈ گریڈ میں تھی کہ انکل گھر آئے۔ ابو گھر پر نہیں تھے۔ تو ہم بہنیں انکل سے بات کرنے لگیں۔ گھر کی عورتیں امی سمیت پردہ کرتی تھیں۔ انکل نے مجھ سے پوچھا کہ میں بڑی ہو کر کیا بننا چاہتی ہوں؟
یہ سوال اس دور میں بچوں بچیوں سے بہت پوچھا جاتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میں نے انکل سے کہا کہ میں انجینئر بننا چاہتی ہوں۔ اس بارے میں مجھے امی نے بتایا تھا کیونکہ میرے ماموں ٹی اینڈ ٹی میں تھے غالباً انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔ ویسے امی کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ میں ایسے سوچوں گی۔ انکل بھی میری بات سن کر بہت حیران ہوئے۔ کہنے لگے لڑکیاں تو انجینئر نہیں ہوتیں آپکے ذہن میں یہ کیوں آیا؟ اس سوال کا پتہ نہیں میں نے کیا جواب دیا۔ اور دیا بھی کہ نہیں کیونکہ کوئی جواب شاید تھا ہی نہیں مگر میں ماموں صاحب کے کام سے امپریسڈ بہت تھی ۔ انہیں میں نے ملٹی میٹر لے کر ٹیلیفون کھولے تاروں سے نبرد آزما دیکھا تھا اور مجھے یہ سائنسدانوں جیسا نوبل محسوس ہوا۔
(یہ دوسری بات کہ جب خودانجینئرنگ پڑھی تو ایک تو معیار ٹیکنیشینز سے بھی بُرا تھا۔ دوسرے اس وقت محسوس ہوا کہ یہ تو اسکلڈ لیبر ہے۔ کرئیٹیوٹی اور کریٹیکل تھنکنگ کا کم از کم ہمارے ہاں تو کوئی کردار نہیں تھا۔ )
آج سوچتی ہوں کہ سوچ کی اس اڑان کی اس دور میں والدین اور رشتے داروں نے اجازت نہ دی ہوتی تو آج میں کہاں ہوتی؟؟ میرے ساتھ سینٹ میریز میں پڑھنے والی لڑکیاں کہاں ہوتیں؟
بقول شہناز ساری دنیا کے والدین اپنی بیٹیوں سے کہتے ہیں شادی کرو اور ایک ہمارے والدین ہیں کہ کہتے ہیں پڑھو پڑھو پڑھو اور ڈاکٹر بنو۔ شہناز سے پچھلے ہفتے بات ہوئی ۔ دو بچے میڈیکل کر رہے اور ایک بیٹی انجینئرنگ۔ بتا رہی تھی کہ ہاؤس جاب کے دوران شادی ہو گئی تھی۔
شہناز نے شادی کے بعد ایف سی پی ایس پارٹ ون اور پارٹ ٹو دیا۔2005 سے 2014 تک مکہ اور جدہ کے درمیان کسی قصبے میں اسکن اسپیشلسٹ کے طور پر سرو کرتی رہی۔ اس دوران میں بھی پانچ سال تبوک مکہ کے چکر کاٹتی رہی مگر افسوس ہماری ملاقات نہ ہو سکی۔ آجکل جاب سے چھٹی لیکر آغا خان سے کوئی ڈپلوما کر رہی ہے۔ دو ایک ماہ بعد بڑی بیٹی کی شادی ہے۔
سپنا سے بھی چیٹ ہوئی ۔ سپنا اور شہناز دونوں میرے اس پرسنل نریٹو میں اپنے ذکر سے بہت خوش ہیں۔ سپنا نے میری تصحیح کی کہ تزئین میں آسٹریلیا میں نہیں نیوزی لینڈ میں ہوں۔بچے اسکے بھی بڑے ہو گئے ہیں اور وہ بھی شادی کے بعد پڑھتی رہی۔ ابھی حال ہی میں ایجوکیشن میں کوئی ڈگری کی ہے۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے اور چالیس سال پیشتر کے پاکستان میں والدین کے ویژن کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہی کہ آج سوشل میڈیا پر میں کن لوگوں میں گھر گئی ہوں جو لڑکیوں کو یہ بتا رہے کہ اگر پڑھ لکھ گئیں تو تمہاری شادیاں نہیں ہونگی۔
پاکستانی مسلمان لڑکیوں کو انکے علم حاصل کرنے پر تضحیک تذلیل اور حقارت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ “ہم حقیقت پسندی سے تجزیہ کر رہے اور جی بد قسمتی سے حقائق اتنے ہی تلخ ہیں۔”
اگر واقعی حقیقت پسندی سے پڑھی لکھی لڑکیوں کی زندگیوں کا تجزیہ کرنا تو ہم اسکے زیادہ حقدار کہ ہماری بات سنی جائے جنہوں نے اس زندگی کو جیا ہے۔ ہماری کہانیاں سامنے آنی چاہئیں۔ لیکن جس دقیانوسیت اور عورت کی حقارت سے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا سوشل میڈیا واری لبریز ہے اس جہالت کے نقار خانے میں ہماری آواز کون سنے گا۔
ہر ایک کی سوچ تو تبدیل نہیں کی جا سکتی ۔ جو اس سروے سے متفق وہ نہ کسی پروفیشنل لڑکی سے شادی کریں اور نہ اپنی بیٹی کو پڑھائیں۔ سنا ہے آج سعید انور نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کو طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح سے جوڑا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو انکو بھی میرا یہی مشورہ کہ وہ بھی اپنی بیٹی کو تعلیم نہ دلوائیں کہ کل کو اسکی تعلیم طلاق کا سبب بنے۔
میں چوتھے گریڈ میں تھی تو مشتاق انکل کی بیٹی لبنیٰ اور مبارک انکل (معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی خان) کی بڑی بیٹی عطیہ کا ایڈمشن سینٹ میریز میں ہوا۔ اور شاید میری چھوٹی کزن صالحہ کا بھی جو ساتھ ہی رہتی تھی۔ مجھے ان تینوں سے ہی بڑی محبت فیل ہوتی۔ میں بریک میں انکے پاس نرسری ہال میں پہنچ جاتی۔
لبنیٰ سے رابطہ رہا۔
مشتاق انکل نے بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی خوب پڑھایا۔ لبنیٰ نے میڈیکل کے بعد ایف سی پی ایس کیا۔ شادی کے بعد وہ بھی سعودیہ میں خانہ عرصہ رہی۔ اکثر پروفیشنل سرٹیفیکیشنز کے لئے امریکہ برطانیہ آتی رہتی۔ جہاں تک مجھے معلوم کراچی کے ایک معروف ہسپتال میں بہت بڑی پوسٹ پر ہے۔ بیٹا اسکا بھی بڑا ہو گیا ہے۔
عطیہ کو مبارک انکل نے تاریخ پڑھنے جواہر لال نہرو یونیورسٹی انڈیا بھیجا تھا۔ وہ آجکل کہاں ہے مجھے معلوم نہیں۔ انکی دوسری بیٹی شہلا نے امریکا سے لاء پڑھا اور وہ وہیں پریکٹس کرتی تھی۔ یہ دونوں بچیاں جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں۔ جب مبارک انکل مغلوں پر ریسرچ کر رہے تھے۔ بعد ازاں پاکستان آنے پر انہوں نے سندھ یونیورسٹی دوبارہ جوائن کی۔ مگر انکے ساتھ خاصی زیادتیاں ہوئیں۔
اس دور میں ابو کی انکے ساتھ بہت گاڑھی چھنتی تھی۔میں پہلے بھی لکھتی رہی ہوں کہ ابو کی پہلی اور مبارک انکل کی دوسری کتاب ایک ہی پریس آگہی پریس سے چھپی تھی ۔ ابو کی دوسری کتاب قدیم ہندوستانی فلسفہ کو ابو نے مجھے اور میری بڑی بہن کو ڈکٹیٹ کروایا۔ کیونکہ ابو کے ہاتھ میں رعشہ تھا۔ انکی رائیٹنگ انٹیلیجینس نہیں تھی۔ میں ساتویں کلاس میں تھی، اس وقت بھگوت گیتا ، پراناز وغیرہ کی باتیں بہت عجیب لگتیں۔
ہمارا قومی بیانیہ ہندو قوم سے نفرت پر استوار تھا اور نیشنل ازم ظاہر ہے ہمارے اندر کو ٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ پاکستان سے محبت کا مطلب انڈیا سے نفرت بھی غالب بیانیہ تھا۔ لیکن ابو کی علمی تربیت میں شروع سے ایک چیز بہت نمایاں تھی، کہ دوسرے کے جوتے میں اپنا پیر ڈال کر دیکھو۔
یاد پڑتا ہے بہت بچپن میں کسی بات پر ہندو کی مثال دے کر ہی ابو نے یہ بات سمجھائی تھی۔ اس تربیت کا ہی اثر رہا کہ میں کبھی غیر مذہب اور غیر قوموں سے نفرت نہیں کر سکی۔چاہے وہ ہندو اور سکھ ہوں یا پاکستان میں رہنے والے پنجابی بلوچ سندھی۔ لیکن ہمارے آس پاس اس طرح کی منافرت کی باتیں بہت ہوتی تھیں۔
ابو کا کہنا تھا کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے سے پہلے اسکا پوائنٹ آف وڈیو سمجھو کہ وہ چیزوں کو ایسے کیوں دیکھ رہا ہے۔
ابو اس دور میں بہت مصروف رہنے لگے تھے۔ یونیورسٹی کے بعد شام میں کوئی نہ کوئی علمی ادبی محفل ۔
ایک دلچسپ بات یہ کہ اس دور کے ترقی پسند فلسطین کے مسئلے سے آج کی طرح بے نیاز نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے پی ایل او کے کسی ایونٹ میں ابو اور مبارک انکل کو تقریر کے لئے بلایا گیا تھا۔ اس ایونٹ کی ایک تصویر کچھ عرصے پیشتر میں نے فیس بک پر شیئر بھی کی تھی۔
ہمارے بچپن میں ٹیوی ہر اکثر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے اور صابرہ اور شتیلا کے بارے میں تقریباً روز خبریں آتی تھیں۔ کبھی خاک سمجھ نہیں آیا کہ یہ غزہ کی پٹی کیا ہے۔ جغرافیہ تو نام کا کورس میں تھا۔ اور انتہائی فضول کورس۔ مجھے آٹھ وین نویں کا کورس سوشل اسٹڈیز کا اب تک یاد ہے۔
لوگ اکثر کہتے کہ اسلامی کانٹینٹ بہت تھا۔ سچی بات ہے نہ اسلامی کانٹینٹ نصاب کا حصہ تھا نہ ہی دنیا کے بارے میں ہمیں کچھ بتایا جاتا تھا۔ اسکول کی کتابیں انتہای بچگانہ نصاب پر مشتمل محسوس ہوتیں۔ ہم ڈائجسٹ لٹریچر سے ہی اپنی علمی تشنگی دور کیا کرتے۔ جسے ہمارے بڑے بہت بری چیز سمجھا کرتے یا کم از کم ہم پر یہی شو کرتے۔
خیر ہم نے بھی مارک ٹوئن کی طرح اپنی تعلیم کی راہ میں اسکول کو کبھی رکاوٹ بننے نہیں دیا۔
ہمارے نصاب میں دنیا کے بارے میں تو کیا بتایا جاتا۔ یہ سطریں تحریر کرتے ہوئے یاد آ رہا ہے کہ فلسطین کے بارے میں بھی کچھ موجود نہیں تھا۔ پتہ نہیں اسکی کیا وجہ تھی۔
آٹھویں کلاس کی سوشل استڈیز کی کتاب میں دنیا کے سمندروں کی ایک لسٹ موجود تھی۔ نقشہ کیسے دیکھا جاتا یہ مجھے نہیں یاد کسی ٹیچر نے بتایا ہو۔ حالانکہ اٹلس نصاب کی کتابوں میں شامل ہوتا تھا۔
نویں کلاس میں پاکستان اسٹڈیز کی کتاب میں تو یاد پڑتا کوئی نقشہ نام کی چیز تھی ہی نہیں۔
خیر میں بتا رہی تھی کہ ابو ہمارے چھٹے ساتویں گریڈ میں آتے آتے بہت مصروف ہو گئے تھے۔ لیکن پھر بھی عصر سے مغرب تک ہمارے بچپن سے لیکر آٹھویں نویں جماعت تک باقاعدگی سے ہمیں پڑھانے بیٹھتے تھے۔ ابو کی اپنے ریاضی بہت کمزور تھی تو ریاضی ابو نے کبھی نہیں پڑھائی ۔ لیکن انگلش اور سوشل اسٹڈیز ابو بہت دلچسپی سے پڑھاتے۔ ریڈنگ کرواتی اور ایک ایک لفظ کا مطلب بتائے بغیر آگے نہ بڑھتے۔
میرے نرسری جانے سے پہلے میرےقران پڑھنے کا سلسلہ شروع کروا دیا گیا تھا۔ ابو یونیورسٹی سے آتے تو کھانا کھاتے وقت مجھ سے اخبار پڑھواتے تو میں نے اردو بہت جلدی پڑھنا شروع کر دی تھی۔امی کبھی کبھی ہم سب سے املاء لکھواتیں۔
اس دور میں نرسری کلاس جس ہال میں ہوتی اسکے ساتھ ہی بہت بڑا مستقل سیمنٹ کا بنا ہوا اسٹیج تھا جہاں اسکول کے تمام فنکشن منعقد ہوتے۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا اور آخری میجک شو وہیں دیکھا تھا۔
میں جب نرسری کلاس میں تھی تو نرسری ایک دوسرے ہال میں ہوتی تھی جسے بعد ازاں اسٹاف روم میں بدل دیا گیا تھا۔ لیکن ایک دلچسپ بات جو مجھے اچھی طرح یاد کہ میری پہلے گریڈ کا کلاس روم یہی اسٹیج تھا جس پر چڑھنے کے لئے دونوں طرف سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔
چھوٹے سے قد والی مس گوپی جو کسی تیز رنگ کی لپ اسٹک لگاتیں ہماری کلاس فیلو ہوتی تھیں۔ جنہوں نے مجھے دوسری کلاس میں بھی سوشل اسٹڈیز اور انگلش پڑھائی ۔
اس اسٹیج کے ایک طرف کھڑکیاں تھیں جو وسیع کوریڈور میں کھلتی تھیں اور دوسری طرف سیڑھیاں پیچھے ایک کلاس روم میں جاتی تھیں۔ ہم سالانہ فنکشنز وغیرہ کے ڈراموں ٹیبلوز جو زیادہ تر سہیل رانا کے لکھے گئے اور کمپوز کیے گئے گانوں پر مشتمل ہوتے تھے، کے کئے کاسٹیوم وغیرہ اسی کلاس روم میں تبدیل کرتے۔
مجھے یاد ہے پانچویں کلاس میں ہم نے
“چاند میری زمیں پھول میرا وطن” پر ٹیبلو کیا تھا۔
پاکستان سے محبت آج بھی ویسی ہی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اب ویسا جذباتی نیشنل ازم نہیں محسوس ہوتا۔ سہیل رانا عرصہ ہوا کینیڈا منتقل ہو گئے۔ انہوں نے کینیڈا کے قومی ترانے کا اردو ترجمہ کیا اور اس کی دھن کے ساتھ بہت خو بصورت پروڈکشن تیار کی۔
سپنا سے بات ہوئ تو میں نے مس گوپی کے بارے میں پو چھا۔اسکا کہنا تھا تزئین مس گوپی نے بہت لیٹ شادی کی تھی۔ اور شادی کے کچھ عرصے بعد ہی انکی ڈیتھ ہو گئی۔
اس اسٹیج والی کلاس کی ایک یاد اور بھی ہے۔ امی نے مجھے پانی پینے کے لئیے ایک شیشے کا ٹرانسپیرنٹ بہت خوبصورت سائز کا کپ دیا تھا جس میں میرے بچپن میں سعودی عرب سے شہد آتا تھا۔ یہ میرے بیگ میں تھا اور میں چھٹی سے پیشتر کرسی پر بیٹھے بیٹھے بوریت کے عالم میں جھلا رہی تھی۔ بیگ شاید کمر کے پیچھے جاکرفرش سے ٹکرایا۔ اور کپ ٹوٹ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے اسکا بہت افسوس ہوا تھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں