لاہور کی تنگ وتاریک گلیوں کے اندر کوچہ چابک سواراں (موجودہ نام محلہ سرفروشاں ) میں ایک چار منزلہ عمارت کے نیچے واقع اس مدرسے میں مزے کی بات یہ تھی کہ وہ لاہور سمیت پاکستان بھر کے خوش الحان قراء کا مرکز تھا ۔۔
کوئی بھی خوش آواز قاری لاہور آتا تو اس مدرسے کا چکر ضرور لگا تا ۔ لا ہور کے مشہور عامر ہوٹل کی سالانہ محفل حسن قرات تو گویا طلبہ کے لئے عید الفطر کی حیثیت رکھتی تھی ۔
جس سے دوہفتے قبل ہم لاہور شہر میں اشتہارات لگانے کی ڈیوٹی سنبھالنے لگ جاتے تھے ۔ ما نسہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک ساتھی اورمیں ۔۔چچاجی ہمیں اشتہارات کی ایک گڈی پکڑاتے اور اشتہارات چسپاں کرنے والا گاڑھا مادہ بھی شاپر میں بھر کر دے دیتے ۔
جس رات ہم اشتہارات چپساں کرنے جاتے اس شام کو چچا جی دل کھول کر ہمیں اضافی روٹی اورسالن بھی دیتے اور تالیف قلب کے لئے کھلے دل سے گپ شپ کرکے ہمیں خوش کرنے کی سعی کرتے ۔
دینی مدارس میں عمومی طورپر مدرسے کا کام طلبہ بہت خوشی سے کرتے ہیں ۔ جس کی ایک بڑی وجہ خدمت کا جذبہ بھی ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی کی مشقت اور استاذ کی سختی سے کچھ دیر کے لئے ملنے والی آزادی کے حصول کی خوشی بھی اس میں شامل ہوتی ہے ۔
اشتہار لگانے کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہتا ۔ رات عشا کے بعد ہم سائیکل پر دو دو لڑکے نکلتے اور رات گئے تک مساجد ، مدارس ، سینماہالوں، امام بارگاہوں اور مارکیٹوں کی دیواروں پر اشتہارات چسپاں کرتے ۔
ایسی ہی ایک رات جب ہم لاہور کے ایک بڑے مدرسے کے گیٹ پر جاکر اشتہار لگانے لگے ایسے میں طلبہ کی بڑی تعداد باہر آگئی اور عامر ہوٹل کی محفل حسن قرات کے اشتہار دیکھ کر نہال ہونے لگے ۔
طویل وعریض اور درجنوں خوش کن القاب کے حامل ناموں سے مزیّن اشتہار کو لیکر وہ دیکھتے رہے ۔ میرے ساتھی نے تین چار اشتہارات لگانے کے بعد میرے ہاتھ سے گڈی لے لی اور نہایت فراخدلی کے ساتھ طلبہ میں اشتہارات بانٹنے شروع کئے ۔ استفسار پر بتایا کہ یہ کتابوں والے طلبہ ہیں انہیں اپنی کتابوں پر لگانے کے لئے اچھے کاغذ والے اشتہارات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ دینی اشتہار ہے جسے طلبہ اپنی کتابوں پر لگائیں گے تو انہیں خوشی ہوگی اورساتھ ساتھ کتابوں کی حفاظت اور خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا اورہمیں ثواب ملے گا ۔
خیر کوئی پچاس کے قریب اشتہار اس نے طلبہ کو دے دیے ۔کچھ طلبہ نے ہماری تھکاوٹ کا احساس کرکے ہمیں چائے بھی پلائی اور ہم چل دیے ۔
اس زمانے میں لاہور کے دینی مدارس میں قاری ادریس آصف ،ادریس طارق، سید انورالحسن شاہ ، قاری احمد میاں تھانوی اور مصر سے تعلق رکھنے والے ایک قاری کی غیرمعمولی مقبولیت اورشہرت تھی ۔
کراچی کے برعکس لاہور کے دینی مدارس میں سیاسی ،مذہبی اور عسکری تنظیموں کے جلسے جلوسوں کے بجائے حسن قرآت کی محفلوں کا رواج تھا ۔
ایسی ہی ایک رات تھی ۔۔
موچی گیٹ کے قریب محفل حسن قرات برپا تھی۔ قراء حضرات اسٹیج پر آکر اپنی فنی مہارت اور حسن قرات سے حاضرین کو مسحور کررہے تھے۔ ہماری نظریں مگر لاہور میں مقیم مصری قاری مصطفی الازہری پر مرکوز تھیں ۔ قاری صاحب کے جلوہ افروز ہونے میں ابھی دیرتھی ،اسٹیج سیکرٹری اور منتظمین مجمع کو آخر تک اکٹھا رکھنے کے لیے قاری صاحب کو دعوت دینے کے موڈ میں نہیں تھے ادھر ہماری مصیبت یہ تھی کہ جمعہ کی صبح میرے اور ایک چترالی ساتھی کی صفائی کی باری لگی تھی ۔معمول کے مطابق مدرسے کی صفائی جمعہ کی صبح کی جاتی تھی مگراس روز آفت یہ آپڑی تھی کہ مدرسے کے اوپر رہائش پذیر ایک بااثر قاری صاحب کی کلاس میں بچے کی آمین (لاہورمیں ختم قرآن کی تقریب کو آمین کہتے تھے ) کی تقریب تھی ۔ جسے قاری صاحب نے اپنی مسجد کے بجائے مدرسے میں ہی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عشاء کے بعد انہوں نے معلوم کرکے پتہ لگا لیا تھا کہ صفائی کی باری ہماری ہے۔
قاری صاحب نے ہماری باری کے بابت جان کر ہمیں تلاش کرنے کے لئے ہرکارے دوڑا د یے تھے ۔
ابھی ہم تلاوت سے محظوظ ہو رہے تھے کہ اس دوران کسی نے ہمارے کاندھوں پر تھپکی دے کر ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی سعی کی ۔ یہ ایک فربہ اندام اور سلجھا ہوا کشمیری طالب علم تھا جو قاری صاحب کا پیا مبر بن کر ہمیں یہ کہنے آیاتھا کہ کل جمعہ کی صبح کی صفائی آج رات کو کرنی ہے ۔ ہم نے صریح انکار کیا اور اسے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے عمل سے باز رہنے کی تاکید کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ مدرسے کی راہ ناپنے کا مشورہ دے دیا۔
لڑکا شریف تھا ۔ مان گیا اور چلا بھی گیا۔ ہم نے تشفی دل اورتخفیف خوف کے طور پر آپس میں سرگرشی کرکے اسے جھوٹا بھی قرار دیا جس سے ہماری بے چینی کافور ہوگئی اور ہم دوبارہ سے زیادہ اطمینان اوردلجمعی کے ساتھ مصری قاری کا انتظار کرنے لگ گئے ۔ ادھر جب لڑکے نے ہمارے نہ آنے کی خبر دے دی تو قاری صاحب آگ بگولا ہو گئے۔۔۔انہوں نے ایک دوسرا قاصد روانہ کردیا ۔ کچھ دیر بعد دوبارہ سے ہماری کمر پر دستک ہوئی ۔ہم نے مڑ کر دیکھا تو لڑکے نے انتہائی وضاحت کے ساتھ بتایا کہ قاری صاحب شدید غصے کے عالم میں ہیں اور ہمیں فوری بلا یا ہے۔ ابھی وہ ہمیں سمجھا رہا تھا کہ ادھر سے ایک اور کشمیری طالبعلم دوڑتا آایا اور تیز آواز سے انتہائی خطرناک عواقب کا خطرہ ظاہر کرکے ہمیں جلدی سے مدرسہ پہنچ جانے کا حکم سنا دیا۔ پلاسٹک کے چپل ہاتھ میں لیکر زیر لب بڑبڑاتے ہوئے ہم اس محفل سے اٹھ کر نکلنے لگے جہاں ہرشخص ہمہ تن گوش تھا۔
چلتے ہوئے ہم مدرسے کے گیٹ پر پہنچے تو قاری صاحب کو جہنم کے داروغہ کی طرح دروازے پر کھڑے ہوئے پایا۔ بھنچے ہونٹ ۔۔پھلے ہوئے نتھنے ۔۔اور سرخ انگارہ آنکھیں ۔۔ قریب جاتے ہی قابل رشک جسمانی صحت اور سنگین دل سے مالامال اس موٹے تازے قاری صاحب نے میرے چترالی دوست کو ایک زوردار تھپڑ رسید کردیا جس سے وہ سیدھا تازہ دھلے ہوئے وضوخانوں کے آگے گیلی فرش پر منہ کے بل گرپڑا۔
ابھی وہ اٹھا نہیں تھا کہ ایک برقی تھپڑ مجھ بیچارے کے کاندھوں پر بھی پڑی ۔ اور میں لڑ کھڑا تے ہوئے سامنے کی دیوار سے ٹکرا گیا ۔۔۔ میرے سر میں بے شمار چیونٹیاں رینگنے لگیں۔
میرے چترالی دوست سے قاری صاحب کو خداواسطے بیرتھا جس کی وجہ یہ تھی کہ لڑکا پہلے قاری صاحب کی مسجد کا خادم تھا مگر کئی برس تک مسلسل صفائی کرنے کے باوجود بھی جب قاری نے اسے کچھ نہ دیا تو اس نے مزید بیت اللہ کی خدمت کرنے سے عاجزی ظاہر کی ۔ پھر کیا تھا ۔ قرآن کے اس خادم نے اسے مسجد سے نکال دیا مگر اپنے دل میں اس کی دشمنی کو نئی نویلی دلہن کی طرح ہمیشہ کے لیے بسالیا ۔ اس دن کے بعد قاری صاحب نے حیلے بہانے کرکے اس کے تعاقب میں رہنے کی قسم کھالی تھی ۔ اور یہ تو پھر ایک موقع کے ساتھ رسم دنیا اور دستور بھی تھا کہ ہم سے قصور سرزد ہوا تھا۔
ان لرزا دینے والے تھپڑوں کے بعد ہمیں اندر کمرے میں لے جایا گیا ۔اور گرجتی آواز میں ہمیں کان پکڑنے کی ہدایت کی گئی۔ قاری صاحب الماری سے اس خاص ڈنڈے یا چابک کو لینے چلے گئے جسے وہ عام طلبہ کو ڈرانے اور ہم جیسے گستاخ اور پُرتقصیر طلبہ کی پیٹھ لال کرنے کے لیے استعمال کر تے تھے ۔
ربڑ کا پائپ چڑھا یہ ڈنڈا مسجد وزیرخان کے منبر ومحراب میں ناچتی ترکتی نازنین کی کمر سے بھی زیادہ لچکدار تھا ۔ قاری صاحب کے ہاتھ میں لچکتا چابک دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں خدا سے ہر اس نیکی کا وسیلہ طلب کیا جس کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ میرے خاندان میں سے کسی بزرگ نے کبھی ضرور کی ہوگی۔
مجھے تب وسیلے کے جواز اورعدم جواز کا بھی پتہ نہیں تھا ۔ اور آج بھی یہ علم نہیں کہ دعاقبول ہوتی ہے یا نہیں مگر مجھے یقین کم از کم ہوگیا تھا کہ طالبعلم کی دعا اور التجا ضرور قبول ہو تی ہے۔
دوگھنٹے سے زائد وقت تک کان پکڑ کر جب ہمارے پسینے چھوٹے تب قاری صاحب نے میرے دوست پر چند زوردار ضربیں لگا نے کے ساتھ دشنام طرازی کے جملوں کی بم باری بھی کی ۔ جبکہ میرے چہرے کی زرد پڑتی رنگت پر رحم کھاکر اس خداترس نے مجھے آئندہ کے لیے حکم کی تعمیل کرنے کی ہدایت کرکے چھوڑدیا ۔
اس خوفناک اور ذلت آمیز سزا کے بعد ملنے والی معافی کو نعمت خداوندی سمجھ کر بسترے لگا کر ہم لیٹ گئے ۔ آنکھوں سے گرتے آنسو اور بے بسی کی ہچکیوں کے عالم میں جانے کب آنکھ لگی اور تایا جی کے خصوصی چمچے ع ب س کی کریہہ آواز پر دوبارہ کھل گئی ۔ فجر پڑھ کر ہم دوبارہ سوگئے ۔
دس بجے کے قریب قاری صاحب کا لڑکا ہمیں خاص طور پربلانے آگیا۔ قاری صاحب نے ہمیں بلاکر زبردستی اپنے قریب بٹھایا اور ناشتے کے لیے چھولے پراٹھے ، قیمہ بھر ے نان،لسی کے بھرے گلاس اور دیگر متنوع آئٹمز رکھ کر کھانے کی دھمکی آمیز دعوت دے دی ہم نے ناشتہ کرلیا اور رات کی ناراضگی رفوچکر ہوگئی۔
قاری صاحب بے تحاشا سخت مگر انتہائی خوش مزاج انسان تھے ۔ جانے ابھی زندہ ہوں گے یا نہیں اس مدرسے سے نکلنے کے بعد آج تک دوبارہ انہیں دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔ اللہ سلامت رکھے ۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں