بھئی میرے گھر کا باو آدم ہی نرالا ہے۔ گھر کم ہے سرائے زیادہ۔ سب اپنے آپ میں مگن اور اماں ابا ایک دوسرے میں گم۔ اولاد شمال ہے کہ جنوب وہ اس سے قطعی لاعلم ۔ چھ بھائی بہن ہیں,بالترتیب تین بھائی تین بہنیں ۔ بھیا ، بجو، بھائی، پھر اپیا، چھوٹو اور آخری میں۔ نام کیا ہیں سب کے ؟ لیجیے ترتیب وار نام بھی سن لیں۔ راشد، محسنہ، احمد، مبینہ،صمداور میں حسنہ۔ ناموں میں ردیف قافیے کا خیال کیوں کہ اماں ڈائجسٹوں کی رسیا رہی ہیں مگر گھر میں ڈھونڈے سے بھی کوئی ترتیب نہیں. جب کہ اماں گنی اتنی کہ پیاز کی کھیر بنا دیں اور بندہ انگلیاں چاٹتا رہ جائے. “اگر” بنائیں تو۔ اس گھر کا بنیادی مسئلہ ہی “اگر اور مگر “تھا۔
سارا محلہ رائے مشورے کے لئے اماں کی طرف دیکھتا تھا۔ لڑکے والوں سے کیا بات کرنی ہے؟ کیا کیا شرائط منوانی ہیں ؟ مہر کتنا ہو؟جہیز میں کیا ہو؟ پہناؤنی جامہ کلاتھ سے لیں یا طارق روڈ سے؟ زچہ کی اچھوانی میں ڈرائی فروٹ کا تناسب کیا ہونا چاہیے؟ یا الیکشن میں کس کو ووٹ دیا جائے۔ اماں کو سب خبر۔ اماں کہ جگت خالہ۔۔ بس ایک اپنے گھر سے لاپرواہ۔ بچے بھی بالآخر بڑھ ہی گئے جیسے خود رو پودے بڑھ جاتے ہیں۔ سو جھاڑ جھنکاڑ کی صورت بےترتیب سب بڑھ بڑھا گئے۔
اماں ابا نے تھوڑی بہت محنت بھیا اور محسنہ بجو پر کرلی اور نشچنت ہوگئے کہ نیو تو سیدھی رکھ دی ہے سو اب عمارت کی ٹیڑھ کی کیا چنتا اور کمال یہ کہ ہوا بھی یہی، بقیہ نفری بھی اس قدر نہیں بگڑی جتنا کے بگڑنا چاہیے تھا. بیچارے بھیا اور بجو ہی ہم لوگوں کے ماں باپ کا رول بھی نبھا رہے تھے. اسکول میں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ ہو یا کالج کا داخلہ یا گلی کے نکڑ سے بھائی اور چھوٹو کو ہانکتے ہو گھر لانا، یہ سب کام بھیا کا تھا ۔ گھر کے اٹھ افراد اور آئے گئے کے دوزخ بھرنے کی ذمہ داری بجو کا درد سر۔ محسنہ بجو واقعی اس گھر کی محسنہ تھیں کہ ان کے دم سے یہ کابک، گھر تھا۔ اس خانہ داری کی وجہ سے غریب نے دو سال پہلے پراؤیٹ بی اے کیا تھا اور اب بیاہ کا ارمان دل میں سجائے چولھا چوکا سنبھالے بیٹھی تھیں ۔ خیر اس مدعے پر اماں بہت فعال تھیں۔ بجو کے رشتے کی تلاش پوری جاں فشانی سے جاری وساری تھی سو سمجھو کہ آج کل میں یہ معاملہ نپٹا کے نپٹا۔ شادیاں ہمارے یہاں برادری ہی میں ہوتی تھیں۔ مجھے تو یہ فکر تھی کہ بجو کے بعد یہ کارخانہ چلے گا کیسے؟
اپیا اُف!
سو کاہل مرے ہونگے تب وہ پیدا ہوئی ہونگی۔ باتیں جتنی چاہے بنوا لو پر ہاتھ نہیں ہلے گا۔ وہ تو تھیں بھی گھر گھر کی بلی، گھر پر ٹکتی ہی نہیں تھیں۔ شام پڑے بھیا جس وقت گھر کے اگلے گیٹ سے اندر داخل ہوتے تھے لگ بھگ اسی وقت اپیا کی سواری باد بہاری پچھلے دروازے سے انٹری مارتی ۔ فردوس کالونی میں ہم لوگوں کا تین کمروں کا کوارٹر تھا۔ ابا سرکاری ملازم تھے اور گھر چونکہ اپنا تھا اس لئے دال دلیا آرام سے چل جاتا تھا۔ اسی 80 کی دہائی تھی۔ اس زمانے میں مہنگائی کی عفریت ایسی بےلگام نہ تھی سو متوسط طبقے کا آدمی بھرم کے ساتھ سفید پوشی نبھا جاتا تھا۔
اپیا سرسید کالج بی۔اے پارٹ ون میں تھیں اور میں تازہ تازہ میٹرک پاس۔ گویا گھوڑے کے کانوں کو ہوا لگ چکی تھی۔ انہیں دنوں بجو کی شادی کا غلغلہ اٹھا اور وہ خیر سے پیا دیس سدھاری۔ بجو غریب قسمت کی دھنی نہیں تھی، سسرال بڑا کنبہ اور بیمار ساس کی خدمت گزاری بھی۔ سچی بات یہ کہ بجو کی خاموش طبعیت، مزاج میں اطاعت اور خوبصورتی ہی وہ اہلیت تھی جس کی بنیاد پر بجو سوئمبر کی فاتح قرار پائیں ۔ اس بڑے کنبے کے لئے ایک بے زبان اور جفاکش منتظمہ کی ضرورت تھی سو ان تکلیف دہ فرائض کی بجاآوری کے لیے بجو بہترین آسامی قرار۔ معاشی طور پر بجو کے سسرال والے ہم لوگوں سے بہت بہت بہتر تھے، پر بجو کے لئے تو تین وقت کا کھانا اور سال کے چھ جوڑے ہی تھے بس۔ شوہر صرف رات کے راہی تھے صبح ہم کون تم کون؟ سو بیچاری بجو کا صرف کھونٹا ہی بدلا مقدر نہیں۔ میکے میں کم از کم ایک اچھے کل کی آس تو تھی پر اب سسرال میں تو اس کے سامنے ایک لمبی بیراگی زندگی منہ پھاڑے کھڑی تھی۔
مجھے اپنے بہنوئی احتشام، پھوٹی آنکھ نہ بھاتے تھے۔ مختصر سے قد وقامت کے، اوسط سے بھی گئی گزری شکل مگر ان کے سر پر ہما سائہ فگن کہ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ۔ خیر میں تو ایسے لنگور کو اپنا پرس بھی نہ اٹھانے دوں ۔ لو دیکھو ذرا میں یہ تو بتانا بھول ہی گئی کہ میرے سارے بہن بھائی خوبصورت تھے ۔ اماں ابا جو خوش شکل تھے سو ہمارا گھرانہ خوش بختی میں آگے نہ سہی پر خوبصورتی میں مثالی تھا۔ رہی میں تو میں تو اسم با مسمی تھی۔” حسنہ ” حسن میری پور پور سے جھلکتا تھا۔ سراپا ایسا چاندنی سے ڈھلا کہ نظر سے میلا ہو جائے۔ قد بت ،شکل صورت، چال ڈھال، آواز ،لچک، ادا و انداز اور مزاج سب سانچے میں ڈھلا ہوا۔ کہیں آدھ آنچ کی بھی کسر نہیں۔ جو نظر مجھ پر پڑتی پلٹنا بھول جاتی۔ میرا مزاج بھی آسمانوں کی خبر لاتا تھا۔ اماں کی خام خیالی کہ میں ہو بہو ان کی جوانی ہوں جبکہ یہ سراسر مبالغہ تھا۔ مجھے تو یقین تھا کہ میں ہسپتال میں بدلی گئی تھی کہ میں نہ صرف حسین بلکہ مزاج بھی شہانہ.
میٹرک کے بعد میرا داخلہ بھی سرسید کالج میں ہو گیا۔ فرسٹ ائیر کا نشہ ہی الگ ہوتا ہے۔ میں ویسے بھی زمین پر کب چلتی تھی؟ انہی دنوں بھیا اسکالرشپ پر امریکہ روانہ ہوئے کہ انہوں نے فارمیسی میں پہلی پوزیشن لی تھی۔ اپیا کی پرواز کافی بلند کہ اکثر انجانی بائیک پر ان کا رنگین آنچل لہراتا نظر آتا۔ جب اماں کے کانوں تک یہ سنگین خبر پہنچی تو اماں نے جھٹ پٹ ان کا رشتہ ہمارے دور پار کے رشتہ دار سراج بھائی سے پکا کیا جو دوبئی میں برسرروزگار تھے یوں اپیا کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچی۔ اپیا کی بھی صرف دل لگیاں ہی تھیں دل کی لگی تو تھی نہیں لہذا وہ ہنسی خوشی اپنے پیا سنگ پردیسن ہوئیں ۔ اپیا کو پڑھنے لکھنے سے خاک رغبت نہ تھی سو ادھورے بی۔اے کا قلق بھی نہیں ۔ وہ سدا سے کھانے پہنے کی شوقین تھیں اور قسمت کی زور آوری نے انہیں یہ موقع رچ کے فراہم کر دیا۔ سراج کی صورت گانٹھ کا پورا ان کا مقدر۔
بجو کی زندگی وہی کولہو کے بیل والی بلکہ اب اس میں ازمیر اور منیرہ کی بھی شراکت ہو گئی تھی۔ ہمارا گھر البتہ اب خالی خالی سا لگتا، بھیا، بجو اور اپیا کی کمی لگتی محسوس ہوتی۔ اماں بھی اب کچھ تھکی تھکی سی لگتی گو اماں ابا کی چہلیں برقرار تھیں ۔ اب سنیچر اور اتوار کو کھانے پکانے کی ذمہ داری میرے سپرد ہوئی۔
سکینڈ ائیر کی بات ہے، ایک روز کالج سے واپسی پر میں اردو بازار رکتی ہوئی آئی کہ اماں کا ماہنامہ خواتین ڈائجسٹ لینا تھا۔ جب میں بل ادا کر کے پلٹی تو۔۔۔ تو،
بس مت پوچھیں کہ کیا ہوا؟
مرد بھی اس قدر حسین ہو سکتے ہیں مجھے یقین نہیں آ رہا تھا! اس پر طرفہ تماشا کہ مجھ پر ایک نگاہِ غلط بھی نہیں۔مجھ سے قطعی انجان میرے برابر سے گزرتا چلا گیا، نہ ٹھٹھکا نہ ٹھہرا۔ ایسا تو آج تک نہیں ہوا تھا؟ وہ لاکھ یوسف ثانی سہی پر ایسا بھی کیا غرورِ حسن؟ مجھے تو آگ ہی لگ گئی۔ خیر میں جھلائی ہوئی گھر آئی اور شام تک کہیں جا کر موڈ بحال ہوا۔ دو تین دن بعد کی بات ہے، میں کالج جارہی تھی تو کالج کے سامنے بنے گھروں کی قطار کے تیسرے گھر سے وہ نکل رہا تھا۔ آج وہ ٹھٹھکا بھی اور گڑبڑایا بھی مگر میں تیزی سے نکلتی چلی گئی ۔ پھر یہ اکثر ہونے لگا کہ وہ اسی لمحے گیٹ سے نکلتا جب میں اس کے گھر کے بالکل قریب پہنچتی۔ اب یہ پری کیلکولیٹڈ تھا یا اتفاق یہ تو میں وثوق سے نہیں جانتی پر یہ بھی سچ کہ اس طرز عمل پر میں بہت خوش ۔ اسے دیکھ کر سارا دن ایک عجب سی سرخوشی میں گزرتا۔ زندگی ہلکی پھلکی اور پربہار لگتی۔ ایک صبح اس نے جلدی سے ایک لفافہ پکڑایا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس لفافے کو پکڑنے سے اپنے اپ کو باز نہ رکھ سکی۔ پھر تو چل سو چل والا ہی معاملہ ہو گیا۔
اس کا نام عادل تھا اور داؤد کالج میں الیکٹریکل کے فائنل ائیر میں تھا. باوجود اس کے اصرار کے ابھی تک میں نے ایک بھی خط کا جواب نہیں دیا تھا۔ مگر کب تک ؟ پھر اس نے ٹیلی فون نمبر بھی دیا مگر گھر پر فون تو تھا ہی نہیں، اس کے باوجود میں نے اس کے ٹیلی فون نمبر کو میں نے حرز جان بنا کر رکھا۔ عادل کے بہت اصرار پر ایک دفعہ اسی بک شاپ پر اس سے ملاقات بھی کی مگر نہ نظر کی پیاس بجھی نہ ہی دل پرسکون ہوا۔ میں اپنی نوخیز محبت کے انجام کے لیے دن رات متفکر پر دل کسی صورت عادل سے قطع تعلقی پر آمادہ بھی نہیں۔ میں جو معجزے کی منتظر تھی، معجزہ تو کیا ہوتا، الٹا جدائی کی گھڑی آ پہنچی۔
انٹر کے امتحان سے فارغ تھی کہ بجو نے منیرہ کی سالگرہ منانے کی ٹھانی اور مجھے بھی اپنی مدد کے لئے بلا لیا۔ میرا جانے کا ذرا دل نہ تھا کہ بہت دنوں سے عادل کا دیدار نہیں ہوا تھا۔ کالج بند تھے سو کوئی معقول بہانہ بھی نہیں گو دل ماہی بے آب تھا پر چارہ کوئی نہیں ۔ یہ کمبخت محبت بھی کیسا خوار کرواتی ہے۔ نصیب کے لکھے سے کب مفر سو ہونی ہو کر رہی۔ سالگرہ کی تقریب میں بجو کی تائی ساس نے مجھے اپنے فرزند دل بند کے لئے منتخب کر لیا یوں میری تقدیر پر سیاہی پھر گئی ۔ امی اور گھر والوں کی خوشی دیدنی تھی۔ لڑکا اب اس بندے کو لڑکا کیا بولنا؟ وہ مجھ سے عمر میں بارہ سال بڑا تھا۔ پورا ایک جگ۔ میں نے بی ایس سی کرنے کا بہت شور ڈالا مگر کہیں سنوائی دہائی نہ ہوئی۔ جی کڑا کر کے اماں کو اپنی دل کی بپتا سنائی مگر ان کا موقف تھا کہ یہ سب نری جذباتیت ، وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ساتھ ہی مجھے شریف اور تابعدار بیٹیوں کی ڈیوٹی اور محاسن پر ایک طویل لیکچر بھی سننے کو ملا۔ دل کے ہاتھوں مجبور ساری احتیاط بلائے طاق رکھتے ہوئے میں نے مختلف اوقات میں عادل کی گلی کے کئی چکر لگائے پر سب بے سود۔ ہمت کر کے PCO سے اسے کال بھی کی مگر مختلف آوازوں میں ہیلو سنتے ہی میری ہمت جواب دے جاتی۔ عادل ہنوز لا پتہ تھا۔ میری کوئی محرم راز سہیلی بھی نہیں تھی کہ کچھ اس سے ہی کہ سن کر دل ہلکا کر لیتی. ادھر ہونے والی ساس ہیتھلی پر سرسو جمانے پر ادھار کھائے بیٹھی تھیں۔
شادی سے دو دن پہلے نوید دوبئی سے کراچی پہنچے۔ اپنی سسرال بھی آئے، مگر میں نے دیکھنے کی بھی کوشش نہ کی۔ دل عجیب مردہ سا ہو رہا تھا۔ بہت دھوم دھام سے شادی ہوئی، برادری میں بری کی دھوم مچ گئی ۔ ہر بن بیاہی بیٹی کی ماں کی دعا تھی کہ اُس کی بیٹی کا نصیبہ مجھ جیسا ہو اور میں اندر ہی اندر اس بد دعا پہ کانپ جاتی۔ کاش میں نے نوید کو جب وہ سسرال آئے تھے تو دیکھ لیا ہوتا، کم از کم شاک میں تو نہ جاتی۔شادی کی رات مجھے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا تو نہ لگتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اماں نوید کے جانے کے بعد کچھ بجھی بجھی سی تھیں ۔ اونچے سمدھیانے کے فخر کو لے کر ان کا جوش خروش قدرے کم تھا مگر میں نے صدمے اور غصے کے زیر اثر اس وقت اتنا غور ہی نہیں کیا۔ مجھے اپنے ماں باپ کے فیصلے پر شدید دکھ تھا۔ اماں میرے مزاج سے واقف تھیں، میری حسن پرستی کے خبط سے آگاہ۔ میری بد دماغی کا یہ عالم کہ اوسط درجے کی چیزیں مجھے بھاتی ہی نہیں تھیں۔ مجھے چیزوں کا نہ ہونا منظور مگر ہو تو اے گریڈ۔ تقدیر کا یہ بھیانک مزاق میری برداشت اور ہمت سے بہت زیادہ تھا۔ یقین کیجیے نوید اور میرے بڑے بہنوئی میں انیس بیس ہی کا فرق تھا۔ اب مجھے تمام زندگی اس شخص کے ساتھ گزارنی تھی جسے دیکھنا بھی مجھے گوارا نہیں تھا۔ کیا ستم ظریفی تھی تقدیر کی۔ اختیار میں اور کچھ تو تھا نہیں مگر مارے غصے کہ ولیمے کے بعد میکے جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اماں کو میرے غم اور غصے کا علم تو تھا مگر انہیں اس قدر شدید ردعمل کی توقع نہ تھی۔
نوید میرے اس انکار پر بہت خوش ہوئے۔ ویسے بھی دو ہی دنوں کی بات کہ اگلی سہ پہر ماریشس کی فلائیٹ تھی۔ زندگی کا پہلا ہوائی سفر اور وہ بھی بزنس کلاس! مگر لگتا تھا دل مر گیا ہے کہ کوئی بات خوش کن نہیں۔ نوید کا والہانہ انداز اور تعریف و توصیف میرے مزاج میں ایک ضد اور ہٹ دھرمی کا باعث ۔ جو وہ کہتے میرا اس سے الٹ کرنے کا جی چاہتا اور میں کرتی بھی۔ جہاں دیدہ تھے ان پر میری ناگواری اور بے زاری پوری طرح عیاں تھی مگر ان کی جان نثاری کسی طور کم ہی نہ ہوتی تھی اور یہی بات میرا غصہ بڑھائے دے رہی تھی۔ کسی طرح وہ منحوس ہنی مون کے دس دن ختم ہوئے۔
کراچی پہنچتے ہی میری طبعیت خراب ہو گئ۔ میں از حد جنونی ہو گئی تھی لہذا خاندان کی طرف سے دی گئی کسی بھی دعوت میں شرکت سے انکار کر دیا۔ صورت حال بہت گمبھیر تھی اور بات بیڈ روم سے نکل چکی تھی۔ میری ساس نے اماں کو بلا کر ان کی ٹھیک ٹھاک کلاس لے لی اور بخدا مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ آخر ماں باپ اولاد کو اپنی رعیت کیوں سمجھتے ہیں؟
میں اپنے آپ سے سوال کرتی کہ یہ عادل سے بچھڑنے کا دکھ ہے یا نوید کی کم صورتی کا دکھ؟
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں