ایرانی سینما کی 20 نمائندہ فلمیں(1)-ذوالفقار علی زلفی

ایرانی فلم انڈسٹری کی تاریخ آج 80 سال سے تجاوز کرچکی ہے ـ پہلی ایرانی بولتی فلم “دخترِ لُر” (1933) ہندوستان میں بھارتی ہدایت کار اردشیر ایرانی نے بنا کر ایران میں ریلیز کی تھی ـ ۔اردشیر ایرانی پہلی بولتی ہندی فلم “عالم آرا” (1931) کے بھی خالق ہیں، ـ ہندی اور فارسی تقریباً ایک ہی ادوار میں بولتی فلم انڈسٹری کی فہرست میں شامل ہوئے، مگر ایران کے مخصوص سیاسی و سماجی حالات کے باعث وہاں فلم انڈسٹری ترقی کی اس منزل تک نہ پہنچ پائی جہاں آج ہندی سینما ہے۔

ایرانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کو عموماً دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ـ ایک وہ جس کو ناقدین “فارسی فلم” کا دور قرار دیتے ہیں ـ یہ دور 30 کے عشرے سے 60 کی دہائی تک محیط ہے جب کہ دوسرا دور جسے “ایرانی فلم” کا عہد مانا جاتا ہے وہ 60 کے عشرے سے تاحال برقرار ہے ـ۔

فارسی اور ایرانی فلم کی تفاوت اور اس کا تجزیہ میری پہلی کتاب “باسکوپ 1” میں شامل ہے ،اس لئے اس بحث کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں ـ۔ نئے قارئین کے لئے مختصراً ؛ “فارسی فلم” وہ ہے جس کی زبان تو فارسی ہو مگر اس کا ایرانی تہذیب و تمدن اور سماجی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو ـ، ایرانی فلم ناقدین کا اتفاق ہے کہ فارسی فلم 60 کے عشرے میں ختم ہوگئی۔ اب صرف ایرانی فلم کا دور ہے ـ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بات درست نہیں ہے ـ۔

ایرانی فلم کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے اس کے مطابق ایرانی فلم وہ ہے جو ایران کی حقیقی زندگی کی نقل ہو ـ جو سینما اسکرین پر سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو پیش کرے۔ ـ فارسی فلم غیر حقیقی اور مقصدیت سے عاری ہوتی ہے، یہ صرف تفریح فراہم کرتی ہے ـ میری نگاہ میں فارسی فلم کی ایک خصوصیت مروجہ سیاسی نظام کا پروپیگنڈہ بھی ہے ـ 60 کے عشرے سے قبل کی فلموں میں شہنشاہی نظام کا پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا تھا ـ۔

اسلامی انقلاب کے بعد 80 کے عشرے میں ایک اور سینما کا جنم ہوا ـ، یہ سینما اسلامی نظام کی حقانیت، ایران عراق جنگ کے تناظر میں ایران کی فوجی برتری اور امریکہ و اسرائیل کی مبینہ سازشوں کے حوالے سے فلمیں پیش کرتا ہے ـ ،اس سینما کو ایرانی ناقدین “سینمائے دفاعِ مقدس” کا نام دیتے ہیں ـ میرے نزدیک یہ نام گمراہ کن ہے ـ یہ سینما دراصل فارسی فلم کا ہی دوسرا روپ ہے ـ شاہ کے دور کی فارسی فلم سیکولر اور مغرب زدہ ہوا کرتی تھی جب کہ 80 کے بعد اس سینما نے اسلام اور مقدس دفاع (ایران عراق جنگ اور مغربی سازشیں) کی چادر اوڑھ لی ـ۔

ایران کی وہ فلمیں جو عالمی سطح پر ایرانی سینما کی شناخت متصور ہوتی ہیں ان میں سے ایک بھی دفاع مقدس سے متعلق نہیں ہے ـ تنقید کی سخت کسوٹی سے گزار کر جن فلموں کو بہترین قرار دیا جاتا ہے وہ بھی دفاع مقدس اور دورِ شاہ کی فارسی فلم سے متعلق نہیں ہیں ـ۔

ذیل میں ایرانی سینما کی 20 نمائندہ فلموں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے ـ یہ فلمیں میں نے اپنے محدود علم اور ناقص تنقیدی مشاہدے کے مطابق منتخب کی ہیں سو غلطی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ـ یہ تمام فلمیں ایرانی سینما کی نئی لہر سے متاثر ہیں ( نئی لہر اور اس کے قائدین و معروضی حالات پر تفصیلی بحث بھی “باسکوپ 1” میں ہوچکی ہے) ـ اس انتخاب کی ایک بھی فلم شاہی دور کی فارسی فلم اور بعد از انقلاب کے دفاع مقدس (درحقیقت نئی فارسی فلم) کا حصہ نہیں ہے ـ۔

ایرانی فلم ناقدین کے ایک حصے کا اصرار ہے دفاع مقدس کے گرد بنائی گئیں متعدد فلمیں شہکار ہیں ـ ان کے مطابق محض مغرب گزیدہ ناقدین کی وجہ سے انہیں بہترین کی سند حاصل نہیں ہوپاتی ـ میرا تنقیدی مشاہدہ مزکورہ ناقدین کے برعکس ہے ـ ایک بڑی فلم مخالفت کے باوجود بڑی فلم ہی رہتی ہے ـ تخلیق کو اپنا آپ منوانے کے لئے بلیک پروپیگنڈے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ آج نہیں تو کل اپنا آپ منوا ہی لے گی ـ

یہ فہرست میں نے بڑی احتیاط سے مرتب کی ہے ـ تاہم مجھے اپنی علمی کمزوری کا اعتراف ہے اس لئے اس کو حتمی قرار دینے سے معذور ہوں ـ۔

اس تحریر میں فلموں کے نام، ریلیز کی تاریخ ، ہدایت کار کا مختصر تعارف اور فلم پر مختصر تبصرہ شامل ہیں ـ ان فلموں کے تفصیلی تجزیے الگ کئے جائیں گے ـ میرے تجربے کے مطابق فیس بک چوں کہ سنجیدہ فلمی تجزیے کا فورم نہیں ہے سو یہ تجزیے فیس بک پر شیئر نہیں کئے جائیں گے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: یہ تصویر تہران کے “کیفے نادری” کی ہے جو 1920 سے ترقی پسند ایرانی دانش وروں اور فن کاروں کا مسکن ہے ـ مانا جاتا ہے ایرانی سینما میں نئی لہر پر پہلی بحث اسی کیفے میں ہوئی تھی اور اسی کیفے سے ایرانی سینما کو بدلنے کی کوششوں کا آغاز ہوا ـ
جاری ہے

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply