پاکستان میں کرکٹ سیاست کے ساتھ جڑ گئی اور متنازعہ ہوتی گئی- سیاسی تعصب نے پاکستان کرکٹ کو تقریباً خاتمے کی راہ پر گام زن کر دیا ہے- ہمارے کرکٹرز کئی زاویوں سے سیاست میں ملوث ہیں- ایک تو ٹیم کے اندر ذاتی مفادات کی سیاست ہے- بظاہر ایک دو کھلاڑی ایسے ہیں کہ کپتان بننے کا جنون جن کے سروں پر سوار ہے- بعض سابق با اثر کھلاڑیوں کی عمداً یا سہواً سرپرستی بھی انھیں حاصل ہے- بعض سابق کرکٹرز کے اعزہ واقارب ٹیم میں بھی اور کرکٹ بورڈ میں بھی، مختلف جگہوں پر تعینات ہیں- پھر ٹی وی چینلز اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے بھی اپنے اپنے مفادات کا منجن بیچا جاتا ہے- اب سوشل میڈیا کی اثر انگیزی بھی شدید ہے- اگر اس دنیا میں اعلیٰ ترین عدالتوں کے بعض ججز قانون کو پس پشت ڈال کر، یوٹیوب اور ٹویٹر ٹرینڈز سے متاثر ہو کر فیصلے کرتے ہوں، تو کیا وہاں کھلاڑی ایسا کرنے سے باز رہ سکتے ہیں؟ جن کھلاڑیوں کو کپتان بننے کا شوق ہوتا ہے، وہ کسی اور کو بطورِ کپتان کام یاب نہیں دیکھ سکتے- ایسے کھلاڑی ٹیم میں رہ کر اس انداز میں کھیلتے ہیں کہ ان کی اپنی جگہ بھی برقرار رہے اور ٹیم کوئی ٹورنامنٹ بھی نہ جیت سکے- ان کی کپتانی والی خواہش سابق کھلاڑیوں اور نام نہاد تجزیہ کاروں کی زبانوں سے میڈیا میں لائی جاتی ہے- رفتہ رفتہ شائقین کرکٹ میں ایک حلقے کی رائے بن جاتی ہے کہ فلاں کپتان ٹھیک نہیں ہے، اس کی جگہ فلاں کھلاڑی کو ایک موقع دیا جانا چاہیے- “موقع دلانے” والا یہ بعینہٖ وہی طریقۂ واردات ہے جس کے ذریعے 2018 میں پاکستان کے سیاسی اقتدار پر ایک شخص کو مسلط کیا گیا اور پھر سیاست کے ساتھ معیشت اور معاشرت بھی اجاڑ دی گئی- یہی طریقہ اب اس ملک کی کرکٹ کو بھی برباد کر رہا ہے- دوسرا، بظاہر ٹیم کے اندر ایک نام نہاد سیاسی جماعت کے چند متعصب حامی موجود ہیں جو ہر میچ مذکورہ سیاسی جماعت کے مفاد کے مطابق ہارنے یا جیتنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں- کرکٹ شائقین کو یاد ہو گا کہ پی ایس ایل کی ایک ٹیم نے کچھ عرصہ قبل اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے پروفائل میں ایک سیاست دان کی تصویر لگا دی تھی- اس ٹیم کے بہت سے کھلاڑی قومی ٹیم میں بھی شامل ہیں- مذکورہ سیاست دان کے عشاق اس ٹیم کے عاشق بنے یا نہ بنے، مخالفین ضرور متنفر ہو گئے- یہ دیکھ کر اس اکاؤنٹ سے وہ تصویر فوراً ہٹا دی گئی- لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا- لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ ایک سیاسی جماعت کرکٹ کے کھیل کو بھی الوددہ کر چکی ہے- جب کچھ کھلاڑی خالصتاً کھیل سے محبت کرنے کی بجائے کسی مخصوص سیاسی جماعت کے نکتہ نظر سے کھیلتے ہوں تو اس کے ردعمل میں، باقی کھلاڑیوں کے دلوں میں اس سیاسی جماعت سے بے زاری پیدا ہونا فطری امر ہے- اس کا ذمے دار کون ہے، یہ لکھنا ضروری نہیں- جاننے والے پہلے ہی جانتے ہیں- جو نہیں جانتے تھے، ان میں سے سمجھ دار لوگ اب سمجھ چکے ہوں گے- اور جو لوگ اب بھی نہیں سمجھ سکتے، ان کے لیے وضاحت کرنا بے کار ہے- المیہ یہ ہوا کہ جس شخص نے سالہا سال تک کرکٹ کو اپنی سیاست چمکانے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا، اسی شخص کی سیاست نے کرکٹ کو برباد کر دیا- اگر کرکٹ اور چندے سے بنے ہسپتال کو اقتدار کی سیاست کے لیے استعمال نہ کیا جاتا تو آج سیاست، کرکٹ اور خیراتی ادارے، تینو زیادہ بہتر حالت میں نظر آتے- اس سیاسی جماعت نے نہ صرف کھلاڑیوں کو تقسیم کیا، بل کہ شائقین کرکٹ کو بھی تقسیم کر دیا- اب جہاں بھی میچ ہوتا ہے، اس جماعت کے متعصب کارندے وہاں پہنچ جاتے ہیں- وہ خود میچ سے لطف اندوز ہوتے ہیں نہ دوسروں کو ہونے دیتے ہیں- ان کا مقصد کرکٹ نہیں، سیاست ہے- پویلین میں وہ لوگ کھیل کو داد دینے کی بجائے اپنے لیڈر کی حمایت اور دوسروں کے بعض اور نفرت میں نعرے بازی کرتے اور کتبے لہراتے رہتے ہیں- جس کے جواب میں ان کے مخالفین کے دلوں میں بھی کدورت بڑھتی جا رہی ہے- یوں ان لوگوں نے اس کھیل کو بدمزہ بنا دیا ہے- جہالت اب اتنا “ترقی” پا چکی ہے کہ ایک میچ کے دوران گراؤنڈ کے اوپر عدالتوں سے سزا یافتہ ایک سیاست دان کی رہائی کا غیر قانونی مطالبہ ہوائی جہاز کے ذریعے لہرایا گیا- کرکٹ میچ، خصوصاً پاک بھارت میچ کے لیے ہر سمت سے گراؤنڈ کی سیکورٹی انتہائی سخت ہوتی ہے- اتنی ٹائٹ سیکیورٹی کے باوجود امریکی حکومت نے اس جہاز کو گراونڈ کے اوپر سیاسی چکر چلانے کی اجازت امریکی حکومت نے کیوں دی؟ امریکی حکومت کی یہ اجازت اور سرپرستی بہت کچھ ثابت کرتی ہے- غور کیجیے کہ وہاں امریکی سرپرستی حاصل ہے جب کہ یہاں امریکی سازش اور غلام نہیں والے ڈرامے چلا کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے- اس ساری سیاست بازی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان امریکہ جیسی ایک نومولود ٹیم سے بھی ہار کر ذلت محسوس نہیں کر رہا اور بہت اطمینان سے ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی کے پہلے ہی مرحلے میں فارغ ہو گیا- اور دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اب پاکستانی عوام کو بھی کرکٹ سے وہ جذباتی لگاؤ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا- تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ بعض سابق کرکٹرز سمیت بہت سے سماجی دانش ور اب سر عام مطالبہ کر رہے ہیں کہ کرکٹ کو چھوڑ کر سرکاری طور پر ہاکی اور فٹ بال جیسے کھیلوں کو دوبارہ فروغ دیا جائے, کبڈی، سنوکر، سکواش، تیراکی، بیڈمنٹن اور ٹینس جیسے کھیلوں پر سرکاری وسائل صرف کیے جائیں-
حالت یہ ہو چکی کہ جاری ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی سے پاکستانی ٹیم کے بے ابرو اخراج پر پاکستان میں بہت کم لوگوں کو افسوس ہوا- دوسری طرف آسٹریلیا کی لگاتار دوسری شکست نے پاکستانیوں کو زیادہ دکھ پہنچایا ہے- آسٹریلیا روایتی طور پر کھیل کو کھیل سمجھ کر پوری لگن اور زبردست محنت سے کھیلنے والی ٹیم رہی ہے- ون ڈے انٹرنیشنل میں 6 ورلڈ کپ جیتنے کے باوجود کبھی کسی کپتان کے دل میں خود کو پورے آسٹریلیا کا کپتان بنانے کی ہوس پیدا نہیں ہوئی- پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرکٹ سے محبت کرنے والے کروڑوں لوگ آسٹریلیا کے ہر میچ کو بہت توجہ اور دل چسپی سے دیکھتے ہیں- نئے کھلاڑی تو آسٹریلیا کے میچز دیکھ دیکھ کر سیکھتے رہے ہیں- گزشتہ دنوں سپر ایٹ مرحلے میں پہلے افغانستان اور پھر بھارت سے ہارنے کے بعد آسٹریلیا کے کھلاڑی جانے افسردہ ہوئے یا نہیں، پاکستان میں کرکٹ کے چاہنے والے بہت بے مزہ ہوئے- کیا قیامت ہے کہ ایک ایسا ورلڈ کپ بھی کھیلا جا رہا ہے کہ آسٹریلیا جس کے سیمی فائنل میں بھی نہیں ہے- یہ تو خود اس کھیل کے لیے سوالیہ نشان اور المیہ ہے- یقین نہیں آتا کہ کہ دنیا کے بہترین بلے بازوں، گیند بازوں اور حیرت انگیز فیلڈرز والی ٹیم افغانستان سے ہار گئی- باریک بینی سے اندازہ ہوتا ہے بظاہر نارمل نظر آنے والے میچز دراصل نارمل انداز میں نہیں کھیلے گئے- دنیا کی طاقت ور ترین اور چیمپئن ٹیم نے جب افغانستان کے 148 رنز کا معمولی سا ٹارگٹ بھی حاصل نہ کیا تو بھارت جیسی تجربہ کار ٹیم کے 205 رنز کے مقابلے میں ڈھیر ہو جانا تو ان کے لیے بہت آسان، منطقی اور ضروری تھا- اسی لیے جب بھارتی ٹیم نے کھیلنا شروع ہی کیا تھا تو اس طالب علم نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر آسٹریلیا کی “شکست” کی پیش گوئی کر دی تھی- دوسری اننگز میں ایک ایسا وقت آیا جب پچ پر ٹریوس ہیڈ اور گلین میکسویل جیسے تجربہ کار اور شان دار بلے بازوں کی جوڑی کھڑی تھی- ایسا حسین اتفاق بہت کم ہوتا ہے- پھر سامنے اکسر جیسا عام سا باؤلر تھا- لیکن پورے اوور میں صرف تین گیندوں پر ایک ایک سکور بنایا گیا- فلم کی کہانی حیرت انگیز تھی- امکانات کے منظر نامے کے کسی کونے میں ایک یہ تصور ضرور موجود ہے کہ یہ سارا ورلڈ کپ “نیچرل گیم” سے زیادہ “ارینجڈ گیم” ہے- دوسرا تصور یہ بھی ہے کہ شاید افغان کھلاڑیوں کو گراونڈ سے کپ سمیت رخصت کرنے کے منصوبے ہوں- حقائق ان تصورات سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں- آسٹریلیا کی لگاتار دوسری شکست سے اگلے ہی دن بارش زدہ گراؤنڈ پر بنگلہ دیشی بلے باز کو آؤٹ کر کے افغان باؤلر نوین نے چہرے, آنکھوں اور بازوؤں سے جس نفرت، اشتعال اور غصے کا اظہار کیا وہ کھیل بالکل نہیں ہے- یہ رویہ کھیل کو تباہ کر سکتا ہے- اندیشہ اور آثار یہ ہیں کہ آسٹریلیا کرکٹ کے زوال کا سفر یہاں نہیں رکے گا، بل کہ آنے والے وقتوں میں آسٹریلین ٹیم دنیا بھر میں اپنے مداحوں کو مزید مایوس کرتی نظر ائے- معلوم نہیں یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جائے گا یا خود بخود ہو گا- دوسری جانب اب افغانستان، امریکہ اور کینیڈا جیسی نومولود ٹیمیں عالمی کرکٹ کی کرتا دھرتا بننے کی تیاریاں کر رہی ہیں- جس طرح پاکستان میں “نیا پاکستان” بنانے کی فلم چلوائی گئی، اسی طرح کیا آسٹریلین ٹیم میں بھی “نیا آسٹریلیا” والی فلم کے جراثیم سرایت کر چکے ہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں