اس موضوع پر نئے سرے سے ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔کسی بھی شخص کے مرنے کے بعد کاروبار دنیا ہرگز ہرگز نہیں رکتے۔ زمین سورج کے گرد اپنی بے ڈھنگی چال چلتی ہی رہتی ہے اور اپنے مدار سے انچ بھر نہیں سرکتی، نہ ہی کسی پر کوئی آسمان ٹوٹ پڑتا ہے۔
ہاں!
اگر آپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تو صرف آج کے دن ان کے چاچے مامے تائے اور دیگر رشتہ دار ان کے سر پر آخری بار دست شفقت ضرور پھیریں گے اور پھر ہمیشہ کے لیے اپنی نظریں پھیر لیں گے۔
آپ کی بیوہ اپنی چوڑیاں توڑ کر بال بکھرائے خوب ماتم کرے گی مگر اس سے قبل آپ کے بٹوے، سونے کی انگوٹھی، گلے کی چین اور گھڑی کو اتار کر تالا لگا کر بکسے میں بند کر دے گی۔ گھر کے کاغذات اور دیگر جائیداد کے پیپرز کو نہایت احتیاط سے ٹھکانے لگانے کے بعد دو گھونٹ پانی پی کر ہی اپنا رونا پیٹنا شروع کرے گی۔ جلد ہی پاس پڑوس کی خواتین، محلے والے اور قریب دور کے رشتہ دار اس ڈرامے میں شرکت کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے۔
کسی بھی شخص کی وفات حسرت آیات کا اصل دکھ اس کے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو ہی ہوتا ہے۔ عزیز و اقارب، پرانے دوست کچھ حد تک ہمدردی رکھتے ہیں مگر دیگر تمام لوگ دل ہی دل میں یہ اطمینان رکھتے ہیں کہ بفضل خدا وہ ابھی زندہ و سلامت ہیں۔
پاکستانیوں کی مرنے کے بعد کی تمام رسوم ہندو مت سے ہی لی گئی ہیں۔ دراصل برصغیر کے زیادہ تر لوگوں نے دیگر مذاہب کے پیرو کار ہونے کے بعد بہ ذور تلوار ڈر کر یا لالچ میں اسلام قبول کیا تھا۔ انھوں نے کلمہ تو پڑھ لیا مگر اپنی رسومات، کلچر اور رہن سہن کو مکمل برقرار رکھا۔ شادی بیاہ، پیدائش اور مرن جیون کا سارا کلچر جوں کے توں مکمل ہندوانہ ہیں۔ اسلامی و عربی کلچر سے ان کا دور دراز کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مردے کے منہ میں آب زم زم ٹپکانا، قرآنی اوراق سے ہوا دینا، سرہانے بیٹھ کر تلاوت، سوئم، تیجا، قل، ختم قران، مرنے پر دیگیں پکانا، سات دن سے لے کر مہینہ بھر کا سوگ، میت والے گھر میں چولہا نہ جلانا، بیوہ کی چوڑیاں توڑنا، صرف سفید لباس پہننا، بیجا خیر خیرات کرنا، دان، پن، بہنوں بیٹوں کو سوگ اترائی میں سونے کے زیور دینا وغیرہ وغیرہ ہند و پاک کے علاوہ کسی اور مسلم ملک میں ہرگز مروج ہی نہیں ہیں۔
مرنے کے بعد ہر گھر میں دیگیں ہی کھڑکتی ہیں۔ لوگ باگ مزے لے لے کر کھانے کھاتے ہیں، ہنسی مذاق، گپ شپ، ادھر ادھر کی باتیں، مرنے والے کی برائیاں یا اچھائیاں بڑھا چڑھا کر کی جاتی ہیں۔ میٹ کا کفن میلا ہونے سے قبل ہی وارثین میں اکثر وارثت کے حصے بخرے کرتے ہوئے پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ سگے بھائیوں میں ناچاقی، بہنوں کو حصہ دینے یا نہ دینے میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ مرے پہ سو درے کہ اچھے خاصے متحد گھرانوں میں ناحق نفاق اور منافرت کا بیج بویا جاتا ہے۔ گھروں کے اور دلوں کے درمیان دیواریں بن جاتی ہیں اور نازک رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ کسی بزرگ کے مرنے کے بعد اکثر اس گھرانے میں جوتوں میں ڈال بٹنے لگتی ہے۔ بنے بنائے گھر گھروندے بھی اجڑ جاتے ہیں کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں