ہمارے یہاں لوگ ضرورت سے زیادہ ادویات کا استعمال کرتے ہیں لیکن کیا یہ ادویات آپ کو نفسیاتی یا جسمانی طور پر نقصان پہنچاتی ہیں؟؟
مجھے یہ آرٹیکل لکھنے کا خیال کبھی نہ آتا اگر میں خود اس درد سے نہ گزرتی اور ادویات کے ضمنی اثرات کا سامنا نہ کرنا پڑا ہوتا۔ مجھے دھول مٹی سے الرجی ہے اور الرجی کے لیے کچھ ادویات اور اسپرے ڈاکٹر کے کہنے پر استعمال کیے۔ الرجی تو وقت کے ساتھ ٹھیک ہوتی رہی لیکن سر میں درد اٹھنے لگا، جو مجھے لگا کہ الرجی سے انفیکشن ہونے کی وجہ سے ہے۔ لیکن ڈاکٹر کو دکھانے پر معلوم ہوا کہ سر کا درد الرجی کی وجہ سے نہیں ہے، ڈاکٹر نے پوچھا زندگی میں کوئی پریشانی یا اسٹریس ہے تو میرے انکار پر انہوں نے کہا بہت ممکن ہے ادویات کے ضمی اثرات کی وجہ سے بظاہر مگرین لگنے والا درد سر میں اٹھ رہا ہے۔ ڈاکٹر نے چند ہفتوں کے لیے ادویات بند کرکے درد کو نوٹ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگر بہتر نہ ہو تو کسی فزیشن کو دکھانا ہے۔
ادویات چھوڑنے کے چند ہفتوں میں بلکل نارمل ہوگئی اور سر کا درد غائب ہوگیا کیونکہ وہ مگرین نہیں بلکہ ادویات کے ضمنی اثرات تھے۔
ادویات کے ضمی اثرات ہماری جسمانی اور ذہنی دونوں صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہر انسان میں مختلف طریقے سے ہوسکتے ہیں تو بعض کو بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ جب میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا تو مجھے یاد آیا کہ سائیکالوجی میں ذہنی بیماریوں کے متعلق پڑھتے وقت ہر ذہنی بیماری میں ایک قسم “ادویات/نشہ سے ہونے والی ذہنی بیماریوں” کی ہوتی ہے۔
جی ہاں جناب! ضروری نہیں کہ آپ کے ڈپریشن کے پسِ پشت محض ٹروما ہو، بہت ممکن ہے کہ اگر کولیسٹرول، ذیابیطس یا کسی بھی قسم کی ادویات آپ لے رہے ہیں ان کے ضمنی اثرات کی وجہ سے آپ کے موڈ اور نفسیاتی صحت پر برا اثر پڑ رہا ہو۔
یقیناً کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جنکا علاج ادویات کے بغیر ممکن نہیں لیکن بہت سی بیماریوں میں آپ اگر اپنا طرزِ زندگی بدل دیں جیسے کہ کھانا پینا، اپنے جذبات کو سمجھنا، ورزش/واک کرنا، تو کسی حد تک آپ ان ادویات پر اپنا انحصار کم کرلیں گے۔ میری ایک دوست جو فارماسسٹ ہیں وہ کبھی بھی سر درد میں پیناڈول یا کوئی بھی پین کلر نہیں کھاتی، اور کہتی کہ تھوڑی دیر آرام سے درد صحیح ہوجاتا ہے، اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ ان ادویات میں موجود کیمیکل کیا کرسکتے ہیں تمہاری صحت کے ساتھ تو شاید تم لوگ ہر چھوٹی سی بات پر انہیں نگلنا چھوڑ دو گے۔
امیر ترقی یافتہ مغربی ممالک بیوقوف نہیں ہیں جو ادویات کی رسائی کو مشکل بناتے ہیں اپنی عوام کے لیے کیونکہ شاید انہیں اپنی عوام کی صحت کی فکر ہے۔
ادویات پر انحصار ختم کرنے کے لیے ضروری ہے “جسمانی درد” کو برداشت کرنا سیکھنا۔ سائنس کی ایجادات کے فائدے تو ہیں لیکن نقصانات بھی کم نہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری جسمانی درد کو برداشت کرنے کی سکت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ میری بھی غلطی یہ تھی کہ محض تھوڑی سی چھینکیں آنے پر یا آنکھوں میں خارش ہونے پر میں فوراً سے دوائی لیتی، جبکہ مجھے پہلے تو اپنے ٹریگر نوٹ کرنے چاہیے تھے اور پھر ان سے دور رہنا چاہیے تھا، ماسک کا استعمال کرنا چاہیے کسی ایسی جگہ جانے یا کام کرنے سے پہلے جس میں دھول مٹی ہوگی۔ لیکن میں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور ادویات کو استعمال کرنا بہتر سمجھا کیونکہ اس سے فوری آرام آجاتا ہے، کہیں نہ کہیں میں بھی جسمانی درد سے بھاگتی ہوں۔ یہ سبق میں نے یقیناً بہت تکلیف سے گزر کر سیکھا اور شاید کچھ سبق فطرت چھتر کھلا کر ہی سکھاتی ہے۔
بہت سے لوگ اپنے اسٹریس سے نمٹنے کے لیے نشہ کا استعمال کرتے ہیں، زیادہ تر تمباکو نوشی کا، لیکن یہ نشہ اترنے کے بعد آپ کے اسٹریس کو مزید دگنا کرسکتا ہے۔ پھر اس دگنے اسٹریس کو کم کرنے کے لیے دوبارہ نشہ کا استعمال کرتے ہیں لیکن یہ چکر یونہی چلتا رہتا ہے جب تک کہ اسے توڑا نہ جائے۔ اس کے لیے محض نشہ نہیں بلکہ مکمل طرزِ زندگی بدلنا ضروری ہے، اور اپنے جذبات کو سمجھنا ضروری ہے۔
جسمانی درد کو خود بھی برداشت کرنا سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی برداشت کرنا سکھائیں۔ فوری آرام اور فوری نجات کے نتائج اکثر درست نہیں ہوتے۔ اپنے جسم کو خود اس درد سے نمٹنے کا موقع دیں اگر تو بیماری زیادہ سنگین نہیں اور مختلف اقدامات، پروٹوکول، اور تبدیلیاں لاکر معاملات بہتر ہوسکتے ہیں تو ضرور کریں اور ادویات کے آپ کے نفسیات اور ذہنی و جسمانی صحت پر ہونے والے برے اثرات کو روکیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں