دل/شاہین کمال(2-آخری حصّہ)

مجھے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ میرا مزاج جانتے ہوئے بھی میرے ماں باپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ مجھ سے کم صورت چیزیں برداشت ہی نہیں ہوتی تھیں۔ میں صرف حسین ہی نہیں تھی حسن پرست بھی تھی۔ نوید کی قربت مجھے خلجان میں مبتلا کر دیتی تھی سو ان کے ساتھ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ طبیعت کی خرابی کے باعث ڈاکٹر کو دکھایا گیا اور لو ٹوٹی کہاں کمند!!
میری پریگننسی رپورٹ پوزیٹو تھی۔ میرا دل چاہا کہ اپنے گلے میں پھندا ڈال کے لٹک جاؤں یا اس شخص کا گلا دبا دوں۔ میری ساس بہت خوش تھیں. ان کا خیال تھا کہ اب تو میرے پیروں میں اولاد کی بیڑی پڑ گئی سو اب تو معاملہ سلجھا ہی سلجھا۔ ادھر نوید کی چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں۔ انہیں دوبئی واپس جانا تھا۔ انہوں نے بہت زور لگایا کہ میں ان کے ساتھ دوبئی چلوں مگر اب میرے پاس نہ جانے کی ٹھوس وجہ موجود تھی ۔ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میری ساس نے میرا ساتھ دیا کہ ایک ادھ مہینے کی بات ہے طبیعت سنبھل جائے گی تو وہ خود دوبئی چھوڑ آئینگی۔
نوید کے روانہ ہوتے ہی میں نے میکے کی راہ لی۔ ساس نے بھی کھلے دل سے اجازت دے دی۔ ان کا خیال تھا کہ میری اماں مجھے سمجھائیں گی، دباؤ ڈالیں گی یوں اتھری گھوڑی تھان پر واپس آ جائے گی مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ مجھے جو کرنا تھا میں ٹھان چکی تھی۔ اماں نے ابا نے، بجو نے بہت سمجھایا۔ زمانے کے چلن، معاشرے کے رویے کے ڈراوے دیے مگر میری نہ ، ہاں میں نہ بدلی۔ میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ نہ تو مجھے سسرال واپس جانا ہے اور نہ ہی اس شخص سے کوئی واسطہ رکھنا ہے۔ گھر میں گویا بھونچال آ گیا مگر میں اپنی ضد پر اَڑی رہی۔ ہوتے ہوتے اس بات کی سن گن میری ساس کو بھی مل گئی۔ خاندان کے بڑے بیچ میں پڑے، خاص کر بڑے پھوپھا، جو خیر سے وکیل بھی تھے۔ اب اس بات کو نوید نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور کہا کہ  طلاق تو وہ نہیں دینگے جو کرنا ہے کر لو۔ ان کے پاس کھلا پیسہ  تھا سو وکیل بھی تگڑا۔ اس دوران ان کی اماں نے سرگرمی سے دوسری بہو کی تلاش شروع کر دی۔ نوید کو خلع کا نوٹس بھیجا گیا اور چار پیشیوں کے بعد عدالت نے خلع فائنل کر دی۔ میں آزاد ہو گئی صرف میں خوش تھی، باقی سارا گھر رنجیدہ و کبیدہ۔ خاندان میں بہت بدنامی ہوئی تھی۔ فوراً ہی نوید کی امی نے ان کی دوسری شادی کر دی، نوید کے ولیمے کے دن میری بیٹی آفرین پیدا ہوئی۔ میری ساس آئیں کہ یہ ہمارا خون ہے لہذا اسے ہم لوگ پالیں گے۔ لو ایک نئی الجھن، ایک نیا قضیہ شروع۔ پھر خاندان کے لوگ بیچ میں پڑے اور یہ کیس عدالت سے بالا بالا ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ میری بیٹی آفرین مکمل طور مجھے مل گئی کیونکہ نوید کی بیگم نے اس ذمہ داری کو قبول نے صاف انکار کر دیا تھا۔

میرے گھر والوں اور خاندان والوں کا میرے ساتھ مکمل سوشل بائیکاٹ ہنوز جاری تھا۔ اس وقت مانو سب پر یہ فرض عین تھا کہ ہر شخص فرداً فرداً آ کر مجھے یہ بتائے کہ نوید اپنی دوسری بیوی کے ساتھ بہت خوش ہے اور میں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ اپنے عیش آرام کو اپنے ہاتھوں بھسم کیا ہے۔ بخدا نہ مجھے کوئی جلن تھی اور نہ پشیمانی۔ میں اپنے فیصلے پر مکمل مطمئن ۔ اب میں بجائے بی۔ ایس سی کے بی۔ کوم میں داخلے کا سوچ رہی تھی کہ میرا ایک سال پہلے ہی ضائع ہو چکا تھا۔

گھر کے سوگوار ماحول میں اچانک گہما گہمی جاگ گئی  ۔ پتہ چلا کہ متین میرے پھوپھی زاد بھائی کا رشتہ آیا ہے۔ پہلے میرا دل چاہا کہ عادل کی کھوج میں نکلوں پھر میں نے سوچا کہ میں اتنی کم مایہ تو نہ تھی کہ وہ میری تلاش میں بھی نہیں آیا۔ جب اسے پروا ہ ہی نہیں تو اس کے پیچھے جانا بےکار ہے۔ جب سارے گھر اور خاندان نے میرا سوشل بائیکاٹ کر رکھا تھا، اس وقت متین نے میرا بڑا خیال رکھا۔ پسند تو مجھے متین بھی نہیں تھا۔ دبلا پتلا، عام سے نین نقش، ہاں نوید سے لاکھ درجہ بہتر ضرور تھا۔ اب تک میرا غصہ بھی اتر چکا تھا۔ امی نے متین سے کہا کہ تم حسنہ کو راضی کر سکتے ہو تو کر لو۔ میں نہ جانے کس فریم آف مائینڈ میں تھی، شاید متین کے حسن سلوک کے زیرِ اثر تھی یا کوئی اور بات، میں نے متین کا رشتہ قبول کر لیا اور ہماری شادی ہو گئی۔

وہی عام سی متوسط طبقے والی روکھی پھیکی شادی، مگر نہیں یہ بات درست نہیں۔ شادی ضرور عام انداز میں ہوئی تھی مگر متین پروانہ وار نثار تھے۔ میں دن کہوں تو دن ، رات کہوں تو رات۔ بس میرے لبوں سے بات نکلنی شرط ہوتی۔ اس کا پورا کرنا ان پر فرض تھا۔ سب سے اچھی بات کہ آفرین سے بہت محبت کرتے۔ میں بی۔کام کے فائینل میں آئی تھی کہ متین نے کینیڈا کی امیگریشن فائل کر دی۔ ایک شام میں شاپنگ کے لئے طارق روڈ گئی  اور زندگی دھواں دھواں ہو گئی۔ وہاں مجھے عادل نظر آیا۔ میں نے خریداری موقوف کی اور جلدی سے گھر کی راہ لی مگر عادل مجھے دیکھ چکا تھا اور وہ لپکتا ہوا میری طرف آیا۔ وہ میری پہلی شادی سے واقف تھا۔ بقول اس کے جن دنوں میری شادی ہونے والی تھی وہ جا ب انٹرویو کے لئے مسقط گیا ہوا تھا۔ واپسی پر اس کو میری شادی کی اطلاع ملی اور وہ دلبرداشتہ ہو کر اپنی نئی جا ب پر مسقط چلا آیا۔ میں نے اسے اپنی زندگی کے طوفان اور دوسری شادی کے بارے میں بتانا مناسب نہیں جانا اور جان چھڑا کر گھر آ گئی ۔ لیکن شاید اس نے میری گاڑی کا پیچھا کیا تھا کیونکہ وہ مجھے کبھی گلی کے نکڑ پان والے کی دوکان پر تو کبھی سامنے کھیل کے میدان میں برابر نظر آتا رہا۔ گو میرا دیوانہ دل اب بھی پوری طرح اس پر مائل تھا اور میں متین سے رتی بھر محبت نہیں کرتی تھی مگر میں متین ہی کی وفا دار رہنا چاہتی تھی۔ میں اپنی شادی شدہ زندگی کو کسی طوفان کی  نذر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کی چھٹیاں ختم ہو گئی اور وہ دوبارہ مسقط چلا گیا۔ انہی دنوں ہم لوگوں کی امیگریشن ہو گئی اور ہم لوگ ٹورنٹو آ گئے۔ یہاں مسسی ساگاں میں متین نے اپارٹمنٹ کرائے پر لیا اور راشد بھیا کے دوست کی وساطت سے آنے کے دوسرے ہی مہینے متین کو اچھی نوکری بھی مل گئی ۔ یہ ہم لوگوں کی انتہائی خوش قسمتی تھی ورنہ بھلا پردیس کے الم اور جوکھم سے کون واقف نہیں؟

متین بھی پاکستان سے صرف چھ سات ماہ ہی کا خرچہ   لے کر آئے تھے۔ انجانے مستقبل کا خوف بھی تھا اور پردیس کا اکیلا پن بھی مگر یقیناً اللہ مہربان۔ متین نے اس آسانی اور خوش بختی کو بھی حسب معمول میرے کھاتے میں ڈال دیا۔

اس آدمی سے محبت نہ کرنا تقریبا ناممکن تھا۔ میں قریب قریب متین کی محبت میں مبتلا ہونے ہی والی   تھی کہ  پھر  عادل ٹکرا گیا تھا۔ اب پھر میرا دل مجھ سے رسی تڑائے  جا رہا تھا۔ دل اپنی ہٹ پر اڑا تھا۔ میری مجبوری یہ تھی کہ عادل میرے خون میں گردش کرتا تھا اور میرے دل میں پوری طرح فروکش بھی۔ دل میں ایک کونا بھی ایسا نہ تھا جہاں میں متین کا بت سجا دیتی۔ نالائق دل پوری طرح موحد ذرا سا بھی مشرک نہیں۔ میری یہ محبت دو دھاری تلوار تھی، شدید جان لیوا۔

میں عادل کے خوف سے یا حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے دل کے چور سے ڈر کر سوشل میڈیا کے پاس بھی نہیں پھٹکتی کہ کہیں عادل مجھے کھوج نہ لے۔ میں کراچی میں عادل کا جنون دیکھ چکی تھی اور اپنے دل کی بے بسی سے بھی کما حقہ واقف، اس لئے گم نام رہنے ہی میں عافیت جانی ۔ انہی دنوں مجھ پر انکشاف ہوا کہ اللہ تعالی دوبارہ مجھ پر مہربان ہے۔ متین اس خبر سے انتہائی خوش تھے۔ ان کی بے پایاں خوشی مجھے اندر ہی اندر متفکر بھی کر رہی تھی ۔ مجھے آفرین کی فکر تھی۔ مگر طلحہ کی پیدائش کے بعد بھی متین کی طرف سے آفرین کے لاڈ دلار میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا۔ یہ شخص مجھے حیران کر دیتا تھا۔ آفرین اسکول جانے لگی تھی اور سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا سوائے میرے دل کے۔ خواب اب بھی میں عادل ہی کے دیکھتی ۔ کبھی کبھی مجھے شدید حیرت ہوتی تھی کہ آیا واقعی میں اتنی اچھی اداکارہ ہوں یا پھر متین کی آنکھوں پر بندھی محبت کی پٹی بہت دبیز ہے؟

وہ طلحہ کی تیسری سالگرہ تھی اور میں اس کا تحفہ لینے کے لئے toys “R” Us میں گھوم رہی تھی کہ کسی نے بہت قریب سے ہولے سے میرا نام پکارا اور مجھے یقین ہو گیا کہ ٹلتی ہوئی قیامت آ گئی ہے۔ یہ عادل تھا۔

متین سے میں نے کسی ناقابل فہم جذبے کے تحت شادی تو کر لی تھی مگر میں ہمیشہ سے جانتی تھی کہ متین وہ کرکرا سرمہ ہیں جو نہ آنکھوں میں رچتا اور نہ ہی بستا ہے بلکہ صرف کھٹکتا ہے۔ اس سرمے کا مقدر کھارے پانی سے دھل جانا ہے۔ جبکہ عادل وہ شخص ہے جسکا سراپا اور سپنا اِن آنکھوں کی جوت ۔ رہی بات عادل کی تو مجھے یہ بھی یقین تھا کہ میرے بعد اس کی آنکھوں نے اور کوئی منظر نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کی آنکھیں کسی سراپے پہ ٹھٹھکی۔ اس کی زندگی بھی میری طرح بے شک چلتی رہی پر حیات رک گئی۔ سچ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر تھے، ایک دوسرے کے بنا ادھورے اور نامکمل۔ ہم ایک دوسرے کا گمشدہ حصہ تھے۔ ہم چاہتے یا نہ چاہتے ہمیں ملنا ہی تھا۔ عادل نے نہ جانے کتنے جتنوں سے میرا کھوج لگایا تھا۔ میں جانتی تھی کہ اب فرار ممکن نہیں۔
میں نے بہت دن ٹالا آخر اس کے شدید اصرار پر ملی اور پھر ملتی ہی چلی گئی ۔ گھر اور بچوں سے لاپرواہ  ہوتی چلی گئی ۔ متین نے نہ کچھ پوچھا نہ کچھ کہا مگر ان کی سنجیدگی دن بدن گہری ہوتی گئی ۔ مجھے پتہ نہیں کیوں یہ یقین تھا کہ طلاق مانگوں گی اور متین مجھے آزاد کر دینگے۔ سو میں نے متین سے بات کرنے کی ٹھانی۔ متین کو اول سے آخر تک کی روداد سنا دی اور ساتھ ہی طلاق کی فرمائش بھی کر دی، گویا طلاق نہ ہوئی کٹ کیٹ چوکلیٹ ہوئی جو فرمائش پر حاضر کر دی جائے گی۔ متین جو میری ہر بات پر آمنا و صدقنا کہتے تھے طلاق کی بات پر ہتھے سے اکھڑ گئے اور مجھے طلاق دینے سے صاف انکار کر دیا۔ مجھے بہت سمجھایا، بچوں کا واسطہ دیا مگر میرے سر پر عادل کا جنون تھا۔ پاکستان سے بجو کے فون کا تانتا بندھ گیا۔ راشد بھیا ڈیلس سے آ گئے، مگر میں اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹی۔
اسی بحثا بحثی میں چھ ماہ گزر گئے۔ میں نے وال مارٹ میں نوکری کر لی تھی۔ گھر کا ماحول بہت خراب تھا۔ طلحہ تو چھوٹا تھا مگر آفرین سمجھدار تھی۔ اس پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا۔ وہ متین کے بےحد قریب ہو گئی  اور مجھ سے نفرت کرنے لگی تھی۔

میں نے متین کا گھر چھوڑ دیا اور اپنی کولیگ کے ساتھ روم شئیر کرنے لگی۔ اب میں دھڑلے سے عادل سے ملتی اور مجھے کسی کی پروا نہیں رہی تھی۔ میں نے متین سے حتمی بات کی اور کہا کہ تم طلاق نہیں دیتے ہو تو میں عدالت سے رجوع کرونگی اور اب میں عادل کے گھر رہوں گی۔ متین نے کہا کہ تمہیں جہنم کا ایندھن بننے کا شوق ہے تو شوق سے بنو۔ میں نے کہا کہ تم بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہو۔ متین کہنے لگے کہ تم نکاح پر نکاح نہیں کر سکتی۔

میں نے کہا کہ میں جانتی ہوں، اسی لئے تم سے اپنی آزادی کی سوالی ۔ میں تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتی مجھے آزاد کر دو۔ تم کیوں مجھے اس حد تک جانے پر مجبور کر رہے ہو۔ متین کو نہ ماننا تھا نہ مانے۔ عدالت کا پراسس بہت لمبا اور مہنگا تھا۔ متین اچھی طرح سے جانتے تھے کہ میرے پاس پیسہ نہیں ہے اور عادل بھی اتنا خرچا برداشت کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔

بھیا نے متین کو سمجھایا کہ حسنہ جا چکی ہے اس کا تعاقب مت کرو۔ اسے اب یہ گھر نہیں بسانا، طلاق دے کر یہ قصہ ختم کرو۔ متین نے کہا کہ وہ بچے نہیں دینگے۔ وہ آفرین کو بھی دینے پر تیار نہیں تھے اور میں آفرین کو چھوڑنے پر راضی نہ تھی۔ جھگڑا چلتا رہا اور اس کا فیصلہ آفرین نے خود کر دیا۔ اس نے مجھے فون کیا اور کہا
کہ “یہ میری ازلی بدقسمتی کہ آپ میری ماں ہیں، میں اس بات کو تو بدل نہیں سکتی مگر مجھے میری زندگی میں آپ نہیں چاہئیے ، کبھی بھی نہیں، کہیں بھی نہیں اور کسی بھی قیمت پر نہیں چاہیے ۔”
تقریبا ڈیڑھ سال کے بعد متین نے مجھے طلاق دی۔ بھیا پھر ڈیلس سے آئے اور میرا نکاح عادل سے کیا اور رخصت کرتے ہوئے کہا کہ آخری بار مل لو کیونکہ اب تم میرا مردہ بھی نہیں دیکھ سکو گی۔ پورے خاندان نے قطع تعلق کر لیا۔ میں پھر بھی خوش تھی عادل کے ساتھ کہ میرا تو کل جہان ہی عادل تھا۔ بچوں کی شدت سے کمی لگتی تھی مگر وہ مجھے دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ متین نے مسسی ساگا چھوڑ دیا اور جرمنی چلے گئے۔

وقت گزرتا گیا، وقت کی دھول کی دھول میں دب کر یہ اسکینڈل پرانا ہوا، لوگوں کے پاس گوسپ کے لئے نئے سے نئے ٹاپک آتے گئے۔ میرا ملنا جلنا بہت محدود تھا اور ہے۔ بچوں کی یاد بہت ستاتی تھی، خاص کر آفرین کی۔ عادل سے میرے تین بیٹے ہیں ۔ شاید اس لئے بھی آفرین کی کمی زیادہ لگتی ہے۔ متین نے پھر شادی نہیں کی اور پوری جاں فشانی سے دونوں بچوں کو پالتے رہے۔ متین نے ملک چھوڑنے سے پہلے مجھے نئے گھر کا پتہ اور فون نمبر دیا تھا۔ طلحہ تو کبھی کبھار بے رخی ہی سے سہی بات کر لیتا مگر آفرین کے لئے میرا نام لینا بھی گناہ تھا۔ میرا اس کی ماں ہونا اس کے لئے گالی تھا۔ میں متین کی عظمت کی دل سے قائل اور اس کی احسان مند تھی کہ اس نے آفرین کو اپنی سگی بیٹی کی طرح پالا۔ یہ بھی حقیقت کہ میں متین کی مجرم نہیں کہ میں نے پوری زمہ داری سے وفاداری نبھانی چاہی ہاں اس سے محبت کبھی نہیں کی اور کبھی محبت کا دعوٰی بھی نہیں کیا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ اب ایمانداری سے یہ ساتھ نہیں چل سکتا تو اس سے الگ ہونا چاہا اور الگ ہو گئی ۔ ظاہر ہے عورتوں کے پاس مردوں والا ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادی کا آپشن تو ہے نہیں ۔ مرد کا بھی اگر دل آ جائے تو ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیوی کر لیتا ہے، مگر عورت کیا کرے؟
دل تو اس کا بھی ہے، اور میرے دلِ نابکار کی تو پہلی اور آخری خواہش ہی عادل تھا۔ مجھے اپنے اس فعل پر کوئی شرمندگی نہیں۔ ہاں آفرین اور طلحہ کی جدائی نے ضرور رلایا اور بہت رلایا۔

عادل نے اس کڑے وقت میں بہت سہارا دیا۔ اب تو بچوں اور گھر داری نے اتنا الجھا لیا ہے کہ آفرین اور طلحہ کی یاد بس ایک کسک بن گئی ہے۔ متین بے شک قابل تعریف انسان ہیں۔ وہ ہر سال دونوں بچوں کے رپورٹ کارڈ کی فوٹو کاپی مجھے بھیج دیتے تھے اور ان کی پروگرس سے بھی آگاہ رکھتے۔ برابر ان کی خیریت سے مطلع رکھتے ۔

julia rana solicitors

اب پرسوں سے میرے نائیٹ اسٹینڈ پر میری پیاری بیٹی آفرین کی شادی کا کارڈ رکھا ہے۔ وہ شادی جس کو میں نے سپنوں میں کئی  بار رچایا ہے، کئی بار ویدائی کے گیت گاتے ہوئے آنسو بہائے ہیں۔ خیالوں ہی خیالوں میں آفرین کے جہیز کی خریداری کی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اس شادی میں شریک نہیں ہو سکتی۔ میں اپنی بیٹی کی زندگی کا حسین ترین دن برباد نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے اسے دکھوں اور محرومیوں کے سوا دیا ہی کیا ہے؟
میں وہاں جا کر اس کی ذہنی اذیت کا باعث نہیں بننا چاہتی۔
آج مجھے صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ عادل کی محبت کو پانے کے لئے میں نے بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ کبھی کبھی محبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے
کامل رہبر ۔۔قاتل رہزن
دل سا دوست نہ دل سا دشمن

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply