چائے کی چسکی اور ادب کی چاشنی/جاوید ایاز خان

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چائے بنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

کہتے ہیں ادب اور چائے کا بڑا پرانا  یارانہ اور ساتھ ہے ۔چائے نہ ہو تو ادبی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں ۔میرے بچپن کے دوست شاعر وادیب اور صحافت کی دنیا میں ایک بڑا نام انجم لاشاری مرحوم جو بعد میں روزنامہ جنگ کراچی کے ایڈیٹر بھی رہے ۔کہا کرتے تھے کہ کوئی دوست مجھےچائے کے لیے پوچھ لے تو میرے پیر زمین میں دھنس جاتے ہیں اور چائے پینے سے پہلے باہر نہیں آتے ۔ وہ چائے پینے کے ساتھ ساتھ بلا کے سگریٹ نوش بھی تھے۔ ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ ان کی پہچان بن گیا تھا ۔جب بھی تشریف لاتے چائے کی فرمائش کرتے، تو میری والدہ کو بڑا غصہ آتا تھا کیونکہ ان دنوں چائے کے لیے لکڑی سے آگ جلانی پڑتی تھی۔ ا س لیے جب وہ انجم لاشاری کا نام سنتیں تو چائے تھرماس میں بھر کر بھجواتی تھیں، تاکہ وہ وقفے وقفے سے پیتے رہیں ۔وہ کہتا تھا یار جاوید میری سانسوں میں سگریٹ کا دھواں اور میری رگوں میں چائے دوڑتی ہے کیونکہ “من پسند شخص کی توجہ اور چائے جتنی بھی مل جائے کم ہوتی ہے “۔ انجم واقعی جلتی سگریٹ اورٹھنڈی چاے کا دیوانہ تھا ۔ایک دن انجم چائے اور سگریٹ پیتے پیتے سوچوں میں گم ہوگیا ۔میں نے کہا یار کیا سوچ رہے ہو ؟ تو اس نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا یار میں سوچ رہا ہوں جب چاے نہیں ہوتی تھی ۔سگریٹ بھی نہیں تھے تو یہ اتنے بڑے شاعر کیسے شعر لکھتے ہوں گے ؟اور سب سے بڑھ کر بغیر چائے کے سننے والوں کا کیا حال ہوتا ہوگا ؟خالی حقے کے کش سے تو شاعری نہیں ہوتی ؟ وہ کہتا تھا چائے اور عشق دونوں میں کچھ نا  کچھ رشتہ ضرور ہے ایک کو بنانا پڑتا ہے اور دوسرے کو منانا پڑتا ہے ۔ان دونوں کی لذت صرف دل اور دماغ والے لوگ ہی جانتے ہیں ۔

شام ادب ہمیشہ چائے کی خوشبو میں سجتی اور مہکتی ہے اور شاعر اور اس کی شاعری میں دم خم چائے کےہی دم سے ہوتا ہے ۔چائے خانے یا ٹی ہاؤس کی رونقیں ،شاعروں ادیبوں کی سجنے والی نشستیں اور سامعین کے ذوق کی تسکین چاے کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہوتی ہے ۔چائے خانوں میں دانشورں کی ہلکی پھلکی ادبی گپ شپ اور غیر روائتی مشاعرے سب ایک کپ چائے کے بغیر ادھورے رہ جاتے ہیں ۔چائے خانے ایسی بیٹھک ہوتے ہیں جہاں ادبی گفت و شنید اور چائے ساتھ ساتھ چلتےہیں ۔اچھی کتاب کو چائے کے بغیر پڑھنا کتنا مشکل ہے یہ صرف قاری ہی جانتا ہے اور ارود شاعری بھی چائے کےبغیر سننا یہ صرف سامع ہی جانتا ہے ۔ ارود ادب میں چائے پر لکھے گئے ہزاروں شعر اس بات کے غماز ہیں کہ شاعر اور چائے کا رشتہ ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور آئینے سے بھلا چائے کیسے چھپ سکتی ہے ۔ارودو ادب میں کلام شاعر بہ زبان شاعر بغیر چائے ادھورا رہتا ہے ۔چائے اور ادیب وشاعر کی نجی یا قلمی زندگی کا چولی دامن کا ساتھ چلا آرہا ہے ان کی رومانی شاعری ہو یا اداس نظم ‘چائے کا تذکرہ ضرور نظر آئے گا۔ اردو شاعری میں چائےکا تصور یقیناً ایک وسیع موضوع ہے جسے چند صفحات میں سمیٹنا ناممکن ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ “اچھی کتاب اچھے شعر اور اچھی چائے سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی ” اس لیے آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے چنداشعار حاضر ہیں مگر اپنے لیے چائے خود بنوا لیں   ۔

٭جن کا نعم البدل نہیں ممکن

چائے انہیں میں شمار ہوتی ہے

٭ہائے یہ چائے کی میزوں پہ  قہقہوں کے شریک

دِلوں میں جھانک کے دیکھو تو سب کے سب تنہا

٭کیتلی پر نگاہ ان کی ہو

کیسے چائے کا پھر نہ دم نکلے

٭نہ وہ آیا نہ بجھی چشم سبک گام میری

چائے کے کپ میں پڑی گھلتی رہی شام میری

٭ہنس پڑی شام کی اداس فضا

اس طرح چائے کی پیالی ہنسی

٭آدھی رات اور گہرے سائے

خالی کرسی میں اور چائے

٭کھو سا جاتاہوں کسی شام کی چائے میں کبھی

اور پھر چائے بناتے ہوئے رو پڑتا ہوں

٭چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والوں

یہ تماشے سر بازار نہیں ہونے کے

٭کبھی کبھی تو فقظ چائے کی پیالی سے

خزاں کی بوڑھی تھکن کو بہار کرتے رہے

٭چاے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ

یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے

چاے نے ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو طنزو مزاح کا بھی موقع خوب دیا ہے مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق اور طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہوتے ہیں اردو ادب میں طنزو مزاح ایک مقبول ترین صنف سخن ہے جو لوگوں کے دلوں کو گد گداتی ہے اور ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔یہ صنف سخن سادہ اور آسان لفظوں میں ہوتی ہے اور عام لوگوں میں بڑی جلد مقبول ہو جاتی ہے۔چند اشعار آپکے ذوق سلیم کے لیے پیش ہیں ۔

٭غالبا’ً غیر شعوری سے کسی جذبے سے

چائے شوہر کو بہت کالی پلائی ہوگی

٭بے وفائی کی خیر ہے لیکن

ہائے ظالم نے چاے نہ پوچھی

٭چائے کا کپ تھا ہاتھ میں

ورنہ ایسے طعنے پہ اُٹھ کے آجاتا

٭گھر کی صفائی ،کھانا ،بچوں کی دیکھ بھال

لڑکی کو چاے لانا مہنگا بہت پڑا ہے

ہمارے معیشت دانوں اور سیاستدانوں کی نگاہیں اب ہماری چاے کی پیالی اور کیتلی تک آپہنچی ہیں جو ہم غریبوں کی مہمان نوازی کا بھرم رکھے ہوئے ہے۔ مہمانوں کا سواگت اس سے سستا ممکن نہیں ہوسکتا ۔آج کے معاشرے میں یہ ہمارے غریب مزدور کی سب سے بڑی عیاشی تصور کی جاتی ہے ۔ یہ چاے اب تمام کاروبار ،دفتروں اور دکانوں کی زینت بن چکی ہے۔جس کے بغیر جینے کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے ۔اگر چائے کو اپنا قومی مشروب کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا ۔چائے ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ ہے گھر گھر میں چائے کے دو گھونٹ سے ہی دن کا آغاز اور اختتام ہوتا ہے ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں چائے وہ واحد گرم مشروب ہے جو غصہ ٹھنڈا کرنے کی اہلیت رکھتا  ہے ۔

دو کی بجائے چاے بنائی ہے ایک کپ

افسوس ! آج تو بھی فراموش ہو گیا

ہمارے وزیر اور سیاستدان احسن اقبا ل صاحب نےجب ایک کپ چائے کم کرنے کا مشورہ دیا تو ہماری چائے زدہ قوم تڑپ اُٹھی اورادیب شاعر اور دانشور تو پریشان ہوکر رہ گئے ہیں ۔ کیونکہ اب تو پوری قوم کی رگوں میں خون کی بجائے چائے گردش کر رہی ہے ۔ہمارے معاشرے میں چائے کی ایک پیالی ذہن کو تازہ کر دیتی ہے تھکاوٹ کو مٹاتی ہے ۔دکھ سکھ کی گھڑی ہو یا ٹینشن سے نجات پانا ہو سر درد ہو یا اکیلےمیں کسی خاص کے ساتھ وقت بتانا ہو چائے ایک خوشگوار بہانہ ہی نہیں ہماری تہذیب وتمدن اور روایات کا اہم جزو بن چکی ہے ۔اگر کسی کو چائے نہ پلائی جائے تو کہتے ہیں ” ایک کپ چائے بھی نصیب نہ ہوئی یار کنجوسی کی بھی حد ہوتی ہے ایک کپ چائے بھی نہ پلائی “دراصل یہ ان کے غصہ کا اظہار ہوتا ہے ۔ “خدارا چائے کا احترام کیا کرو یہ تمام مشروبات کی مرشد ہے ”

چائے ہی چائے بدن میں ہے لہو کے بدلے

دوڑتا اب ہے رگوں میں یہی تتا پانی

میری ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ غریبوں کی مہمان نوازی اور ادیبوں کی تنہاہی اور اداسی کے آخری سہارے چائے کو اپنی ماہرانہ رائے سے نہ چھیڑا جائے کیونکہ ہمیں اسکے چھوڑنے ،مہنگا اور کم کرنے کے تصور سے ہی تکلیف ہوتی ہے ۔جب سے آپ نے ایک کپ چائے کم کرنے کا کہا ہے ہماری چائے کی پیالی میں بھی ایک طوفان برپا ہے۔ ایسا نہ ہو یہ طوفان پیالی کے ساتھ ساتھ ہماری آنکھوں سے بھی سے بھی چھلک جائے ۔کیونکہ معیشت کی تباہی میں غریبوں اور ادیبوں کی چائے کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ۔ہماری زندگی بہت مختصر ہے چند چائے کی پیا لیاں ہماری معیشت کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں ؟ “چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والوں یہ تماشے سر بازار نہیں ہونے کے”کیونکہ

میں نے چھوڑ کر بھی دیکھی ہے

julia rana solicitors

میرا چائے کے بن گزارہ نہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply