تاروں کی چھاؤں میںہم ہر سال بیرون ملک سے سفر کرکے پاکستان آتے جاتے رہے یہ اتفاق کی بات تھی کہ ہمارا سفر صبح کے وقت ہی ہوتا اکثر رات کے تین بجے ایرپورٹ جارہے ہوتے رات کے اس پہر ٹھنڈی میٹھی نسیم سحر کے لطیف جھونکے اوپر آسمان پر ٹمٹماتے ستارے نیچے زمین پر سٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنیاں کچھ دیر بعد آسمان پر پھیلتی شفق اور اس کے پیچھے طلوع ہوتے آفتاب کا اجالا یہ سب ہماری نیند سے بوجھل آنکھوں کو ایک خواب ناک منظر لگتا تھا اس کا فسوں آج تک بھی قائم ہے فلائٹ کبھی صبح چھ بجے ہوتی کبھی آٹھ بجے مگر ائرپورٹ جانے کا وقت وہی طلوع سحر سے پہلے کے ملگجے اندھیرے میں ہی ہوتا اور اکثر منزل پر پہنچتے وقت سلونی شام اتر رہی ہوتی
کبھی کسی دور دراز ملک سے واپسی پر پورا دن اور پوری رات آج کے جدید اڑن کھٹولے پر اُڑتے گذر جاتی دن کے وقت جب سورج طلوع ہوتا تو اس کی کرنیں جہاز کے پروں پر منعکس ہورہی ہوتیں کہیں کہیں نیلے آسمان پر روئی کے گالوں جیسے بادل ادھر ادھر اڑ رہے ہوتے جہاز اوپر اور بادل نیچے ہوتےاور
آج میں اوپر آسماں نیچے
والا احساس ہوتا کہیں ایسا علاقہ آجاتا کہ سیاہ گھنے بادل مست ہاتھیوں کی طرح جھومتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ان کی دبیز تہہ میں سے بجلی کے کوندے لپک رہے ہوتے اور تیز ہوائیں جہاز میں لرزش پیدا کردیتیں کریو کیبن سے سیٹ بیلٹ باندھنے کا اعلان ہوتا اور مسافر اپنے اپنے طریقے سے سلامتی کی دعائیں کرنے لگتے اس زون سے بحفاظت نکل آنے پر شکر کرتے کبھی کہیں نیچے گھنے درختوں کے جنگل ہوتے زمین دکھائی نہ دیتی بس درخت ہی درخت نظر آتے دن کے وقت جب یہ اڑن کھٹولا سمندر کے اوپر سے گذرتا تو کھڑکی سے نیچے دیکھنے کا تجربہ نرالا ہوتا دور نیچے سمندر کے سینے پر اٹھتی لہریں سورج کی روشنی میں چاندی کی طرح چمک رہی ہوتیں ایسا لگتا سمندر سانس لے رہا ہے کہیں کہیں کوئی بحری سفینہ پر سکون پانیوں میں ارتعاش پیدا کرتا ہوا گذرتا دکھائی دیتا اگر کہیں ساحل قریب ہوتا تو ماہی گیروں کے سٹیمر چھوٹی بڑی کشتیاں اور کروز سمندر کے سینے پر تیر تے ہوئے فضا کی بلندیوں سے یوں دکھائی دیتے جیسے سطح آب پر کنول تیر رہے ہوں یونہی چلتے چلتے شام ڈھل جاتی اور ڈوبتا سورج آسمان پر گلال بکھیرتا اپنا راج پاٹ چاند کے حوالے کر کے اندھیرے میں کھو جاتا اور کائنات پر رات اتر آتی ہر چیز اندھیرے کی چادر میں چھپ جاتی آسمان پر چاند کی سربراہی میں ستاروں کا راج ہوتا رات کے کسی پہر کبھی جہاز کسی شہر کے اوپر سے گذرتا تو نیچے شہر کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی روشنیاں ایسے لگتیں جیسے ستاروں کی کہکشاں زمین پر اتر آئی ہو دنیا کے رنگا رنگ خطوں کے اوپر سے پرواز کرتے اور جہاز کے اندر مسافروں کے سوتے جاگتے رات بیت جاتی اور اگلا دن طلوع ہوجاتا دن کے کچھ حصے کے بعد ایک عارضی منزل پر جہاز زمین پر اترتا جہاں کچھ وقت گذرنے کے بعد پاکستان پہنچنے کے لئے جہاز تبدیل ہوتا رات کے پہلے پہر روانگی ہوتی اور تین ساڑھے تین بجے جب قدم مادر وطن کی سر زمین پر پڑتے تو ائر پورٹ پر اور گھر کے راستے میں وہی تاروں کی چھاؤں والا خواب آگیں ماحول ہوتا گو کہ تھکن سے جسم چور چور ہوتا لیکن وطن کی ہواؤں میں سانس لینے کی کیفیت ہی نرالی ہوتی
مسافر کا منزل سے جب ہو مِلن
قدم اس کے چھوئیں زمین وطن
تو بے ساختہ ہو زباں سے ادا
خدا کا شکر ہے میں گھر آگیا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں