زندگی کا وجود/علی رضا کوثر

کہا جاتا ہے کہ انسان بھی ایک جانور ہے۔۔۔حیاتیاتی جانور!
مگر یہ جانور دیگر جانوروں سے ممتاز ہے، اپنی ایک خاصیت، عقل کی وجہ سے۔
قبل از تاریخ کی دنیا اور آج کی دنیا میں جو فرق ہے وہ فرق خودبخود نہیں آیا، بلکہ یہ سب انسانی عقل کا ثمر ہے۔انسان نے جب محسوس کیا ہوگا کہ اس کے پاس عقل جیسی نایاب شئے ہے، تو میرے خیال میں اس نے سب سے پہلے سوال کیا ہوگا۔ اور جہاں تک میری ناقص سمجھ ہے، اس دنیا کی سائنسی و ٹیکنیکل ترقی انسان کی عقلی ارتقا اور سوال کرنے کی ابتداء   سے ہی ممکن ہوسکی ہے۔

آیونا کے باشندے، طالیس نے سوال کیا کہ “یہ دنیا(زندگی) کس چیز سے بنی ہے؟” خود ہی اس سوال کا جواب دیا کہ “پانی سے”

یہاں جواب کی اہمیت نہیں، سوال کی ہے۔ کیونکہ تلاش کرنے سے کبھی نہ کبھی صحیح جواب مل ہی جاتا ہے، مگر درست سوال کی غیر موجودگی میں درست جواب ملنا ناممکن ہے۔
سوالوں کا سلسلہ طالیس کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ بلکہ طالیس کے جواب پر اناکسی مینڈر نے ایک اور سوال اٹھایا کہ “صرف پانی سے زندگی کیسے جنم لے سکتی ہے؟” خود ہی جواب دیا کہ “زندگی گیلی مٹی سے جنم لیتی ہے”
حالانکہ اناکسی مینڈر نے طالیس کو رد نہیں کیا۔ بلکہ اس نے پانی کا اعتراف کرتے ہوئے فقط مٹی کا اضافہ کیا۔ کیونکہ گیلی مٹی میں پانی اور مٹی دونوں موجود ہوتے ہیں۔ یعنی زندگی کے وجود کیلئے دو عناصر لازم ہیں۔ پانی اور مٹی۔

سوال بڑھتے چلے گئے۔ طالیس اور اناکسی مینڈر کے بعد ایک سوال ہیراکلٹس نے بھی کیا کہ “فقط پانی اور مٹی سے زندگی کا جنم کیسے ہوسکتا ہے؟”۔ خود ہی جواب بھی دیا کہ “زندگی کا جنم آگ سے ہوا ہے”

چلیں، اب باری تھی ایمپی ڈوکلس کی۔ یہ محترم زندگی کے وجود کا باعث چار عناصر کو سمجھتے تھے۔ پانی، مٹی، آگ اور ہوا۔ایمپی ڈوکلس نے طالیس، اناکسی مینڈر اور ہیراکلٹس کی تائید کرتے ہوئے فقط ایک عنصر کا اضافہ کیا۔ اور وہ عنصر ہے ‘ہوا’
(ایمپی ڈوکلس کے اس چار عناصر والے نظریے کو ہم سکول و کالج میں ارسطو کے نام سے پڑھتے ہیں۔ اور ایمپی ڈوکلس ارسطو سے پہلے کا فلسفی ہے)

چلیں، اب ہمیں زندگی کے وجود میں آنے کے چار عناصر کا پتہ چل گیا۔ وہ چار عناصر ہیں آگ، پانی، مٹی اور ہوا۔

بالآخر ہم نے جان لیا کہ زندگی کا وجود کس چیز سے ہوا۔ مگر یہ عناصر آپ نے میری تحریر میں چند منٹوں میں پڑھ لئے مگر یہ عناصر معلوم کرنے کیلئے بڑے اذہان کو بڑا وقت لگا۔ اندازہ لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفر تقریباً تین سو سال/تین صدیوں پر مشتمل ہے۔ جی ہاں، تین صدیاں!

Advertisements
julia rana solicitors

pc;SUPERMACHT

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply