ادب میں بحیثیت مجموعی خواتین لکھاریوں کی تعداد بہت کم رہی، ہر دور میں مرد ہی اس شعبے میں میدان مارتے آئے ہیں، اگرچہ قدیم یونان میں Sappho جیسی شاعرہ کا آشکار ہونا دلچسپی کے ساتھ ساتھ تحقیق طلب معاملہ بھی ہے لیکن یہ استثناء ہے جو ہر جگہ پایا جاتا ہے، یہ مرد ہی ہیں جنہوں نے ناول ، افسانے و شاعری کو عروج بخشا اور ان کی قابلیت کے ڈنکے کا کسی بھی جغرافیائی یا لسانی حد کے پار سنائی دیئے جانا ہرگز اچھنبے کی بات نہیں ۔
ایسا کیوں ہے ؟
یہ دلیل بڑی جاندار اور بالکل درست ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں خواتین کیلئے تعلیم کے مواقع بہت کم رہے، حتیٰ کہ مغرب میں بھی یہ رجحان گزشتہ دو صدیوں میں ہی پروان چڑھا ، اس سے پہلے وہاں کے حالات بھی ناگفتہ بہ تھے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی یہ رجحان توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔
ادب لکھنے کیلئے کم از کم اتنی تعلیم ضروری ہے کہ انسان اپنے خیالات، جذبات اور مشاہدات کو درست اسلوب میں قلم بند کر سکے، اگر اتنی تعلیم میسر نہیں تو کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ کوئی خاتون بڑی شاعرہ یا ادیب بن سکے، اگرچہ شاعری کے شعبے میں ایسا چمتکار ممکن ہے کہ بغیر نصابی تعلیم کے کوئی فرد اچھی شاعری کے جوہر دکھا سکے، لیکن وہ بھی صرف اسی صورت کہ فرد کی زندگی سماج کا مشاہدہ اور مطالعہ کرتے گزری ہو، خواتین کیلئے ایسے چمتکار کا برپا ہونا مشکل تر ہے کیونکہ ان کی بھاری اکثریت گھر گرہستی تک محدود ہوتی ہے۔
تعلیم کے آنے سے خواتین ادیب کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، بالخصوص بیسویں صدی کے عرصے میں دنیا کے ہر خطے سے بے شمار خواتین ادیب معروف ہوئیں جیسے Jane Austen ،Virginia Woolf ،Charlotte Bronte ،J.K. Rowling ،Margaret Mitchell وغیرہ، اور انہوں نے بلاشبہ غیر معمولی ادب تخلیق کیا، آج رواں صدی میں ادب لکھنے والی خواتین کی تعداد مردوں سے کسی طور کم نہیں، لیکن معاملہ یہ ہے کہ ادب کے بڑے سے بڑے جس شاہکار پہ آپ ہاتھ رکھیں گے، مصنف مرد ہی دکھائی دے گا، خواتین نے لکھا ضرور اور اچھا لکھا لیکن اس معیار سے قدرے پیچھے رہیں جو مرد مصنفین کے ہاں پایا جاتا ہے۔
کچھ دوست اس کرخت رائے کے ساتھ بھی سامنے آ سکتے ہیں کہ عقل و فہم میں مرد حضرات ، بوجوہ، خواتین سے کہیں آگے ہیں اس لئے ادب میں مطلوبہ تخیل مردوں ہی کا خاصہ ہے، اس کیلئے بطور ثبوت نیچرل سائنسز کی مثال دی جا سکتی ہے کہ تقریباً ہر نئی دریافت اور ایجاد کا سہرا مردوں کے سر ہے، یہ بات صحیح ہے کہ سائنس کے میدان میں ترقی مردوں کی مرہونِ منت ہے، لیکن ایسا اس لئے ہرگز نہیں کہ عورتیں مردوں کی نسبت کم عقل ہیں، بلکہ اس کی وجہ ان دو کے فہم و تفہیم کی سمتوں کا مختلف ہونا ہے، مرد چیزوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، جبکہ مستورات کا جھکاؤ جذبات کی طرف ہے۔
لیکن اگر مستورات کا جھکاؤ جذبات کی طرف مردوں کی نسبت زیادہ ہے تو پھر تو ادب کی عمارت کی معمار خواتین کو ہوناچاہیے تھا کہ اس عمارت کی بنیاد ہی جذبات پہ کھڑی ہے ۔
سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ خواتین اس شعبے میں مردوں کا مقابلہ کیوں نہ کر سکیں ؟
آپ صحیح سوچ رہے ہیں کہ چونکہ حسن و جمال ادب کے بنیادی محرکات میں سے ہے، اس لئے کسی حسین کے ناز و ادا کو بیان کرنا عاشق کا کام ہے نہ کہ خود معشوق کا، بلبل نغمہ سنانے پر قادر ہے لیکن اس نغمے کی تعریف صرف سننے والا ہی کر سکتا ہے، پھول رنگ اور خوشبو بکھیر تو سکتا ہے مگر اس رنگ یا خوشبو کو معنی نہیں دے سکتا، جمالیات کو معنی و الفاظ کا پیرہن پہنانے کی زمہ داری مشاہدہ کرنے والے یعنی عاشق کی ہے۔ پھول اور بلبل کی خوبصورتی کیلئے بیرونی شنوائی و بینائی چاہیئے اور اسی شنوائی و بینائی کا حامل شخص ہی اس حسن کو گویائی میں ڈھال سکتا ہے اور یہ مرد ہے ۔
راقم الحروف کے نزدیک یہ دلیل جزوی طور پر درست ہے لیکن اس معمے کی تمام گرہیں کھولنے سے قاصر ہے، کیونکہ گاہے مشاہدہ کرنے والی یعنی عاشق ،عورت بھی تو ہو سکتی ہے، پھول یا بلبل کی جگہ مرد بھی تو ہو سکتا ہے، پھر وہ اپنے معشوق مرد کی جمالیات کو اس بلندی تک کیوں نہ لے جا سکی؟
شاید اس کی ایک اور وجہ ہے جو دو جہتی ہے، مرد محبت کے بغیر بھی زندگی گزار سکتا ہے، عورت محبت کی زیادہ طالب ہوتی ہے، گویا کہ عورت محبت کے دریا میں ہر حال میں بھیگنا چاہتی ہے، مرد محبت کے دریا میں نہ بھی اترے تو اس کیلئے بظاہر کوئی قیامت برپا نہیں ہونے والی، مگر اندر ہی اندر یہ کیفیت کسی خاص جنون کو جنم دے سکتی ہے۔ اب محبت کے بغیر کی جو جنونی زندگی ہے، اس پہ صرف مرد ہی قادر ہے۔
دوسری طرف مرد اگر دریا میں اتر جائے تو پھر وہ اسی دریا تک محدود نہیں رہتا، وہ اسی راستے سے گہرے پانیوں میں اترنا ہے، سمندر میں غوطہ زن ہونا چاہتا ہے، عورت اسی دریا تک ہی محدود رہتی ہے، اب سمندروں کی تہہ میں اترنے کی خواہش دیوانگی کی دوسری کیفیت ہے، یہ بھی مرد ہی کا خاصہ ہے۔

یعنی کہ عورت خشک دیوانگی پہ نہیں رہنا چاہتی، دریا میں اترنا چاہتی ہے، لیکن وہ اس دریا سے آگے سمندری دیوانگی کو نہیں پہنچنا چاہتی، وہ اعتدال میں رہنا پسند کرتی ہے، مرد اعتدال پسند نہیں، وہ دونوں صورتوں میں کسی نہ کسی دیوانگی کو اپنائے ہے، یہی وجہ ہے کہ بریک اپ کے بعد مردوں کیلئے زندگی کا کاٹنا مشکل ہو جاتا ہے، درباروں پر، گلیوں اور بازاروں میں جتنے فقیر اور دیوانے نظر آتے ہیں وہ مرد ہیں، منشیات کے عادی بھی مرد ہی ملیں گے، ڈپریشن اور خودکشی کا رجحان میں مردوں میں کہیں زیادہ ہے، ان سب کی وجہ وہ دیوانگی ہے جس سے مرد گزرتا ہے اور واقع یہ ہے کہ حقیقی اور عظیم ادب کو تخلیق کرنے کیلئے یہی دیوانگی درکار ہوتی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں