وائکنگز دراصل بحری جنگجو تھے جن کا تعلق قدیم سکنڈے نیوین ممالک مثلاً ڈنمارک ، سویڈن اور ناروے سے تھا۔ یہ نورس ( Norse) یا نارتھ بھی کہلاتے تھے یعنی جو شمال سے ہوں۔ نارس ان کی رابطے کی زبان تھی۔ ان کی اپنی مخصوص دیو مالا تھی۔ اس دیو مالائیت (Mythology) میں ان کی مرکزیت ولہلا (Valhalla) تھی۔ مظاہر پرستی ان کا شعار ، اوڈن (Odin) ان کا دیوتا اور مذہبی پیشوائیت کے لیے سیرز (Seers) نمائندے مقرر تھے۔ سیرز عین قدیم منگول قوم کے شامان کی طرح ہی پراسرار روحانی یا شیطانی قوتوں کی مدد سے وائکنگز سماج کو یرکا اور ٹرخا کر اپنا رانجھا راضی رکھتے تھے۔ قسمت کا حال ، جنگ میں ہار و کامیابی، موسموں کی موافقت و مخالفت وغیرہ بارے ان کی پیشینگوئیوں پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا۔ یہ سب بہت لالچی ، میسنے ، منافق اور سازش پسند تھے۔ وائکنگز کی بستیاں عموماً ساحلوں پر واقع ہوتی تھیں تاکہ وہیں سے آنے والے حملہ آوروں کی پیش قدمی روکی جا سکے یا جارحیت کے لیے بحری لشکر کی تشکیل کے فوراً بعد روانہ ہوا جا سکے۔ انتظامی معاملات ، باہمی ربط و ضبط اور دیگر تمام امور کے لیے ان میں چیف مقرر تھے جو ووٹ شماری یا بیعت کی بجاۓ عملی مبارزت کے نتیجے میں منتخب ہوتے تھے۔ یعنی اس مسابقت میں مدمقابل کی جان لینی ھے یا اپنی گنوانی ھے۔ جو جیتا وہی سکندر۔ پھر یہ سرداری بھی کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی تھی۔ نیندیں اور آرام غارت ہو جاتا تھا۔ خاموش حریفوں کی پس پردہ چالیں، خونی رشتوں کی سازشیں ، گروہی معشیت اور کفالت کے پاکھنڈ ، باہمی تنازعات کی آبرومندانہ تدبیروں کی فکر ، دشمنوں سے تحفظ ۔۔۔ سردار ہر وقت چڑچڑا رہتا یا اپنی بیوی کے علاوہ دوسری شتر بے مہار عورتوں کو درج ذیل کرنے لگتا۔ آپسی تجارت میں بارٹر سسٹم رائج تھا یعنی کھالوں کے بدلے اناج یا اناج کے بدلے ہتھیار یا پھر عصمت فروشی کے بدلے قیمتی جواہرات یا روایتی زیورات۔
ان کے ہاں منظم و مربوط تعلیمی و تدریسی انتظام یا تصور نہیں تھا۔ فطرت ہی ان کی بنیادی معلم اور اچھے برے تجربات ہی ان کے لیے سبق ہوتے تھے۔ تہذیب و تمدن اور ثقافت وغیرہ آٹو پر رہتی تھی۔ جو دل چاہا اپنا لیا ورنہ دفع دور۔ کئی کئی شادیاں اور بے تحاشا بچے پیدا کرنے پر زور رکھا جاتا تاکہ قبیلے کی افرادی قوت میں کمی واقع نہ ہو۔ وحشت ، بے رحمی ، شقی القلبی ، احمقانہ حد کو چھوتی ہوتی بہادری اور سرفروشی کی تمنا ان کے خون میں دوڑتی تھیں۔ ایک ہی معروض میں مختلف مقامات پر موجود و آباد گروہ اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ فتح ہوئی تو دشمن کا ککھ نہ چھوڑتے تھے ورنہ اپنا بھی بیج باقی نہ رہتا تھا۔ ان کا مرغوب عمل تھا کہ حریف جب سویا ہوا ہو تو اس کے سارے کنبے کو ٹھکانے سمیت نذر آتش کر دیا جاۓ۔ اسی آگ پر پھر اپنے ٹھٹھرتے اجسام کو سینکتے لگتے کیونکہ سکنڈے نیوین ممالک کے سنگین سرد موسم تب ناقابل تغیر ہوتے تھے۔
وائکنگز سیریز جو چھ سیزنز پر مشتمل ہے ، دراصل قدرے تاریخی حقائق و واقعات پر مبنی ہے جسے فکشن کی شوگر کوٹنگ کے ساتھ تاریخی کڑواہٹ کو نارمل کر کے پیش کیا گیا ہے ، جو مرکزی کردار ریگنار لوتھبروک ، اس کی جنگجو بیوی لاگرتھا ، بھاٸی رولو ، جہاز ساز دوست فلوکی اور چار لڑاکا بیٹوں کے گرد گھومتی ھے۔ یہ سب مؤرخین کے مطابق حقیقی کردار تھے جنھوں نے جامد ماحول اور معروض سے باہر پیش رفت کی۔ ریگنار نے ہی ابتداٸی طور پر باہر کی دنیا کی طرف سفر اور جستجو کا آغاز کیا جو کہ ایک کسان کے علاوہ اپنی برادری کا سربراہ بھی تھا اور چیف کا قریبی دوست بھی۔ اس نے بحری مہم کے لیے چیف کو اخراجات کے لیے شیشے میں اتارا۔ چند سو ہم خیال جمع کیے جو زیادہ تر پیشہ ور قزاق تھے۔ اس ساری ٹیم کے ہمراہ ایک کٹھن سفر کی شروعات ہوئیں۔ مہینوں کی مسافت کے اختتام پر پہلی منزل قدیم انگلستان کا ایک ساحلی قصبہ ان کے ہاتھ چڑھا۔ سب بھوکے بھیڑیوں کی مانند چڑھ دوڑے اور کسی ذی روح کو باقی نہ چھوڑا سواۓ ایک نوجوان زیرتربیت پادری ایتھلسٹن کے۔اسے غلام بنا لیا گیا۔ اناج ، زیور ، برتن اور ہر کارآمد چیز کو کشتیوں میں لادا اور واپس ولہلا پہنچ گۓ۔ یہ پہلی کامیابی تھی اور اسی کے بعد باقی سارے فساد کا کھیل شروع ہوا۔
واقعاتی باریکیوں سے قطع نظر ان وائکنگز نے بعد ازاں وسیع بندوبست کے ساتھ ذاتی مفادات کی رُو سے متفق اور متحد ہو کر بڑی نوعیت کی جارحیتوں کا سوچا اور پھر انگلینڈ و فرانس کے اکناف و اطراف کو نشانہ بنانا شروع کیا جہاں کی حکومتیں اگرچہ اتنی زیادہ مالدار نہیں تھیں تاہم وائکنگز کی لوٹ مار کے لیے بہت کشش کی باعث تھیں۔ ان کے محاصرے طویل ہوتے اور حملے شدید ترین۔ بے خوفی ان پر ختم تھی۔ دونوں ممالک کی منظم افواج کے قدم ان جنگجوؤں کی بربریت کے سامنے اکھڑ جاتے۔ ریگنار متحدہ لشکروں کا کمانڈر تھا۔ فرانس کا علاقہ جو بعد میں نارمنڈی کہلایا ، اس کے ایک بڑے قلعے پر مہم کی ذمہ داری ریگنار نے اپنے دوست فلوکی کو سونپ دی۔ فرانسیسیوں نے یہاں وائکنگز کو حربی تدبیروں سے میدان جنگ کے کولہو میں گنے کی طرح پیل کر رکھ دیا۔ ریگنار کو اپنی اس غلطی کا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑا۔ فلوکی اگرچہ ہر فن مولا تھا مگر اتنی بڑی حربی مسابقت کو مینج نہیں کر سکا اور ثابت ہوا کہ ترکھان ضروری نہیں کہ اچھا سپہ سالار بھی ہو۔ ہزاروں وائکنگ مروا دیے۔ سزا کے ضمن میں ریگنار نے اپنے دوست کو بے شمار چپیڑیں منہ پر اور لاتیں تشریف پہ مار کر قید تنہائی میں ڈال دیا۔ ریگنار نے اپنے آپ کو بھی بہت گندی گالیاں دیں اور کفارے کے طور پر اپنی فتنہ ساماں و ہوشربا بیوی لاگرتھا سے دور رہا۔
خیر آگے بڑھتے ہیں۔ ریگنار کا چھوٹا بھائی رولو حصول اقتدار کی چاہ میں فرانسیسیوں سے کچھ شرائط پر جا ملا اور ایک مضبوط حیثیت کے کاؤنٹ کی بیٹی سے شادی کر کے وہیں مستقل مقیم ہو گیا۔ اپنے مفتوعہ علاقے کو اس نےنارمنڈی کا نام دیا۔ یعنی نورس کی ماسبت سے۔ باقی وائکنگز اگلی بار پھر آنے کے لیے لوٹ گئے۔
ریگنار کا خاتمہ بہت برے حالات میں ہوا اور اسے دھوکہ دہی اور فریب کے تحت ایسیکس اور روئین ریاستوں کے رشتہ دار حکمرانوں نے اتحاد اور مشترکہ سازش سے مار دیا۔ اس کے بعد اس کے بڑے بیٹے بیجورن آئرنسائڈ (B’jorn)اور اس کے سوتیلے بھائیوں کی کہانی شروع ہوتی ھے ،جنھوں نے اپنے باپ کے قتل کا انتقام بھی لیا اور اپنی فتوحات اور معرکوں کا سلسلہ ڈنمارک ، سویڈن اور ناروے سے باہر سسلی ، اٹلی ، جرمنی اور ہسپانیہ تک پھیلایا۔
یہاں فلم کے ڈائریکٹر ، پروڈیوسر اور کہانی کار نے ایک عظیم چول ماری کہ واٸکنگز کی ملاقات اسپین میں طارق بن زیاد سے کرا دی۔ باور رہے کہ طارق بن زیادہ نے سپین کو ۶712 عیسوی میں فتح کیا تھا اور تب تک وائکنگز بیرونی دنیا سے واقف ہی نہیں ہوۓ تھے۔ بلکہ ڈیڑھ سو سال بعد ان کی آمد اموی خلیفہ عبدالرحمان ثالث کے عہد میں ممکن ہوئی اور پھر اس کا خمیازہ یوں بھگتا کہ انھیں پرتگال اور سپین سے اس طرح بھاگنا پڑا جیسے شہد کی مکھیاں چھتا چھوڑ کر بھاگتی ہیں۔ سپین کی مسلم حکومت اس وقت پورے تاریک یورپ پر حاوی تھی اور اوقیانوس کے علاوہ بحیرہ روم پر اس کی بالادستی عروج پر تھی۔
وائکنگز کی افرادی قوت کشور کشائی کے چکر میں منقسم ہو چکی تھی لہذا روٹی پانی کے چکر میں انھوں نے اپنی خدمات بیچنا شروع کر دیں۔ دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی کے ارد گرد یہ مختلف یورپی سلطنتوں کی طرف سے مسلم بادشاہتوں کے خلاف لڑاٸیوں میں شریک ہوتے رہے۔ لیکن سلجوق ترکوں اور بعد میں صلیبی جنگوں کے ہنگام سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان کی تشریفات خوب لالولال کیں۔ حتیٰ کہ یہ بتدریج تاریخ کے صفحات سے اوجھل ہوتے گۓ کیونکہ عثمانی خلافت نے کافی عرصہ تک پونے یورپ کو اپنا معمول بناۓ رکھا۔
آج کل ان کے ولہلا تک نارویجن کروزشپ سیاحوں کو پہنچاتے ہیں جہاں وہ کچھ دیر کافی ، بیٸر اور سافٹ ڈرنک کی عیاشی کر کے چند سیلفیاں بناکر واپس اپنے اپنے ہوٹلوں میں چلے جاتے ہیں۔
ترک پروڈیوسر مہمت بوزداغ نے ترک صدر اردگان کی مالیاتی پارٹنرشپ اور واٸئنگ سیریز سے متاثر ہو کر ”دریلش ارتغرل“ ، ”کورلش عثمان“ اور ”سلجوق“ کی بنیاد رکھی تاکہ اپنے لیے مالی منفعت اور ملت اسلامیہ کے لیے مذہبی افیم سے مملو تفریح کا بندوبست ہو سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں