پچھلے دنوں مشی گن کمیونٹی میں مصوری کی ایک روح پرور نمائش منعقد ہوئی ۔ ان پینٹنگز کو بنانے والے وہ نوجوان مصور تھے کہ جو سماعت سے محروم تھے لیکن انکےفن میں کمال کی قوت گویائی پنہاں تھی۔ مصوری کے یہ نمونے پاکستان سے لاۓ گئے تھے۔ کیونکہ ان نوجوان آرٹسٹوں کا تعلق کراچی میں واقع سماعت اور بینائی سےمحروم بچوں کے ادارے Ida Rieu College For Blind & Deaf سے ہے ۔ یہ ادارہ ۱۹۲۲ء میں قائم ہوا اور اسکا نام اس وقت کےکمشنر سندھ کی اہلیہ آئیڈا آگسٹا رئیو کے نام پہ ہے۔ جوانہوں نے معذور افراد کے لیے قائم کیاتھا۔
تقریب کا اہتمام نان پرافٹ آرگنائزیشن “پیپلز فار ہیومینٹز” کی بانی ڈاکٹر سیدہ سارہ نے اپنی رہائش گاہ پہ کیا ۔بلاشبہ نمائش کے انتظام میں رضاکارانہ معاونت انکے ساتھ کام کرنے والے گروپ ممبرز نے کی۔ تقریب کا مقصد آرٹ کےخوبصورت شاہکاروں کو فروخت کرنے کے بعد حاصل رقم سےادارے میں سولر پینل کا انتظام کرنے کے علاوہ ادارے کی مزیدضروریات کو پورا کرنا تھا۔ صوفیہ انجم تاج نے جو مشیگن کی جانی پہچانی مصورہ اور لکھاری ہیں ،مصوری کے تین بہترین نمونوں کا بطور جج انتخاب کیا۔ اور انعام کے حقدارمصوروں کے نام کا اعلان کیا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر سارہ نے حال ہی میں کراچی میں اس ادارے کا دورہ کیا تھا اور وہاں بجلی کی فراہمی میں بار بارتعطل کے پیش نظر اس منصوبے کا قصد کیا کہ یہ طلبا اپنی مدد آپ کے تحت اپنے فن پاروں کو امریکہ میں فروخت کرکےادارے میں سولر پینل کا اہتمام کریں۔
ڈاکٹر سیدہ سارہ مشیگن کی کمیونٹی کی فعال رکن ہیں۔انسانی درد سے آشنائی نے انہیں مشی گن میں اس نان پرافٹ آرگنائزیشن “پیپل فار ہیومنٹی “ کی بنیاد رکھنے پہ مائل کیا۔ جو اَب بین الاقوامی سطح، بالخصوص پاکستان میں بھی انسانی بہبود کے کئی منصوبوں میں مصروف عمل ہے۔
ڈاکٹر سیدہ سارہ نے امریکہ سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ہے۔وہ معاشیات کے علم کو گہرائی سے سمجھتی ہیں اوردولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور معاشرتی ناہمواری کےسبب غربت کی ابتلاء سے پریشان حال افراد کی مدد کے لیےسالوں سے مصروف ہیں ۔
اس متاثرکن تقریب میں شرکت کے بعد میں نے سوچا کہ سارہ سے گفتگو کی جاۓ تاکہ انکے فلاحی بہبودی اور سماجی دردمندی سے متعلق سوچ اور کام کو آگے بڑھایا جاسکے۔
ان سے گفتگو درج ذیل ہے۔
۱۔ سارہ! کہتے ہیں کہ دیوانگی میں حد سے گزر جانا چاہیے۔آپ خدمت خلق کے شعبہ میں اس حد تک پہنچ گئی ہیں اورنا صرف خود بلکہ کمیونٹی کے بہت سارے لوگوں میں انسانی “خدمت کی وبا”پھیلا دی ہے۔ آپ نے مجھ جیسےناکارہ لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ کچھ بتائیں اس انسانی خدمت کے جنون کی شروعات کے متعلق۔
جواب: میری نظر میں یہ کام تو ایک ذمہ داری ہے ۔ ویسے ہی جیسے گھر سنبھالنا ، اپنے بچے پالنا یا نماز کی ادائیگی جوواجبات میں شمار ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میں وہ کر رہی ہوں جو مجھے کرنا چاہیے۔اس لئے جب لوگ مجھ سےپوچھتے ہیں کہ میں کیوں یہ کام کرتی ہوں تو میں کہتی ہوں“میں کیوں نہیں کروں؟” رضاکار کے طور پہ فلاحی کام کوکرنے کے لیے آپ کے پاس بہت ز یادہ ہونا ضروری نہیں ،صرف یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہمیں کچھ کرنا ہے۔
جب میں ہائی اسکول میں تھی تو میں طلباء یونین کی صدرمنتخب ہوئی تھی ۔ اس وقت ٹی وی پہ اشتہار دیکھتی تھی کہ افریقہ میں بچوں کو بہت قلیل رقم میں اسپا نسر کیا جاسکتا ہے ۔ لہٰذا خیال آیا کہ اگر اسکول کے طالبعلم ایک ڈالر مہینہ بھی دیں تو کچھ غریب بچوں کاخرچہ نکل سکتا ہے۔اس وقت اسکول کے بچوں نے میرا اس پروجیکٹ میں ساتھ دیا ۔بعد میں اسی قسم کے رفاحی کاموں کو کمیونٹی میں جاری رکھا ۔ لوگ جڑتے رہے۔ کام بڑھتاگیااور پھر ایک وقت آیا کہ ہم نے “پیپل فار ہیومنٹی”کی بنیادرکھی۔جس کے تحت ہم آج بہت سے منصوبوں پہ کام کر رہےہیں۔ملک میں اور باہر ، پاکستان میں بھی۔
۲۔ اپنی آرگنائزیشن کے اغراض و مقاصد سے متعارف کروائیں گی؟
جواب: ہم ہر فرد کے انسانی وقار اور وقعت پہ یقین رکھتے ہیں۔اور یہ سمجھتے ہیں کہ انکے نامسدود حالات کو دور کرنا اورانہیں خودمختاری اور عزت کی زندگی دینے کے لیے کام کرناہمارا انسانی فریضہ ہے۔پیپل فار ہیومنٹی ہم خیال لوگوں کے ساتھ باہمی اعتماد اور دوستی کی فضا میں مختلف سرگرمیوں اور بنیادی مسائل کو حل کرنے والے منصوبوںمیں مسلسل کوشاں ہے۔ ہمارے بورڈ ممبر کسی تعریف اورستائش کے بغیر ان رفاحی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔میرےعلاوہ جو بورڈ ممبران مختلف عہدوں پہ کام کررہے ہیں ان کےنام نتاشا ظفر، عنبریں رضا، ثمینہ عنبر، آمنہ سیدہ، نویدرضا، فیصل ظفر ، ردا فاطمہ ، حسنین گردیزی ہیں۔ لیکن انکےعلاوہ بھی بہت سے والینٹیر ز ہیں جن کے بغیر کسی کام کاہونا ممکن نہیں۔
۳۔لوگوں کی مدد کرتے ہوۓ کون سی بات ذہن میں رہتی ہے؟
جواب۔میں نے ہمیشہ اپنی ٹیم سے کہا ہم جس کی مدد بھی کرتے ہیں اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ جوضرورتمند ہے اسکی مدد کرنی چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں دیکھناکہ اسکا مذہب اور ثقافت کیا ہے۔بس جس کو مدد کی ضرورت ہو اسکی مدد کرنا چاہیے۔
۴۔آپ نے خاص کر پاکستان کو ہی اپنی خدمات کا محور کیوں بنایا؟ کیا آپ کے امریکہ میں بھی کچھ فلاحی منصوبے چل رہے ہیں؟
جواب: یہ حقیقت ہے کہ ہمارا زیادہ تر کام پاکستان کا ہے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ میں پاکستان میں پیداہوئی تو ملک کو کچھ لوٹانا میری ذمہ داری ہے۔ اور ویسےبھی میں وہاں کے کلچر سے واقف ہوں اور انکی ضروریات کواچھی طرح سمجھتی ہوں۔ تو یہ نسبتاً آسان ہے ۔ لیکن جب ہمارا کام بڑھے گا تو دوسرے ممالک میں بھی پارٹنر شپ کی بنیاد پہ ہم رفاحی منصوبوں پہ کام کریں گے۔
۵۔اپنے ڈیٹرائیٹ مشی گن میں کیا کام کیا کر رہی ہیں۔ یہاں کے حالات بھی کافی دگرگوں ہیں؟
جواب: بطور اکانومسٹ میں نے ڈیٹرائیٹ کی غریب آبادی کوبہت گہرائی میں دیکھا کہ جہاں کے لوگ غربت کے چکر میں پھنسے ہوۓ ہیں۔یہ علاقہ میرے دل کے قریب ہے۔اور میں نےخاص کر اس پر کام کیا ہے۔اس سلسلہ میں مایئکرو لون یاچھوٹے قرض فراہم کیے ،تاکہ وہ اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوسکیں۔ مثلاً گاڑی ، مکان کا کرایہ یا دوسری ضروریات کی سہولیات جو انکی خودمختاری میں حائل ہیں۔ ہم نےرضاکاروں کے ساتھ گارڈننگ (کھیتی)کی تاکہ ناا صرف سبزیاں اور پھل اُگاۓ جاسکیں جو وہ استعمال کرسکیں بلکہ اس علاقہ کو صاف اور صحتمند فضا مل سکے۔ ہم نے ہوم لیس شیلٹرز میں ٹیوٹرنگ کا کام بھی شروع کیا ۔ اسکےعلاوہ ہم نے ان شیلٹرز میں اسکول شروع ہونے سے پہلے تین سو بچوں کو اسکول کے بستے اور اسکول کی سپلائیز فراہم کیں۔ سوپ کچن میں، چھٹی والے دن ہمارے والینٹیر ز خاص کھانے لے کے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم ملازمت کے متلاشی افراد کے لیے resume کی تیاری میں بھی مدد کرتے ہیں۔اکثرسواری یا ٹرانسپورٹ ایک مسئلہ ہوتی ہے ۔ ہمارے رضاکارلوگوں کو میڈیکل چیک اپ کے لیے ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں۔کوویڈ کے زمانے میں جب ماسک کی قلت ہوئی تو ہمارےوالینٹیر ز نے coffee (کافی) فلٹرز سے ماسک بناۓ۔ کوویڈکے زمانے میں بچوں کو اسکول کے بند ہونے کی وجہ سے مفت لنچ کی فراہمی نہ تھی ۔اس دوران ان گھرانوں میں کھانااورگروسری (کھانے پینے کی اشیاء)فراہم کی۔ہمارے پاس فنڈکی رقم سو فی صد ضرورتمندوں میں ہی خرچ ہوتی ہے۔ہمارے ممبرز رضاکارانہ طور پہ اپنے فاضل وقت میں مفت کام کرتے ہیں۔ لہٰذا سارے پیسے ضرورتمندوں میں جاتے ہیں۔انتظامیہ کا خرچہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
۶۔حال ہی میں آپ کا بڑے پیمانے پہ ایک چیریٹی آرٹ اکشن فنڈ ریزینگ پروگرام ہوا۔جس میں سننے اور گویائی سے محروم بچوں کی پینٹنگ کی نمائش کا اہتمام ہوا ۔ کچھ اس کی تفصیلات بتائیں گی؟ اسکا کیا نتیجہ نکلا؟
جواب: اس نمائش کا خیال اسوقت آیا کہ جب مجھے پاکستان میں ان بچوں کے ادارے میں جانے کا موقع ملا جو بینائی اورسماعت سے محروم ہیں۔
پاکستان میں بجلی کا مسئلہ ہے۔ جسکی وجہ سے اکثر کام التوا میں پڑ جاتے ہیں۔ میں ان بچوں سے بہت متاثر ہوئی اوروعدہ کیا کہ ان کے کام کی نمائش امریکہ میں کرواؤں گی تاکہ اس آمدنی سے سولر سسٹم کا اہتمام ہوسکے ۔ اس طرح ان بچوں کی محنت اور ہماری سپورٹ سے ان بچوں نے اپنی مددآپ کی۔ انکی تمام پینٹنگز بک گئیں۔ توقع سے زیادہ پیسےجمع ہوۓ۔ اسکے اہتمام پہ لوگوں نے کھانے ، پرنٹنگ اوردوسرے اخراجات کی ذمہ داری اٹھائی تو کوئی انتظامی لاگت نہیں آئی ۔ منافع کی رقم کے ساتھ انعام پانے والے بچوں کوانعامات بھی بھجواۓ گئے۔
۷-اپنے کاموں میں کمیونٹی اور گھر والوں کی کتنی سپورٹ ہے ؟ کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: خدا کا شکر ہے کہ ہمارے بورڈ کا ہر ممبر اس آرگنائزیشن کے لیے دل وجان سے اور پوری ذمہ داری سے کام کرتا ہے۔ میرے گھر والوں اور خاص کر شوہر کا تعاون تو بہت اہم ہے۔ جس کے بغیر اتنا کچھ کرنا ممکن نہ تھا۔ اور اب میرےبچے بھی اس قسم کے رفاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ یقیناًاس کام میں قربانی اوراسٹریس بھی ہے۔ کُل وقتی ملازمت کےساتھ تھوڑا سا فاضل وقت نکالنا آسان نہیں لیکن ممکن ضرور ہے۔ قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہم سب کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔اور خدا کی نعمتوں کی شکر گزاری کا طریقہ بھی ہے۔
فلاحی کام کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا،اور وہ پیسےسے ہی کرنا ضروری نہیں۔آپ اپنے ہاتھ سے بھی کام کرسکتےہیں۔ کسی چھوٹی کلاس کے بچے کو پڑھانے میں بھی انسانیت کی بھلائی ہے۔ یہ کام آپکی ذہنی، جسمانی اورروحانی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ ہمارے پاس بہت سےآئیڈیاز ہیں۔ اس کام میں ہم سے رجوع کریں۔ اور ہمارے ساتھ ملکر انسانیت کو طاقت دیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں