گریڈ 6 میں ہمیں مس صفیہ اردو پڑھاتی تھیں۔جب وہ کسی مشکل لفظ کو ایکسپلین کرنے لگتیں۔ میں انہیں لقمہ دیتی۔ اس وقت تک اخبار جہاں جنگ بچوں کے ناول اور ڈائجسٹ پڑھ پڑھ کر میری اردو اور جرنل نالج بہت اچھی ہو چکی تھی۔
بہت سے ٹیچرز ایسے بچوں سے چڑ جاتے ہیں لیکن مس صفیہ نے مجھے پاکٹ ڈکشنری کا خطاب دیا ہوا تھا۔ بہت شفیق ٹیچر تھیں اور مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اسکول میں ڈسپلن تو بہت تھا لیکن مارنے کا رواج نہیں تھا۔ صرف سسٹر جیما گریڈ نائن کی کلاس ٹیچر اسکیل سے ہتھیلی پر ضرب لگاتی تھیں۔ لیکن انکا ذکر پھر کبھی۔
مس صفیہ ہی گرلز گائیڈ کو بھی ڈیل کرتی تھیں جس کے لئے میں بڑی پرجوش تھی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ہمیں گرلز گائیڈ کے ہی ساتھ میانی فارسٹ لیکر گئی تھیں۔ جہاں ایک بہت شاندار ٹیوب ویل تھا جس کے ساتھ ایک بہت وسیع سلوپ تھا ۔
ٹیوب ویل کا پانی ٹینک کو فل کرنے کے بعد آبشار کی مانند اس سلوپ سے نیچے پھسلتا ہوا جاتا تو اس پر بیٹھے بندوں کو پوری طرح بھگوتا جاتا اور مزہ آ جاتا ۔
دیہی بیک گراؤنڈ کے لوگ شاید ٹیوب ویل کی تفریح سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہوں لیکن میں نے اپنی زندگی میں صرف یہیں اسکا مزہ لیا۔
ہم اس دور میں ماموں وغیرہ کے ساتھ بھی وہاں جاتے رہے تھے۔ ویسے جہاں تک مجھے یاد پڑتا یہ پرائیوٹ پراپرٹی تھی مگر انہوں نے ٹیوب ویل کے حصے پر پبلک کو انجوائے کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ میانی کی پراپرٹی کا کوئی تاریخی بیک گراؤنڈ بھی ہے ۔ اگر کسی کو معلوم ہے تو شیئر کرے۔
قریب ہی ایک ریسٹ ہاؤس بھی تھا جو انہوں نے اسٹاف کے لئے کھول دیا تھا۔ ہماری ساری ٹیچرز بھی ساتھ تھیں۔ اور ایک ایکس سینٹ میرین دلشاد مرزا بھی اس ٹرپ پر ہمارے ساتھ تھیں۔ دلشاد آپا غزل سنگر تھیں اور انہیں خاص خاص موقعوں پر اسکول بلوایا جاتا تھا۔
مجھے یاد ہے اس دور میں
عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں
کس قدر چوٹ کھائے ہوئے ہیں۔
شاید آصف علی کی گائی ہوئی غزل بہت مقبول تھی۔
دلشاد آپا میوزک کے بغیر بہت ہی خوبصورت گاتیں۔
جب ہم گریڈ نائن میں جب ہمیں گریڈ ٹین کو فئیر ویل دینی تھی تو میں نے اس غزل کی پیروڈی لکھی۔ مجھے اس دور تک پیروڈیز لکھنے کا شوق ہو چکا تھا۔
پیروڈی کے جو الفاظ مجھے یاد ہیں وہ یہ تھی
نائنتھ میں ہم تمہیں کیا بتائیں
کس قدر چوٹ کھائے ہوئے ہیں
ہم کو ٹیچرز نے مارا ہے اور ہم
پیٹرولز کے ستائے ہوئے ہیں
ایک مصرع یہ بھی تھا
بس اسی دن سے اسکول کی ٹیچرز مجھ کو مرغا بنائے ہوئے ہیں
اصل غزل کا مصرع تھا
بس اسی دن سے جنت کی حوریں مجھ کو دولہا بنائے ہوئے ہیں
اسکول پیٹرول دراصل گریڈ ٹین کی لڑکیاں ہوتی تھیں جو ڈسپلن مین ٹین کرنے کے لئے والنٹیئر کرتی تھیں۔
لیکن ہم نے صرف اس غزل کی پیروڈی ہی نہیں کی تھی بلکہ ہم نے اس دور میں انور مقصود کے مقبول ترین شو سلور جو بلی کی پیروڈی کی تھی اور اسکا نام رکھا تھا کو پر جوبلی
کوپر جوبلی کا اسکرپٹ میں نے اور سعدیہ قاضی نے ملکر لکھا تھا ۔ سعدیہ میڈیکل کرنے کے بعد شادی کر کے امریکہ منتقل ہو گئی تھی۔ لیکن آج یہ سطریں تحریر کرتے ہوئے میرا دل اداس ہو رہا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں۔
سعدیہ نے اسکول گریڈ نائن میں ہی جوائن کیا تھا۔ اس سے قبل وہ لطیف آباد کے کسی اسکول میں پڑھتی تھی۔ اسے بھی میری طرح ادب سے دلچسپی تھی۔ شعر و شاعری کا شوق تھا تو ہماری بہت جلد دوستی ہو گئی۔بلکہ مہفشاں میرا سعدیہ قاضی اور سعدیہ اسرار کا گروپ ہی بن گیا۔
سعدیہ قاضی کا قد کلاس میں سب سے لمبا تھا۔ آواز اور شکل تھوڑی مردانہ۔ لیکن اسکی رائیٹنگ بہت پیاری تھی اور سینس آف ہیومر غضب کا۔ اسے ہر وقت مسکراتے دیکھا۔ اس وقت اسکا مسکراتا ہوا چہرہ میرے میری نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے۔
اس ڈرامے کا اسکرپٹ سعدیہ کی ہینڈ رائیٹنگ میں لکھے ہوئے کاپی سے پھاڑے کاغذات پر لکھا ہوا بہت عرصے تک میرے پاس محفوظ رہا تھا۔ ابھی بھی وہ کاغذ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔
اور میرا خیال ہے اسکی صرف مجھ سے نہیں کلاس کی ہر لڑکی سے دوستی تھی۔اسے لوگوں کا دل جیتنا آتا تھا۔
اکثر گھر سے انگلش گلاب یا کلی لیکر آتی اور ہمیں گفٹ کرتی۔ اسکے گھر میں بہت سے کلرز اور شیڈز کے گلاب لگے ہوئے تھے۔
ایک دفعہ اس نے مجھے بہت ہی خوبصورت انگلش گلاب ہی کی لمبی ڈنڈی والی کلی گفٹ کی جو میں نے اپنے اسکول بیج کے پیچھے بکسوئے یعنی سیفٹی پن کے ذریعے سینے سے لگا لی۔ کسی دوسری کلاس فیلو نے مذاق میں اسے نکالنے کی کوشش کی اور اسکی ڈنڈی ٹوٹ گئی۔مجھے بہت افسوس ہوا۔ لیکن میں نے کسی سے اسکاچ ٹیپ لے کر یا کاپی کور سے اتار کر کسی طرح اسے جوڑ دیا کہ بظاہر وہ ٹھیک لگنے لگا۔
بریک کے وقت مجھے شرارت سوجھی ۔ میں کلاس کے دروازے پر کھڑی تھی کہ وہاں سے سر مظہر ہمارے فزکس کے ٹیچر گزرے۔ میں نے وہ ڈنڈی ٹوٹی کلی گڈ آفٹر نون کہہ کر انہیں دے دی۔انہوں نے خوش ہو کر لے بھی لی۔
اب پتہ نہیں انہیں کب علم ہوا کہ یہ مذاق تھالیکن بریک کے بعد جب وہ کلاس میں آئے تو انکے پاس وہ کلی نہیں تھی۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ کس قدر فضول حرکت کی تھی میں نے۔ویسے یہ گریڈ ٹین کی بات ہے۔
اچھا میں بتا رہی تھی کہ کوپر جوبلی کا اسکرپٹ میں نے اور سعدیہ قاضی نے ملکر لکھا تھا۔ مہفشاں کرن جو میری قریب ترین دوست تھی اور آج بھی مجھے بہت عزیز ہے نے اس میں ہوسٹ یعنی انور مقصود کا کردار ادا کیا تھا۔
ہماری ایک کلاس فیلو فرحین جو کچھ ہی عرصہ پیشتر امریکہ سے آئی تھی اس میں عمران خان بنی تھی۔ اسکا لہجہ بھی عمران کی طرح امپورٹڈ تھا۔ ایک اور گروپ فیلو اور جان سے پیاری دوست سعدیہ اسرار جس کے والد کیڈٹ کالج پٹارو کے پرنسپل تھے نے شاید کسی ایکٹرس کا رول کیا تھا۔لیکن اس میں سب سے دلچسپ کردار میری دانست میں میرا تھا۔ میں بظاہر ایک شاعر لیکن اصل میں سر مظہر بنی تھی یعنی جن ٹیچر کو گریڈ ٹین میں ہمیں فزکس پڑھانی تھی وہ۔۔سر مظہر بننا بڑا رسکی تھا۔ اس منصوبے سے بہت سی پیچیدگیاں وابستہ تھیں۔
سسٹر جیما میرینا گریڈ نائن میں ہماری کلاس ٹیچر ہوتی تھیں اور ڈسپلین کے معاملے میں بہت سخت تھیں۔ فئیر ویل کے پروگرامز کی ریہرسل کی وہی ذمہ دار تھیں۔
ان کو پتہ چل جاتا کہ ہم کسی ٹیچر کی نقل اتار رہے تو کیا ہوتا۔ یہ سوچ کر ہی ہمیں اس دور میں جھرجھری آجاتی تھی۔ اب اسکا حل ہم نے یہ ڈھونڈا کہ ریہرسل کے لئے ہم نے ڈائیلاگز میں تبدیلی کر لی۔ ہم ریہرسل کے دوران سسٹر کے سامنے تبدیل شدہ ڈائیلاگ بولتے۔
اب اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ فئیر ویل سے ایک دن پیشتر جب تینوں سیکشنز کی ایک ساتھ ریہرسل اسی ہال میں تھی جسکا میں نے تذکرہ کیا تو اے سیکشن کی کلاس ٹیچر کو ہم پر شک بلکہ یقین ہو گیا۔ وہ میرا
“فرسٹ آف آل آئی وانٹ ٹو ٹیل یو اباؤٹ مسلمز کونٹرینیوش ٹوارڈز فزکس
First of all, I want to tell you about the Muslims Contribution towards physics
کا “فرسٹ آف آل” سے غالباً اصل کہانی بھانپ گئیں۔یہ سر مظہر کا تکیہ کلام مشہور تھا۔
اور ہمیں اسکول کی پرنسپل سے بھی اتنا ڈر نہیں لگتا تھا جتنا سسٹر جیما سے لگتا تھا۔
باقی آئندہ
سینٹ میریز حیدرآباد/ یادوں کی برات(قسط3)-تزئین فرید
بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں