۔ The beginning is wedged in the end
کتاب ظہور، عین صوف” Ein Sof کا ذکر کرتی ہے۔ یہ لامتناہیت یا infinity ہے۔ کلام و فلسفہ میں لامحدودیت کا تصور کاملیت Perfection، مطلقیت absoluteness اور اکملیت totality سے جڑا ہے۔ ظہور میں درج ہے کہ ‘وہ’ اکیلا ، یکتا، بے شکل اور بے نام ہے، چند جگہ اسے Ein /عین Ayinسے یاد کرتی ہے، یہ ‘لا’ کے معنی میں بھی ہے، نفی۔ وہ ہے بھی مگر نہیں ہے۔ عین صوف کے مقام پر صفات کا ذکر بھی نہیں، وہ بھی آگے چل کر آتی ہیں۔ اس وجہ سے ہر صفت، نام، علامت، ہر شئے سے منع کیا جاتا ہے۔ اس جگہ صرف YHWH کا نام دیا جاتا ہے۔ (اس پر آگے بات ہو گی)
انفنٹی کی علامت دیکھیں تو دو صفر ملیں گے، (تصویر میں انفنٹی کی علامت دیکھیے۔) اس سے خیال آیا کہ سناتن دھرم میں کائنات کنڈلی والے سانپ کی شکل میں تھی، اننت ناگ جسے کہتے ہیں، بھگوت گیتا میں ان کے بھگوان کرشن فرماتے ہیں، “اننتشاسمی ناگنم” ، یعنی ناگوں میں مَیں اننت ہوں، اور پھر یہ شکل تبدیل کر کے صفر/دائرہ کی شکل میں آ گئی، اب پھر انفنٹی کی علامت دیکھیے اور سانپ کا اپنی دم منہ میں لینا ‘کنڈلینی’ یاد کیجیے جس پر چند ماہ قبل پوسٹ میں بات کی تھِی۔
مصری و بابلی اس علامت کو Ouroboros کے نام سے یاد کرتے تھے، ۱۴۰۰ قبل مسیح کے فرعون طوطن خامن کا مقبرہ جب دریافت ہوا تو اس میں یہ علامت ملی۔ مصری عقیدہ کے مطابق موت کے دیوتا اوسائرسOsiris اور حیات کے دیوتا، سورج دیوتا “را” کے اتحاد کی علامت ہے۔ اس کی شکل بھِی انفنٹی والی ہے اور یہ ہر قسم کی مادی و غیر مادی ‘اشیا’ کے اتحاد کی علامت ہے، یہ لامتناہی ہے جو ہمیشہ ایک تخلیق و تباہی کے ہمیشہ رہنے والے دائروی گھن چکر میں گھومتی رہتی ہے، تباہی پھر تخلیق، تخلیق پھر تباہی۔
اسکینڈےنیوین نورس دیومالا میں Jörmungandr ایک دیوہیکل سمندری سانپ ہے جو Giant Realm میں ابھی بچہ ہی تھا تو ایسگارڈ کے خداوں کو اوڈن نے حکم دیا کہ یہ اور اسکی ماں مصیبت کا باعث بنیں گے، انہیں اس وجہ سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ یہ لوکی کا بیٹا ہے، یہ جوں جوں بڑا ہوتا گیا دنیا کو اپنی دم میں لپیٹتا گیا، اور دم اپنے منہ میں ہے۔ کہانیوں میں اس کا تھور سے مقابلہ ہوتا ہے، معلوم نہیں ہالی ووڈ نے اسے کہیں کوور کیا ہے یا نہیں۔
یہی شکل بائیبل کے معروف عفریت Leviathan کی بھی بتائی جاتی ہے۔ یہودی اور مسیحی علم کلام میں اس کی جہاں دلچسپ تشریحات ملتی ہیں، مسیحی فکر میں غالبا ًیہ وہی اژدھا ہے جس نے جنت میں حوا کو بہکایا تھا۔ جبکہ تھامس ایکویناس اسے استعاراتی معنوں میں حسد کے شیطان کے طور پر برتتے ہیں۔ ملٹن کی معروف نظم پیراڈائز لاسٹ/ گمشدہ جنت یاد کریں تو اس میں کچھ یوں ذکرہے؛
۔۔۔ that Sea-beast
Leviathan, which God of all his works
Created hugest that swim th’ Ocean stream.
فلسفہ میں ایک بار تھامس ہابس کی کتاب کا ذکر کیا تھا جس نے جدید عمرانی معاہدے یا سوشل کنٹریکٹ کا تصور دیا، اس کا نام بھی Leviathan ہے جہاں اس کے خیال میں جدید ریاست ہی یہ عفریت ہے۔
علاوہ ازیں شیطانزم / شیطانیت کی اگر معروف پانچ کونوں والے ستارے کی تصویر آپ نے دیکھی ہو، جسے عموما بکرے کا سر کہا جاتا ہے، وہ بھی دراصل Leviathan ہی بنایا گیا ہے۔
مکمل فقرہ صحف ابراہیمی / سیفیر یتزیرہ میں کچھ یوں ہے؛
The end is wedged in the beginning; the beginning is wedged in the end
ہندوستانی رگ وید کے حساب سے محترمہ سائرہ ممتاز جی نے رگ وید کا دسواں منڈل ایک بار لکھا کہ شروع میں است تھا نہ ہست، نہ عدم تھا نہ وجود، موت تھی نہ زندگی، بس وہی تھا جس نے تخلیق کا سوچا۔ قبالہ ہو یا سناتن، حیات اور کائنات دائروی ہیں۔
سناتن میں دنیا کا ہمیشہ ایک دور چلتا ہے جو ختم ہوجاتا ہے اور دنیا اختتام پذیر ہو جاتی ہے؛ پھر سے کائنات اور حیات کا ازسرنو آغاز ہوتا ہے، اسے منو/مانو دور کہتے ہیں، کل ۱۴ منو کا حساب معلوم ہے، منو سمرتی کو مورخ ویسے ایک ہزار قبل مسیح کا کلام مانتے ہیں، اس کے مطابق موجودہ دنیا دروادین منو ہے اور یہ بالکل شروع سے گنا جائے تو ہمارا یہ عہد ساتواں منو عہد ہے، اس ساتویں عہد کا نام ویسوتھا ہے جس کا آغاز طوفان نوح کے بعد سے حیات و کائنات کے Reboot ہونے سے ہوا۔
اب آگے چلتے ہیں عین صوف سے آگے چار جہانوں/عالموں کا ذکر ہے؛ یہ ارتقائی تصور ہے؛
Atzilut یہ صدور/تجلی والا عالم ہے۔
Beriah یہ عالم تخلیق ہے۔
Yetzirah یہ عالم تشکیل ہے۔
Asiyah یہ عمل کا یا افعال کا عالم ہے۔
ان چار کو ABYA سے یاد کیا جاتا ہے۔ (مخفف کا استعمال قبالہ میں اہم ہے جس پر اگلی پوسٹ میں بات ہو گی۔)
نوفلاطونیت میں اس سے ملتے جلتے چار جہاں ہیں جن کا آغاز واحد The One سے ہے جو ” عین صوف” سے ملتا جلتا ہے، یہ دوسرے نمبر کے nous کا صدور کرتا ہے جو اس کا مثالی عکس یا آرکی ٹائپ ہے۔ یہ دماغ ، عقل یا شعور ہے، عینیت اسی سے متعلق ہے۔ تیسرے نمبر پر”نوس” سے کائناتی روح کی پیدائش ہوتی ہے، یہ نوس سے جڑی بھی ہے یعنی نوس جیسے احد کا عکس تھی، یہ نوس کا عکس ہے جو چوتھے نمبر پر مادی دنیا سے بھی جڑی ہے۔ احد اور باقی جہاں میں وحدانیت اور کثرت کا فرق ہے۔ نوس فہم کا خالق ہے۔ دنیاوی روح سے انفرادی خیالات پیدا ہوتے ہیں اور آخری مادی دنیا ہے۔
مسلم فکر میں الفارابی کے ہاں نظریہ صدور ہے، ابن سینا نے کچھ اسے تبدیل کیا،قبالہ والی دلیل ہی دی کہ کائنات ظہور کی پیداوار ہے۔ ماخذ وجود، خدا ہے جو کہ واجب الوجود ہے، اس سے عقل اول کا صدور ہوا، جس سے عقل ثانی کا صدور ہوتا ہے جو فلک اول کی جسم و روح ہے، اسی طرح یہ سلسلہ چلتے چلتے، کوئی شاید دسویں عقل تک جا نکلتا ہےجہاں آخری عقل پھر کرہ ارض، مادے مجسم صورتیں اور نفس انسانی کی پیدائش کرتی ہے۔
غزالی نے احیاالعلوم میں تین عالمین کا ذکر کیا، عالم ناسوت، عالم ملکوت اور عالم جبروت۔
عالم ناسوت، نفس یا جسم کی دنیا ہے جہاں حواس خمسہ کی حکمرانی ہے یعنی کائنات ہست و بود۔
عالم ملکوت، ناسوت سے ترقی ہو کے آتا ہے، ملائکہ ، ارواح اور نفوس قدسیہ۔
جبروت اس سے اگلا، صفات حمیدہ، جیسے ذوق، شوق، وجد، سکر وغیرہ۔

چوتھے عالم کا اضافہ کر لیں، عالم لاہوت تو یہ غیب اور الیہات کی دنیا ہے۔ انہی چار عالمات سے جامی کے لافانی اشعار یاد آتے ہیں؛
ای رحمت تو شامل ملک و ملکوت
خاص تو ردای کبریا و جبروت
جان را به تو قوت است و دل را به تو قوت
انت الباقی و کل شی ء سیموت
ترجمہ: اے تیری رحمت میں ملک (بادشاہی) اور عالم ملکوت دونوں شامل ہیں، فخر، گھمنڈ/کبر کی چادر تجھ سے ہی منسوب ہے، روح ہو یا دل ، یہ خوراک/قوت آپ ہی سے پاتے ہیں، آپ ہی ہمیشہ باقی رہو گے، باقی تمام فنا ہونے والے ہیں۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں