توہین مذہب کا الزام لگا کر قاتل ہجوم نے سوات میں ایک تازہ کارروائی کرتے ہوئے ایک اور بے گناہ شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس نوعیت کا یہ نہ تو پہلا واقعہ ہے اور حالات دیکھتے ہوئے انتہائی تکلیف دہ پیش گوئی یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہوگا۔
ہمارے کرم فرما حضرت سانول عباسی نے اس موضوع پر ایک گفتگو کا اہتمام کیا تھا جس میں اس موضوع پر کچھ بنیادی گزارشات عرض کی تھیں۔ بعض احباب کا فرمانا یہ تھا کہ گفتگو کے اہم نکات کو تحریری شکل میں بھی شائع ہونا چاہیے ,یہ چند سطریں عجلت میں اپنے احباب کے اس حکم کی تکمیل میں تحریر کی جا رہی ہیں۔
یہ واقعات جس قدر تکلیف دہ اور روح فرسا ہوتے ہیں وہ تکلیف بیان سے باہر ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کے کہتا ہوں کہ ان واقعات سے کہیں زیادہ تکلیف دہ وہ گفتگو ہوتی ہے جو ان واقعات کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کی جاتی ہے۔ روزی روٹی کے مسائل بعض اوقات واقعات کو تفصیل سے دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں مگر میں آج کی تاریخ تک ان واقعات پر ایک بھی ایسی تحریر دیکھنے سے قاصر ہوں, جو مکمل عوامل کا احاطہ کرتی ہو۔ ان واقعات پر ہونے والی ساری گفتگو کو اگر مختصراً بیان کرنے کی کوشش کروں تو وہ تین نکات میں بیان ہو سکتی ہے۔
1-تواتر سے ہونے والے یہ واقعات بنیادی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر ان کی کارکردگی مناسب ہوتی تو ان واقعات کو بہت آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ادارے ان واقعات کا سدباب کرنا تو کجا ان کو موقع پر موجود ہوتے ہوئے بھی روکنے میں بالعموم ناکام رہتے ہیں۔ سوات کا واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے۔ اگر پولیس ان واقعات میں ملوث ذمہ داروں کا تعین کر بھی لے تب عدالتیں ان واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں دینے سے ہچکچاتی ہیں۔ جس کا نتیجہ ایسے واقعات کے تسلسل کی صورت میں نکلتا ہے۔
2- ہمارا مذہبی طبقہ ان واقعات کی پوری ذمہ داری لینے اور ان کے خلاف ایک متفقہ موقف اختیار کرنے سے انکاری ہے۔ جس کی وجہ سے عوامی ہجوم گستاخ مذہب کے خلاف ایسے اقدام کرنے کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ ایسا نہ کرنے والوں کو غلط اور گستاخان مذہب کے ساتھ شریک جرم گردانتے ہیں۔ “گستاخ کی سزا۔۔۔ ۔۔” کا نعرہ مذہبی علما نے ہی لگایا تھا جو قاتل ہجوم لگاتے ہوئے بے گناہ افراد پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔
3- ملک میں موجود مذہب کے خلاف طبقات کے ہاتھ ان واقعات کے بعد ایک ایسی دلیل لگ جاتی ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ مذہب کے خلاف اپنے موقف کو زیادہ مضبوطی سے پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ مذہب تشدد کی تبلیغ کرتا ہے اور ایسے واقعات کا تسلسل سے اور مستقل ہونا ایک مذہبی ریاست میں ناگزیر ہے۔
آیئے ان تینوں نکات کو ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توہین کے معاملے پر آج تک کی کارکردگی پر نظر ڈالیے۔ سلمان تاثیر مرحوم کا قتل آپ کو یاد ہوگا۔ جب وہ قتل ہوئے تو وہ پاکستان کi آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے گورنر تھے۔ پولیس نے ان کی حفاظت کے لیے جن اہلکاروں کو مامور کیا تھا ان میں سے ایک ممتاز قادری ان کا قاتل تھا۔ اس کو قتل کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا اور اس نے گرفتاری پر کوئی مزاحمت بھی نہیں کی۔ آپ نے یقیناً وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی جس میں دیگر پولیس اہلکار اس سے نعتیں سن کر محظوظ ہو رہے ہیں۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ اس کی وکالت ہائی کورٹ کے ایک سابق جج کر رہے تھے جنہوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی تھیں۔ وکلا کی ایک بڑی تعداد ان سابق جج صاحب کی معاونت کے لیے موجود ہوا کرتی تھی اور ہر پیشی کے بعد پولیس کی حراست میں آنے والے ممتاز قادری پر کس طرح پھول برسائے جاتے تھے۔ گو عدالت نے قادری کو موت کا فیصلہ سنایا تھا اور پھانسی کی سزا پر عمل درآمد بھی کرا لیا گیا تھا مگر آپ کو جنازے کا جلوس تو یقینا ًیاد ہوگا۔ ممتاز قادری کو دی جانے والی پولیس مراعات اور پروٹوکول اور اس کے جنازے میں شریک افراد کی تعداد توہین کے موضوع پر پولیس اور عوام دونوں کی رائے سے ہمیں بخوبی آگاہ کرتی ہے۔
ہمارے ملک میں فوج بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شمار کی جاتی ہے۔ جہاں تک پاکستانی فوج کا تعلق ہے تو فیض آباد دھرنے کے شرکاء میں رقوم کے لفافے تقسیم کرنے والے فوجی افسر کی ویڈیو آپ کو یاد ہوگی۔ مجھے یہاں یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ “توہین کی سزا سر تن۔۔ ۔۔” کا نعرہ فیض آباد دھرنے کی ذمہ دار تحریک لبیک نے لگایا تھا۔ اسی فیض آباد دھرنے پر عدالت کا فیصلہ بھی آپ کو یاد ہوگا اور اس فیصلے کے لکھنے والے جج صاحب پر گزرے حالات بھی یقیناً آپ کے حافظوں میں تازہ ہوں گے۔ آپ نے یقینا ًیہ بھی پڑھ رکھا ہوگا کہ فیض آ باد دھرنے کے پیچھے مقاصد اور عوامل کیا تھے اور کیوں آج تک اس دھرنے کے ذمہ داروں کے خلاف عدالتی فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ پھر یاد دلاؤں یہ دھرنا توہین کی موجودہ مہم کی سب سے بڑی مدعی جماعت کے کارکنوں نے دیا تھا۔
نئی دِلّی میں چلتی بس میں ایک نوجوان خاتون کو ریپ کر کے اتنا زخمی کر دیا گیا تھا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر کچھ ہی دنوں میں جان کی بازی ہار گئی تھی۔ اس واقعے کے مجرموں اور ان کے وکیلوں کا موقف یہ تھا کہ اگر خواتین نامناسب کپڑے پہن کر گھر سے نکلیں گی تو ان کو ریپ سے بچانا ممکن نہیں رہے گا۔ ہندوستان میں پولیس کے اہلکاروں کی رائے ایک سروے میں جاننے کی کوشش کی گئی تو اکثریت کا موقف اس معاملے میں بالکل وہی تھا جو اس واقعے میں ملوث مجرموں کا تھا۔ وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ ریپ کے ان واقعات کی اصل وجہ خواتین کی بے لباسی ہے۔ میں دعویٰ تو نہیں کر سکتا لیکن وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ پولیس اور فوج کے اہلکاروں سے توہین کے معاملے پر رائے لے کے دیکھیے ان کی اکثریت “گستاخ کی سزا۔۔” والے موقف پر کھڑی نظر آئے گی۔
عباسی صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد سنجیدگی سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کوئی واقعی توہین مذہب کا مرتکب ہو تو کیا کرنا چاہیے۔ ؟گزارش کی کہ اوّل تو پاکستان میں ایسے چند واقعات میں ذہنی امراض کے شکار افراد کے علاوہ کوئی اور ملوث نہیں پایا گیا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں کوئی ذی ہوش انسان ایسا کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ جس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں نذر آتش کر دی جاتی ہیں۔ اس مفروضہ سوال پر اصرار جاری رہا تو عرض کیا کہ ایسی صورت میں قانون موجود ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں۔ معاملہ ان تک پہنچایا جانا چاہیے مگر یہ جواب تشفی فراہم نہیں کر سکا۔
ہماری حالیہ تاریخ میں توہین کے معاملے کو ذرا پیچھے جا کر دیکھیے۔ توہین صحابہ کے نام پر گزشتہ چار دہائیوں میں جو خون خرابہ ہوا ہے اس کے ایک کردار نے مختلف عدالتوں میں منصفین کے سامنے بارہا یہ کہا کہ ہاں میں نے اتنے گستاخان صحابہ کا خون کیا ہے مگر اس اعتراف کو ہر جج نے ہنس کر ٹال دیا۔ یہ کردار ایک دن جب اپنی افادیت کھو بیٹھا اور پاور سینٹر نے اپنی پالیسی میں شفٹ لانے کا فیصلہ کیا تو اسے ایک جعلی پولیس مقابلے میں مروا دیا گیا۔
اپنی تاریخ کے اس مختصر سے جائزے سے یہ نتیجہ نکالنا چنداں دشوار نہیں ہے کہ پولیس، فوج اور عدالت کے اہلکاروں کا گستاخان مذہب کے بارے میں ذاتی نقطہ نظر کیا ہو سکتا ہے۔
اب آئیے مذہبی علما اور اکابرین کی جانب۔۔۔
آپ کو یاد ہوگا ملک کے طول وعرض میں خودکش حملوں نے نائن الیون کے بعد زور پکڑا تھا۔ بریلوی اور شیعہ علما نے ان حملوں کو خلاف اسلام قرار دیا تھا۔ جبکہ دیوبندی علما کا اس موضوع پر منعقد ہونے والا ایک اجتماع بے نتیجہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ اس کو خلاف اسلام قرار دینے سے ہچکچاتے رہے۔۔ وجہ ظاہر تھی۔۔۔ یہ حملے دوسرے مسالک کے خلاف ہو رہے تھے۔ جن دیوبندی علما کے خلاف یہ حملے ہوئے بھی تو وہاں اسباب سیاسی تھے نہ کہ مذہبی۔ یہ حملے بھی تب ہونا کم ہوئے جب ملک کے پاور سینٹر نے ایک دن خود کش بمباروں کی فیکٹریاں بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کو یقیناً یاد ہوگا کہ یہ فیصلہ کب اور کیوں کیا گیا تھا۔
ملک میں دہائیوں تک جاری رہنے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دنوں میں آپ نے متعدد بار فرقہ پرست جماعتوں کے مولویوں کو ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں سنا ہوگا۔مختلف حکومتوں نے بھی ان کے درمیان مکالمہ کرانے کی سرسری سی کوششیں کی تھیں۔۔۔۔ کچھ نتیجہ نکلا؟؟؟
ایسا کوئی بھی واقعہ جس سے معاشرے کا امن متاثر ہوتا ہو اور حوالہ مذہب کا آئے ،بنیادی طور پر مذہبی طبقے کی اہمیت Relevance میں اضافہ کرتا ہے۔ انہی واقعات سے یہ طبقات اپنی طاقت کشید کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان مذہبی علما کی طمانیت اور طاقت میں اضافہ ان کے چہرے بشرے سے جھلکتا ہے۔ یہ واقعات اس طبقے کی طاقت اور اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں اور ارباب اقتدار سے انہی واقعات کی بنیاد پر یہ اپنی شرائط پر لین دین کرنے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ ان سے ان واقعات کی بیخ کنی کے اقدامات کی امید کرنا خود کو احمق بنانے اور سمجھنے کی ایک کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اب آئیے تیسرے طبقے کی طرف۔
اور یہ ہے پاکستان میں موجود لبرل اور سیکولر حضرات پر مشتمل طبقہ۔۔۔ یہ کہنا تو شاید صحیح نہ ہو کہ علی الطلاق یہ لوگ مذہب کے خلاف ہیں لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مذہب کے سیاسی استعمال کے یہ یقیناً مخالف ہیں۔ اس طبقے کی ایک بڑی تعداد مذہبی عقائد کو فرد کا ذاتی مسئلہ سمجھتی ہے۔ ان کے نزدیک عقائد کے معاملے میں نہ کسی پر زور زبردستی جائز ہے اور نہ عقائد کی بنیاد پر کسی کی تحقیر اور اس پر تنقید۔ اسی لیے یہ عقائد کی تبلیغ کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ ذاتی عقائد چونکہ اپنی نوعیت میں بہت ہی پرسنل ہوتے ہیں اس لیے نہ ان کی تبلیغ ہو سکتی ہے اور نہ یہ کسی پبلک مکالمے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ہاں ان پر علمی گفتگو ہو سکتی ہے جیسا کہ دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیوں میں مذہبیات کے شعبے کرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ خدا اور مذہب پر یقین رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔
پاکستان کے مذہبی طبقات کی طرح اب ہمارے لبرل طبقات میں بھی انتہا پسندی کے وہ رجحان آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جس کے تحت نہ صرف اپنے نظریات کی تبلیغ اب ضروری خیال کی جانے لگی ہے بلکہ دوسروں کے ذاتی عقائد پر تنقید اور اس بنیاد پر اپنے سے مختلف نظریات رکھنے والوں کی تحقیر بھی روا سمجھی جانے لگی ہے۔جس تبلیغ کو آپ آ ج تک مذہبی طبقات کی خصوصیت سمجھتے تھے اب کوئی دن جاتا ہے کہ الحاد کی تبلیغ بھی اسی طرح شروع ہو جائے گی ۔ پبلک ڈومین میں یہ ایک نیا رجحان ہے۔ جس طرح بعض لوگوں کی نظر میں مذہبی لوگوں کا سیاست میں داخلہ بنیادی مذہبی تعلیمات کے منافی تھا عین اسی طرح بہت سے لبرلز کے لیے الحاد کی تبلیغ لبرلزم کے بنیادی مقدمے سے مناسبت نہیں رکھتی۔ الحاد کے مبلغین نے ابھی یہ طے کرنا ہے کہ وہ خدا کے منکر ہیں یا مذہبی افراد کے اس تسلط کے خلاف ہیں جس نے ہمارے سماجی اور سیاسی امور کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ توہین کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت گری کو یہ طبقہ ظاہر ہے اپنے موقف کی تائید میں استعمال کرتا ہے۔ تشدد اور قتل و غارت گری مذہب پر لگنے والے بڑے الزامات میں سے ایک ہے اس لیے ایسے واقعات پر ان حضرات کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ایک ایسا واقعہ لگ جاتا ہے جس کی بنیاد پر یہ مذہب کو بآسانی مطعون کر سکتے ہیں۔ لہذا وقت ضائع کیے بغیر یہ منہ بھر بھر کے مذہب کے متن، سٹرکچر اورمذہبی طبقات پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ توہین کے ان واقعات کے بعد یہ طبقات صرف اور صرف مذہب پر تمام تر ذمہ داری عائد کرنے میں ذرا تاخیر نہیں کرتے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بنیادی نکتہ نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اسلام کو ماننے والے صرف پاکستان میں نہیں رہتے۔ دنیا کے اور ممالک میں بھی مسلمان آباد ہیں۔ کم از کم دو اور ایسی ریاستیں بھی دنیا میں ہیں جہاں ریاستی امور میں مذہب کا عمل دخل پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔۔۔ ایک ایران اور دوسرے سعودی عرب۔۔۔ کیا سبب ہے کہ ان دو ریاستوں میں توہین کے اس طرح کے واقعات اور ان پر وہ رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا جس کا مظاہرہ ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ اگر اسلام ہی ان واقعات کا ذمہ دار ہے تو پھر ہندوستان میں گائے کی توہین کے واقعات کی وجوہات کیا ہوں گی؟؟ کیا وہاں بھی اسلام اس کی وجہ ٹھہرے گا یا وہاں ہمیں ہندوستان کی سیاسی سماجی صورتحال کو دیکھنا پڑے گا۔ اگر ہندوستان میں سیاسی سماجی صورتحال گائے کی توہین کے واقعات کا پس منظر متعین کرتی ہے تو ایسا سوچنا پاکستان میں غیر ضروری کیوں خیال کیا جاتا ہے۔؟
جس طرح مذہب سے دوری کو ہمارے سارے مسائل کی جڑ قرار دینا غلط اور خلاف واقعہ ہے اسی طرح ہمارے سارے مسائل کی جڑ مذہب کو قرار دینا بھی غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ یہ دونوں نظریے نا صرف غلط ہیں بلکہ یہ مسائل کی حقیقی نوعیت اور اسباب تک رسائی کو قریباً قریباً ناممکن بنا دیتے ہیں۔ مزید برآں یہ دونوں نظریے ملک کے پاور سینٹر (جو تشدد کے زیر بحث واقعات کا اصل ذمہ دار ہے) کو صاف بچ نکلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ دونوں نظریے معاشرے میں مذہبی اور غیر مذہبی طبقات میں ایک مصنوعی تفریق پیدا کر کے پاور سینٹر کے لیے تقویت کا مزید سامان فراہم کرتے ہیں۔
آج صبح ہی معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحانات پر ایک عالم دین کا بیان سنا۔ وہ بھی تمام تر ذمہ داری علما سیاستدانوں اور دانشوروں پر ڈالتے ہوئے سنائی دیے۔۔۔ معاشرے میں تشدد، تفرقے اور عدم برداشت کی تمام تر ذمہ داری ملک کے پاور سینٹر پر عائد ہوتی ہے سیاستدان، علما اور دانشور صرف اور صرف ان کاموں میں پاور سینٹر کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔۔ اصرار سے کہتا ہوں پاور سینٹر کو معاشرے میں تفرقہ تقویت پہنچاتا ہے۔۔۔ آپ حکم کریں گے تو اس ضمن میں روشن مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔
تفرقے کی اس فضا میں پاور سینٹر اپنا تسلط استوار کرتا ہے۔ پاور سینٹر کے علاوہ کسی اور کو اس طرح کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانا نہ صرف ضیاع وقت ہے بلکہ ان واقعات کے درست تجزیے اور سدباب تک پہنچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں