ہندوستانی رسم سَتی پر مختصر تبصرہ/کامریڈ فاروق بلوچ

برصغیر کے ہندووَں میں رواج تھا کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کی زندہ بیوی اپنے مردہ خاوند کے ساتھ اُس کی چتا میں جل جاتی تھی۔ یہ ہندو رسمِ ستی کہلاتی تھی۔ قدیم ہندوستان میں اس رسم کی موجودگی کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔ بہرحال اِس سوال کا مستند جواب تاحال ناپید ہے کہ سَتی کا رواج کب شروع ہوا۔ ویدوں میں ستی کا ذکر نہیں ہے۔

اگرچہ بعض ہندووَں کا غلط خیال یہ بھی ہے کہ رگ وید میں ستی کاذ کر ہے، لیکن اس خیال کے غلط ہونے کا سب سے بڑا ثبوت رگ وید میں ہی موجود ہے کیونکہ رگ وید میں بیوہ سے کہا گیا ہے کہ “اٹھ کر دوسرے خاوند کا انتخاب کرو”۔

قدیم یونانی تاریخ میں بھی ستی کا ذکر نہیں ملتا البتہ مسلمان سیاحوں نے ستی کا ذکر کیا ہے۔ کچھ تاریخ دانوں کا اندازہ ہے ستی کی رسم ساتویں صدی میں راجپوت عہد سے شروع ہوئی۔ بقول “جمیز ٹاڈ” یہ رسم راجپوت عورتوں میں اُس وقت شروع ہوئی جب اُن کے مرد دشمن کے ہاتھوں لڑائی میں ہلاک ہوئے تو انکی بیواؤں نے فاتح دشمن کی غلام یعنی لونڈیاں بننے سے اپنے متوفی مرد کے ساتھ اُسکی چتا میں زندہ جل مرنا بہتر سمجھا۔

دوسری روایت بھی موجود ہے کہ مہابھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے۔ اُن کے اندھے باپ “دہرتراشتر” نے راج پانڈووَں کے حوالے کر دیا جس کے بعد وہ خود اپنی بیوی کے ہمراہ ہمالیہ ہجرت کر گیا۔ وہاں جا کر اُس نے آگ میں زندہ جل کر مرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ اس کی بیوی نے بھی شوہر کے ساتھ جلنے کا فیصلہ کیا۔اس واقعے کے بعد ہندوستانی عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت پہ بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ خیال پروان چڑھا ،یا چڑھایا گیا کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں اور اس موت پر اُس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جائے، تو اِس سے عورت کی اپنی نجات کے ساتھ ساتھ ان کے خاوند کی بھی نجات ہوجائے گی۔ بدلے میں دونوں خاوند بیوی سورگ میں عیش و عشرت کی ابدی زندگی ایک ساتھ گزاریں گے۔

“منو دھرم شاستر” ہندومت کی فقہی کتاب کہلاتی ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ برہمن، چھتری، ویش اور شورد قوم کی عورتیں ستی کرسکتی ہیں مگر جس عورت کا “لڑکا” چھوٹا ہو یا حاملہ و حیض والی عورت کو ستی نہ ہونا چاہیے اور منو نے زبردستی ستی سے بھی منع کیا ہے۔ جبکہ ہندوستانی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ حاملہ عورت نے بچے کی پیدائش کے بعد آگ جلا کر خود کو سَتی کر دیا۔

تاریخ میں ذکر ہے ستی ہونے والی عورت سرخ رنگ کا لباس پہنتی، اس کا دلہن کی طرح سنگھار کیا جاتا، عورت اپنا مال و زر اپنے  اقرباء میں تقسیم کرتی اور وہ عورت چتا کی طرف ایک ناریل کو ہاتھوں میں اچھالتی ہوئی بظاہر خوش خوش جایا کرتی تھی۔ چتا میں زرد گھی اور روئی کا انتظام کیا جاتا ۔عورت اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ لکڑیوں پر بیٹھ جاتی، لاش اور عورت کے گرد لکڑیاں چن کر اس کے اوپر اتنی روئی اور اتنا گھی ڈالا جاتا تھا کہ آگ مطلوبہ حد تک اتنی تیز ہو جاتی کہ زندہ عورت اپنے شوہر کی لاش سمیت جلد از جلد راکھ ہو جاتی۔ ستی ہونے والی عورت کا خاندان چند پشتوں تک پوجا کرتا تھا۔ ستی کی خبر سن کر اردگرد کے علاقوں سے لوگ تماشا دیکھنے کے لیے ایسے جمع ہو جاتے کہ ہزاروں کا مجمع لگ جاتا تھا۔

ابتدا میں سوائے راجپوتوں کے کسی دوسری قوم میں ستی کی رسم نہیں تھی۔راجپوتوں کی باہمی جنگوں یا مسلمانوں کے حملوں کے بعد اُن کی عورتوں نے ستی ہونا شروع کیا ۔انیسویں صدی کی ابتدا میں کھتری یا راجپوتوں کے علاوہ دوسری قوموں کی عورتیں بھی ستی ہوئیں۔ جلد ہی یہ رسم ہندوستان کے شمالی علاقوں خاص طور پر بنگال میں عام ہو گئی۔

دیکھنے اور سننے والی عوام ستی ہونے والی عورت کے عظمت، استقلال، وفاشعاری اور تحمل کا حیرت سے ذکر کرتے تھے کیونکہ ایک عورت جس طرح زندہ جل کر اپنی جان دیتی تھی اُس کے سامنے بڑی بڑی جنگوں میں سپاہیوں کی جانی قربانی بھی کمتر نظر آتی ہے۔

ہندوستانی تاریخ لکھنے والے انگریز تاریخ دانوں کا کہنا ہے سماج میں ایسے خیالات و معیارات پنپ چکے تھے کہ ستی نہ ہونے والی بیوہ کو ذلت آمیز زندگی گزارنی پڑتی تھی۔ اس لیے بھی عورتیں ستی ہو جانا بہتر سمجھتی تھیں۔ بنگال میں ستی ہونے والی ایک عورت خوف کے مارے چتا سے بھاگنے لگی تو لوگوں نے اُس کو پکڑ کر آگ کے سپرد کرنا چاہا تو ایک انگریز نے ایسا نہ ہونے دیا اور عورت کی جان بچ گئی۔ لیکن اگلے ہی روز وہ بیوہ نے انگریز کے پاس جا کر اُس کو بُرا بھلا کہا کہ اگر تم نے مجھے نہ بچایا ہوتا تو آج میں اپنے معاشرے میں ایسی رسوا اور ذلیل نہ ہوتی بلکہ جنت میں اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی۔

بہت سی عورتیں جوش و جذبات کے تحت اور خاوند کے ساتھ محبت یا وفاداری کے ثبوت کے طور پہ بغیر کسی جبر کے ستی ہونے کا فیصلہ کرتی تھیں۔ جبکہ بہت سی عورتیں خاندانی و معاشرتی جبر کے تحت ستی کی جاتی تھیں۔ مشہور ہے کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بیٹے کھرک سنگھ کی موت کے بعد اس کی بیوہ “ایسر کور” نے ستی ہونے سے انکار کیا تو راجا دہیان سنگھ نے اسے زبردستی کھرک سنگھ کی چتا کے ساتھ جلا دیا۔

ایسا نہیں کہ پورے ہندوستان کی عورتوں میں ستی کا رواج تھا بلکہ جنوبی ہندوستان، دکن، گجرات، بمبئی، سندھ اور پنجاب میں ستی ہونے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ وسطی ہندوستان، مشرقی ہندوستان، راجپوتانہ اور بنگال میں یہ رسم عام تھی اور انگریز نے سیکڑوں واقعات رپورٹ کیے۔ صرف سنہ 1829ء میں پابندی کے قانوں سے پہلے صرف بنگال میں سات سو عورتوں کے ستی ہونے کو رپورٹ کیا گیا تھا۔

مختلف علاقوں میں ستی کے مختلف طریقے رائج تھے۔ بنگال میں بیوہ کو مردے کے ساتھ چتا میں رسیوں اور بانسوں سے باندھ دیا جاتا تھا کہ عورت ڈر کے مارے بھاگ نہ سکے اور پھر چتا کو آگ لگا دی جاتی تھی۔ اوڑیسہ میں ایک گڑھا کھود کر اس میں مردے کو آگ لگائی جاتی، جب آگ بھڑک اٹھتی تو اس کی بیوہ اس میں کود جاتی یا اُس کو دھکا دے دیا جاتا۔ علاوہ ازیں یہ دستور بھی تھا کہ عورت مردہ شوہر کا سر اپنی آغوش میں لیکر بیٹھ جاتی جس کے گرد چُنی گئی لکڑیوں کو آگ لگا دی جاتی۔

ایسا رواج بھی تھا کہ ستی ہونے والی عورت چتا کے درمیان سر کو جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر مذہبی کلمات پڑھتی اور دعائیں مانگتی ہوئی جل کر راکھ بن جاتی۔ بعض واقعات میں ستی ہونے والی عورتوں کو نشہ آور  شئے دے دی  جاتی  کہ انھیں ہوش ہی نہ رہے۔ مثلاً گجرات میں ستی ہونے والی عورتیں کو عموماً افیون کھلا کر مدہوشی میں ستی کیا جاتا۔

ایسے واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جیسے ہی چتا کو آگ لگائی تو عورت ڈر کے مارے چتا سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی، لیکن اردگرد  مجمع کے لوگ اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں ڈال دیتے۔ یہ بھی ہوتا کہ اس کے اوپر لکڑی کے بھاری تنے دال دیے جاتے جس سے وہ دوبارہ چتا سے نکل نہیں سکتی تھی۔

فرانسیسی سیاح فرانکوئس برنیئر جو 1658 سے لیکر 1670 تک ہندوستان میں قیام پذیر رہا، نے ستی کا ایک واقعہ بیان کیا کہ اورنگزیب کے عہد میں میرے سامنے ایک غریب جوان عورت کو زبردستی آگ میں ڈال دیا گیا، اس طرح میں نے ایک اور بدنصیب عورت کو دیکھا کہ اس کے اردگرد چتا کی آگ بھڑکی تو اس نے ڈر کے مارے بھاگنا چاہا مگر ان جلاد صفت برہمنوں نے اسکو لمبے لمبے بانسوں سے دبا دیا کہ وہ نکل نہیں نہ سکی۔ برنیر نے بتایا کہ اُس نے ایسی کئی بدنصیب بیواؤں کو دیکھا جو چتا کو دیکھتے  ہی  بھاگنے کی کوشش کرنے لگیں مگر یہ ظالم برہمن مرد اُن خوف زدہ اور موت کا سامنا کرتی عورتوں کو ستی کی ترغیبیں اور بڑھاوے دیتے۔اس کے باوجود وہ عورتیں مزاحمت کرتیں تو زبردستی انھیں آگ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ برنیر یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہندوستان کے بعض حصوں میں جلا کر ستی کرنے کی بجائے عورت کو گردن تک زمین میں گاڑ دیتے ہیں اور دو تین برہمن یکایک اس کی منڈیا مروڑ دیتے جس سے اس کا دم نکل جاتا تو مٹی کی ٹوکریاں ڈال کر پاؤں سے دبادیتے۔ ایسے واقعات کا ثبوت 1829 کے ایکٹ 17 میں امنتاع ستی سے بھی ملتا ہے۔

لیڈی اہمرسٹ    1825 کا ایک واقعہ اپنی ڈائری میں لکھتی ہے کہ جوان لڑکی اپنے ہیضہ کے ہاتھوں ہلاک خاوند کی چتا سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی اور ساتھ والے جنگل میں جا کر چھپ گئی۔ لوگوں نے اُس کا جنگل میں پیچھا کرکے اس کو پکڑ لیا۔ بدنصیب لڑکی کو ایک ڈنگی میں بیٹھا کر دریا میں لے گئے اور بیچ منجھدار لڑکی کو دریا میں پھینک دیا۔ جب وہ لڑکی پانی کی سطح سے اوپر آئی تو چپو سے اسکے سر پر وار کیے گئے جس سے وہ دریا میں ڈوب گئی۔

مسلمان حکمرانوں نے ستی کی رسم کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کاوشیں مشہور مغل بادشاہ اکبر نے کیں۔ حتی کہ ستی کی خبر سن کر اکبر خود روکنے کے لیے موقع پہ پہنچ جایا کرتا۔ اکبر کے حوالے سے سب سے مشہور واقعہ راجہ جے مل کی بیوی کو ستی ہونے سے بچانے کا ہے، مگر یہ سچ ہے مسلمان حکمران ہندوستان سے اِس ظالمانہ رسم کا خاتمہ نہ کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سنہ 1829ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس رسم کے خلاف قانون کا اجزا کیا جس میں سختی سے اس رسم روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شروع میں چھپ کر ستی کے کچھ واقعات ہوئے۔ مگر برطانوی حکومت نے سختی سے اس رسم میں مددگاروں کو سخت اور کڑی سزائیں دیں یہاں تک  کہ اس رسم کا خاتمہ ہو گیا۔ انگریزی علاقوں میں یہ رسم ختم ہو گئی مگر دیسی ریاستوں میں بدستور جاری رہی۔ سنہ 1839ء کو مہاراجہ رنجیت سنکھ کی چتا پر اس کی ایک بیوی مہتاب دیوی اور تین لونڈیاں ستی ہوئیں۔ اس کے بعد انگریز حکومت نے دیسی ریاستوں میں بھی ستی کی رسم ختم کرنے کا حکم جاری کیا اور آخری ستی پنجاب میں 1845ء میں ہوئی۔ آج جب ہندووَں میں یہ رسم ختم ہو چکی ہے یہ اعتراف کیا جاتا ہے  کہ یہ ایک بہیمانہ، انسان دشمن اور وحشانہ رسم تھی۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply