ٹاپ ٹرینڈنگ وحشی عورت/عمارہ فرحت

جس ماں کا بیٹا وطن کے دفاع میں اپنی جان پر کھیل گیا اس نے ٹی وی لگا کر دیکھا تو کچھ وحشی درندے ملکی املاک کا نقصان کرنے میں اس شدت سے مصروف تھے کہ انہوں نے شہدا کی یادگاریں جلا چھوڑیں، ٹی وی پر ساتھ ساتھ سب رپورٹ ہو رہا تھا، ہر سو جلاؤ گھیراؤ، گالم گلوچ چل رہی تھی، لوگ ڈر کر گھروں میں چھپنے لگے۔ ٹی وی رپورٹر نے مائیک ایک جنونی عورت کے سامنے کیا۔ ”ہماری ریڈ لائن کراس ہوئی ہے، ان کو اب ہم بتائیں گے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ان کی ایسی کی تیسی، اپنی امی کا رشتہ دینا ہے انہوں نے چیکنگ کے لیے لے کر گئے ہیں“۔ اس کے بعد اس نے اپنے ارد گرد لوگوں کو اتنا اشتعال دیا جتنا کوئی دلا سکتا ہے۔ اس نے بڑھ چڑھ کر افواج کو گالیاں دیں، اس نے مغلظات بکیں، اس نے کیمرہ کے سامنے دیدہ دلیری سے کہا ”تمہاری جرأت کیسے ہوئی تم اسے گریبان سے پکڑ کر لے گئے؟ ہم وہ ہاتھ توڑیں گے جو اس کے گریبان تک گیا۔ ہم کھل کر گالیاں دیں گے، ہمارے پیسوں پہ پلنے والے اسے کیسے کالر سے پکڑ کر لے گئے” اور پھر اس وحشی ٹولے نے جناح ہاؤس پہ دھاوا بول دیا، دیواریں پھلانگ کے گھسے، عمارت کے شیشے توڑ دیے، اینٹ سے اینٹ بجا دی، ٹائر جلا چھوڑے اور کونسی ایسی غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر انسانی حرکت ہوگی جو وہاں نہ ہوئی ہو۔ اس وحشی گروہ کا جو نمائندہ کسی بھی چینل پر اپنے نادر خیالات کا اظہار کر رہا تھا وہ ان لوگوں کو گالیاں دے کر بات کر رہا تھا جو عوام کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں دے چھوڑتے ہیں۔ وہاں ہر شخص چیخ رہا تھا کہ جی ”ہمارے پیسوں پہ پلتے ہیں اورعیاشیاں کرتے پھرتے ہیں“ اور اس لفظ عیاشی پہ وہ عورت تقریباً بے ہوش ہو گئی جس کا شوہر
پچھلے چار ماہ سے گھر نہیں لوٹا تھا، اور ہر رات وہ اس خوف کے ساتھ سوتی کہ بیوگی کی اطلاع آج آتی ہے یا کل آتی ہے۔ اس عورت نے لفظ عیاشی پہ اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ سب مائیں بہنیں بیٹیاں بیویاں سوچ رہی تھیں ان کے گھر کے مردوں کو کسی برفیلی چٹان پر، ٹھٹھرے وجود کے ساتھ، ایک مٹھی بھنے چنے کھا کر عید منانے کا یہ صلہ دیا گیا؟ کہ انہیں ملک دشمن، عیاش اور نجانے کیا کچھ کہہ چھوڑا گیا۔ خیر چوبیس گھنٹے کے اندر ادارے حرکت میں آئے اور اپنے شہدا کی ناموس کو مٹی میں رولنے والے شر پسند عناصر کو پکڑنے لگے، بہت سے اپنی حرکت سے مکرنے لگے، کچھ کاکروچوں کی طرح چھپتے پھرنے لگے۔ لیکن ریڈ لائن تو ادارے کی کراس کی گئی تھی، املاک تو ادارے کی توڑی گئیں، ادارہ متحرک ہوا، سی سی ٹی وی کی مدد سے ایک ایک کو چن چن کر پکڑ کر جیلوں میں ڈالا۔ اور پھر وہ شر انگیز بد قماش عورت بھی گرفتار کر لی گئی، وہ اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے وکٹری کا سائن بناتی ہوئی پولیس وین میں بیٹھی، شہدا کو ملنے والے میڈلز کا مذاق اڑا کر تضحیک آمیز لہجے میں گویا ہوئی ”آپ اتنے نیچ ہیں کہ آپ عورتوں پہ حملہ کرنے کے لیے کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی میں گھسیں؟ آپ کو اس بات پر میڈل دیں؟ میری جوتی نہیں ڈرتی کسی سے” پھر اس درندوں کے گروہ نے اس کی گرفتاری کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کر دیا، اور کمنٹس میں لوگوں نے ادارے کو کونسی گالی ہوگی جو نہ دی ہو۔ چند ہی دنوں میں گروہ نے شور مچا دیا کہ ملک کی بیٹی کے ساتھ جیل میں زیادتی کی گئی، اس کی عزت درگور ہو گئی اور اس پہ ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ اور وہ ملک میں انتشار پھیلانے کے اپنے مشن پر دل و جان سے ڈٹی رہی، اس نے این اے ۱۱۹ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، ہر سیاسی جماعت کی ہر کارکن کے بارے میں اپنے ویڈیو بیانات میں غیر پارلیمانی زبان استمال کی اور اپنی بدتمیزی کا جواز ان الفاظ میں دیا کہ ”تم نے اپنی پوری پارٹی کھلی چھوڑی ہوئی ہے عورتوں پر بھونکنے کے لئے۔” ہار کے خوف سے خود ہی وہ الیکشن سے دستبردار بھی ہو گئی۔ نہ اس کا کوئی سیاسی منشور تھا، نہ کوئی حکمت عملی، اسے تو فقط بدزبانی کے لئے رکھا گیا تھا۔ بارہا ضمانت ہوئی بارہا دھرا گیا۔ پھر ایک سال بعد اسے جب رہا کیا جانے لگا وحشی ٹولے نے پھر سے سوشل میڈیا پر اس ملک دشمن عورت کو اپنا آئیڈیل بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا، شر پسند عورت کو پھر سے گرفتار کر لیا گیا اور باقی کے ٹولے نے ٹرینڈز چلانے شروع کر دیے۔اس نے ایک بیان میں کہا کہ میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہوں میں ملک کا پیسہ لوٹ کر نہیں کھاتی، تو سوال میرا یہ ہے کہ آخر چھوٹے سے گھر میں رہنے والی مہنگے برانڈڈ کپڑے پہن کر سڑکوں پہ کیسے دندناتی پھرتی ہے؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے آج اگر اس جنونی عورت کی کھال بھی ادھیڑلیں تو کیا اس ماں کی آنکھ سے بہنے والے اس ایک اشک کی قیمت چکائی جا سکتی ہے جو لفظ عیاش پہ اس عورت کی آنکھ سے بہہ نکلا جس کی دیوار پہ ایک شہید کی تصویر سجی ہے؟ مجھ پر مٹی کا ایک قرض ہے،کل کو اگر کسی برفیلی چٹان پہ سال بھر کی کٹھن ڈیوٹی سے واپس آکر کسی سپاہی نے مجھ سے اپنی عیاشی کا حساب مانگ لیا تو میرے ہاتھ میں ایک قلم ہے جو یہ گواہی دے گا کہ کم از کم میں شیشے توڑنے والوں، گالیاں بکنے والوں میں شامل نہیں تھی۔ میں نے اپنے حصے کی شمع جلائی تھی۔

julia rana solicitors london

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply