اس نے کیفے کی چار نشستوں میں سے ایک پر اپنا وجود رکھا، باقی تین کرسیاں لوگ اپنے لئے منتخب کر کے لے گئے، دفعتاً ایک نوجوان کرسی تھامے اس کے قریب آیا اور اس سے کہا :
میں تمہیں جانتا ہوں!
کیسے؟
تمہاری آنکھوں کے رنگ سے!
آج دیکھنے سے قبل بھی؟
ہاں، روز اول سے!
پھر آنے والا بیٹھ گیا، اور کہنے لگا : جس روز ہم ابا آدم کے وجود سے چونٹوں اور چیونٹیوں کے شکل میں نکالے گئے، اس دن میں اور تم قطار میں چل رہے تھے، چلتے چلتے تم تھوڑا جھک کر چلنے لگے، کچھ وقت کے بعد میری بھی گردن جھک گئی اور میرا کُب نکل آیا تھا، تم نے ریڑھ کی ہڈی کے چٹخنے کی آواز پر پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا تھا، تب میں نے تمہاری آنکھوں کا رنگ پہچانا، تمہیں کچھ یاد آیا؟
پہلا نوجوان ہنسا اور اس نے کہا : اس دن آدھی سے زیادہ مخلوق چلتے چلتے کبڑی ہوگئی تھی، بعد میں جب وہ لوگ پیدا ہوئے تو کبڑے لوگ مرد تھے، اس میں نیا کیا ہے؟
دوسرے نے کچھ سوچ کر کہا : ہاں ٹھیک ہے! مگر پھر تم نے کچھ دیر کے بعد مڑ کر میری طرف دیکھا تھا، میرے پاس ایک با سلیقہ اور تہذیبی چال سے بھری چیونٹی کھڑی تھی، ہمیں گفتگو کرتے دیکھ تم مسکرائے تھے، اب تمہیں کچھ یاد آیا؟
پہلا مسکرایا اور اس نے کہا : میں ساری زندگی محبت میں مبتلا انسانی جوڑے دیکھ کر مسکرایا ہوں، کچھ اور بتاؤ!
دوسرا فرد فوراً گویا ہوا : پھر ہاتف غیبی پر ایک توانا چیونٹا مجھ سے محوِ گفتگو با شعار چیونٹی کو دبوچ کر لے گیا تھا، تم مجھے اپنی ان ہی آنکھوں سے ٹکٹی باندھے دیکھتے رہے یہاں تک کہ میں ادھ مرا ہو کر رینگنے لگ گیا تھا۔
دوسرے فرد کی اس بات پر پہلا فرد جو تسلسل سے مسکرا رہا تھا، سپاٹ چہرے سے بھر گیا، اس کے چہرے سے کوئی خوشی یا غمی اخذ کرنا مشکل تھا، پھر اس نے خود ہی کہا :
ہاں میں تمہیں پہچانتا ہوں!
اب کی بار دوسرا فرد مسکرایا اور اس نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا :
تم کب پیدا ہوئے؟
فلاں مہینے، فلاں سن اور فلاں روز!
پہلے نے جواب دیا
اسی تاریخ کو میرے دل کا بٹوارہ ہوا تھا!
دوسرے نے دلخراش قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
پھر وہ دونوں چپ ہوگئے، کبھی کرسیاں گھورتے اور کبھی کیفے کی چہل قدمی میں خود کو الجھا لیتے
گھنٹوں بعد دوسرے نے پہلے سے کہا :
تم میرے چہرے کی طرف کیوں نہیں دیکھ رہے ہو؟

پہلے نے منہ ہی منہ میں ایک شعر بڑبڑایا :
اپنی آنکھوں میں قمر جھانک کے کیسے دیکھوں؟
مجھ سے دیکھے ہوۓ منظر نہیں دیکھے جاتے!
(شاعر : خلیل الرحمن قمر)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں