3 – گاؤ
سال : 1969
عالمی نام: The Cow
ہدایت کار: داریوش مہرجوئی
*ہدایت کار کا مختصر تعارف*
ہدایت کار، ایڈیٹر و اسکرین رائٹر داریوش مہرجوئی ایک انقلابی فن کار ہیں ـ انہوں نے ایرانی سینما کی کایا ہی پلٹ دی ـ وہ ایک ایسا انقلاب لائے جس نے ایرانی سینما کو عالمی پہچان دی ـ انہوں نے غیرسنجیدہ اور سوقیانہ فلموں کا تختہ الٹ کر سنجیدہ تفریح کی راہ ہموار کی ـ۔۔
داریوش 1939 کو تہران میں پیدا ہوئے ـ شاہ ایران کی “تعلیمی پالیسی” کے تحت نوجوانی میں وہ امریکہ چلے گئے ـ وہاں سے انہوں نے سینما کی تعلیم مکمل کی، اس کے بعد فلسفہ پڑھنے میں جت گئے ـ فلسفہ اور سینما کی تعلیم نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی ـ۔۔
ساٹھ کی دہائی ایرانی فلموں پر ترقی پسند ناقدین کے زبردست حملوں کا دور تھا ـ یہ سارے ترقی پسند ناقدین امریکہ و یورپ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے ـ داریوش بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے ـ انہوں نے تنقیدی عمل کا حصہ بننے کی بجائے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ فلموں کو کیسا ہونا چاہیے ـ ان کی پہلی تخلیقی کوشش ناکام رہی ـ دوسری دفعہ انہوں نے ایرانی فلم بینوں کے مزاج کو مدِنظر رکھ کر تفریح اور سماجی پیغام کو باہم مدغم کردیا ـ یہ کوشش نہ صرف کامیاب رہی بلکہ اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایرانی سینما کا رخ ہی موڑ دیا ـ اس تبدیلی کا نام فلم “گاو” (1969) ہے ـ
داریوش نے ایرانی فلموں میں سماجی ، سیاسی و معاشی مسائل و مشکلات کو فلمایا ، محنت کشوں و کسانوں کو فلموں کا حصہ بنایا ، علامت نگاری اور حقیقت پسندی کو متعارف کیا ـ ایسا نہیں ہے کہ یہ ان کی اپنی ایجادات ہیں ـ انہوں نے یہ انداز اٹلی کی نیورئیلسٹ فلمی تحریک اور کلاسیک ہندوستانی سینما کے عظیم ہدایت کار “ستیہ جیت رے” سے اخذ کئے ـ ان کی فلم “گاو” کو ایران سمیت عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ـ پہلی دفعہ عالمی سطح پر ایرانی سینما کو پہچان ملی ـ۔
اسلامی انقلاب (1979) کے بعد وہ یہ سوچ کر ملک سے چلے گئے کہ نئے مذہبی حاکم شاید سینما کو اسلام مخالف قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردیں گے ـ ان کی توقع کے برخلاف امام خمینی نے سینما کی حوصلہ افزائی پر مبنی پالیسی کا اجرا کیا ـ انقلابی حکومت نے ان سے رابطہ کرکے واپس آنے اور ایرانی سینما کو ترقی دینے کی درخواست کی ـ وہ لوٹ آئے ـ
میری نگاہ میں ان کی اہم ترین فلمیں “گاو” ، “اجارہ نشین ھا” ، “ہامون” ، “درخت گلابی” ، “لیلا” ، “مہمان مامان” اور “سنتوری” ہیں ـ
داریوش مہرجوئی کو سینسر شپ کے معاملات پر حکومت سے اختلافات بھی ہوئے ـ ایک فلمی تقریب میں انہوں نے گرج کر کہا “میں وہ دکھانا اور بتانا بند نہیں کرسکتا جسے میں درست سمجھتا ہوں، اگر کسی کو مجھ سے تکلیف ہے تو مجھے قتل کردے اس کے سوا میری زبان بندی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے” ـ ان کی درج بالا فلموں میں سے “سنتوری” (2007) پابندی کا شکار رہی ـ پابندی کے خلاف انہوں نے طویل جدوجہد کی، بالآخر اس فلم کو ویڈیو کے ذریعے پھیلانے کی اجازت مل گئی لیکن غالباً انہیں سزا دینے کے لئے فلم انٹرنیٹ پر وائرل کردی گئی ـ
داریوش نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کہا کہ اس فلم پر ہماری ٹیم نے محنت اور سرمایہ دونوں لگایا ہے ، عوام سے اپیل ہے ہماری محنت کا استحصال نہ کریں ـ عجیب واقعہ ہوگیا؛ ان کے اکاؤنٹ پر جیسے پیسوں کی بارش ہوگئی، ایرانی فلم بینوں نے یکے بعد دیگرے ان کی فلم کی قیمت دینی شروع کردی، ایک ماہ کے اندر اندر کروڑوں روپے ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوگئے ـ یقیناً یہ ایرانی فلم بینوں کی محبت اور احترام کی واضح علامت ہے ـ
یہ نابغہِ روزگار ہدایت کار 14 اکتوبر 2023 کی رات پراسرار طور پر قتل کردیے گئے ـ وہ صبح اپنی بیوی کے ساتھ اپنے ہی گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے ـ دونوں کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا تھا ـ قتل کی اس لرزہ خیز واردات نے ایرانی سینما کو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ہلا کر رکھ دیا ـ
*فلم پر تبصرہ*
“گاو” ایران کے شہری مراکز سے دور دیہی سماج کا خاکہ پیش کرتی ہے ـ اس زمانے میں ایرانی سینما شہروں میں مقیم ایلیٹ اور اپر مڈل کلاس کے روز و شب کو موضوع بناتا تھا ـ پردہ اسکرین پر گاؤں تب آتا جب شہری ایلیٹ کسی کام یا گھومنے کے لئے وہاں جاتا، گاؤں کی لڑکی اس پر عاشق ہوتی وہ اسے اٹھا کر شہر لے آتا یا وہاں گاؤں میں ہی اس کو حاملہ کرکے بھاگ جاتا ـ گاؤں کی سماجی زندگی پر بحث کو فضول سمجھا جاتا تھا ـ داریوش مہرجوئی وہ پہلے ہدایت کار تھے جنہوں نے پہلوی بادشاہت کی ترقی کے بلند و بانگ نعروں کے پیچھے چھپے دیہات کو سینما کا حصہ بنایا ـ
“گاو” مَش حسن نامی کسان کی کہانی ہے جس کے پاس ایک گائے ہے ـ وہ گائے سے بے انتہا محبت کرتا ہے ـ گاؤں کی سماجی زندگی میں بھی گائے کی بڑی اہمیت ہے ـ گائے پورے گاؤں کو دودھ کی نعمت سے نوازتی ہے ـ گاؤں کی سماجی زندگی کو ہر وقت پہاڑوں کے پیچھے چھپے پراسرار افراد سے تباہی کا خطرہ رہتا ہے ـ ایک رات مش حسن شہر جاتا ہے اسی رات کی صبح اطلاع ملتی ہے گائے کی موت ہوچکی ہے ـ اس پراسرار موت پر پورا گاؤں سوگوار ہوجاتا ہے، فیصلہ کیا جاتا ہے حسن کو موت کی اطلاع نہیں دی جائے گی اسے بتایا جائے گا گائے فرار ہوگئی ہے ـ آگے کی پوری کہانی حسن کے ردعمل اور گاؤں پر اس کے اثرات پر مبنی ہے ـ
دنیا کے تقریباً ہر خطے کی اساطیر میں گائے کو انسانی معیشت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جیسے یونان یا ہندوستان ـ قدیم ایرانی اساطیر میں بھی گائے زندگی کی علامت ہے ـ خدائے اہورمزدا پہلے انسان کی تخلیق کے بعد اس کے گزربسر کے لئے گائے بھیجتا ہے ـ بدی کی قوت اہرمن انسان کو تباہ کرنے کے لئے گائے کو قتل کردیتا ہے ـ خدا گائے کے گوشت اور ہڈیوں کو کھیت اور خون کو ندی کی شکل دے کر انسانیت کو تباہ ہونے سے بچاتا ہے ـ
اس فلم میں ایرانی اساطیر کو استعمال کرکے جدید پہلوی بادشاہت کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے ـ پہاڑوں کے پیچھے چھپے ڈاکو شہری بورژوازی کی علامت ہیں جن سے کسان کی معاشی زندگی کو خطرات لاحق ہیں ـ گائے کسان کی معیشت ہے جو اس سے چھینی جاچکی ہے ـ
کسان کی معاشی بدحالی یعنی گائے کی موت انقلابی موضوع نہ ہونے کی وجہ سے مذہب اور توہم پرستی کو جنم دیتی ہے ـ ایک بوڑھی عورت گائے کی موت کو پراسرار منفی قوتوں کی حرکت قرار دے کر پانی کے ذریعے انہیں بھگانے کی کوشش کرتی ہے ـ گاؤں کے سادہ لوح افراد بوڑھی عورت سے اتفاق کرکے نظر نہ آنے والے دشمن کو آسیب مان کر جادو ٹونے کو ان کے خلاف مزاحمت کا بہترین راستہ گردانتے ہیں ـ بقول کارل مارکس وہ مذہب کی افیون کھا کر خود کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں ـ
یہ فلم پوری شدت اور طاقت کے ساتھ شہنشاہی نظام کی طبقاتی معاشی پالیسی کو مسترد کرتی ہے ـ فلم سوال اٹھاتی ہے شاہی دستر خوان پر کسان کا حصہ کہاں ہے؟ ـ
فروغ فرخ زاد اور ابراہیم گلستان کی نسبت داریوش مہرجو ایک انقلابی ہدایت کار ثابت ہوئے ـ ان کی اس فلم نے ایرانی دانش کو بے انتہا متاثر کیا ـ اس فلم نے “فارسی فلم” کو مرکز سے نکال کر “ایرانی فلم” کو پوری قوت کے ساتھ سینما کا حصہ بنایا ـ شاہ مخالف ترقی پسند انقلابیوں کے مباحث میں “گاو” اہمیت اختیار کر گئی ـ معروف ایرانی دانش ور جلال آل احمد نے اسے بار بار دیکھنے والی فلم قرار دیا ـ ہوشنگ جو فارسی فلم کے سب سے بڑے ناقد تھے ، انہوں نے اسے ہوا کا خوش گوار جھونکا قرار دیا ـ
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم مذہب پر تنقیدی نکتہ نظر رکھنے کے باوجود شاہ مخالف مذہبی طبقات کو بھی بھا گئی ـ انقلابی رہنما اور معروف شیعہ عالم آیت اللہ خمینی نے عوام کو یہ فلم دیکھنے اور اس کے ذریعے شاہی جبر و ستم کو سمجھنے کی ترغیب دی ـ انہوں نے عوام پر زور دیا وہ اس فلم کو محض تفریح کے لئے نہ دیکھیں بلکہ اس کے کرداروں اور علامتوں پر غور کرکے اس پر علمی مباحث کریں ـ
فروغ اور گلستان نے سنجیدہ ایرانی آرٹ سینما کا جو بیج بویا تھا بلاشبہ “گاو” اس کا پھل ہے ـ اس فلم نے ایرانی سینما کی نوعیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل دیا ـ میری نگاہ میں اس فلم کی ایرانی سینما میں وہی حیثیت ہے جو ہندی سینما میں “مدر انڈیا” (1957) کو حاصل ہے ـ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں