خاموش سمندر/احمد مبارک

خواب میں ہاتھ تھامنے والے
دیکھ بستر سے گِر پڑا ہوں میں
لیاقت علی عاصم
86کی گرمیوں کی شام تھی۔ رفعت القاسمی کے ہاں نارتھ ناظم آباد میں اُن دنوں ہم سب جمع ہوتے تھے۔کبھی کبھار کی اُس محفل میں ایک شام عبیداللہ علیم ، حسنین جعفری اور ایک اجنبی دوست کے ہمراہ داخل ہوئے۔کھانے اور دوستانہ ادبی بات چیت کے بعد تقریباًسبھی نے شعرسنائے ۔ لیاقت علی عاصم اُس شام رات ڈھلنے تک ایک تازہ کار کمیٹیڈ شاعر کی دریافت ثابت ہوئے۔حسبِ معمول رات گہری ہوتی گئی ،شاید بارہ بجے کے بعد کا عمل ہو گا کہ لیاقت علی عاصم نے گھبرا کرکہا کہ میں اب واپس منوڑہ نہیں پہنچ سکتا، آخری کشتی کنارے سے روانہ ہو چُکی ہوگی۔

شاید کسی کو بھی خبر نہیں تھی کہ اُن کے اداس دل کے خاموش آنگن میں کتناگہرا سمندر موجزن ہے۔
کھارا اور سبز سمندر۔۔ جس نے اُن کے نحیف بدن سے ہوکر نیلاہٹ مائل ہونٹوں تک نمک بھر دیا تھا۔اُس تلخی سے شاعرِ زودرنج ایک نغمہ تخلیق کرتا تھا۔جسے سمندر اپنی موجوں کے تلاطم میں سنتا اور موج اُچھالتا چُپ چاپ پَڑ جاتا ، پانیوں کی پُرشور خامشی کو شاعر نے خود کو نظر انداز کرنے پرمحمول کیا اور اُداس ہوکر اپنی ڈائری، رنگ اور برش لے کرایک روز شہر کے بیچوں بیچ آرہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوستوں کی تلاش میں گُھوما ،اور انسانوں کے سمندر میں چپ چاپ تیرنے لگا،جن کے درمیان اس کی فسردہ دِلی اسے چائے خانوں کی دیواروں کو گھورتے،خاموشی اور تنہائی کے بیچ جی کڑا کر کوئی فقرہ لگاتے تمباکو کے دھوئیں اور چائے کی کڑواہٹ میں اُسے حالتِ شعر میں ڈوبتے اُبھرتے رہنے کو چھوڑدیتی۔ لُغت کے دفتری روزوشب نے مصرعے کو نکھار نکھار دیا ۔وہ وقتِ  آغاز تھا ادبی سرمائے میں ایک گراں قدرحصہ ڈالنے کا اور ایک بے ریا بے سازش بے نیازی کے ساتھ مصرع سوچتے اور لکھتے رہنے کا۔ لیاقت علی عاصم نے اپنی تنہائی نہیں بانٹی۔دوستوں نے خود ہی اُس میں شراکت داری قائم کرلی تھی اور جب سب اُنھیں اپنی ابدی آرام گاہ میں سپردخاک کرکے لوٹے تو دوچند ہوتی تنہائی کو اُن کے شعرسناکر غم غلط کرنے کوبیٹھ گئے۔روایت اور کلاسیکی شاعری کے موضوعات کو اپنے اندرکے سمندر کی لہروں میں بہتے ڈولتے رہنے کے ساتھ ایک نئی آب و تاب دینے والا شاعرہم سب دوستوں کے درمیان اپنے شعرکے ساتھ موجود رہے گا۔آخری کشتی مسافر کو لے کر اَن دیکھے سمندروں کو روانہ ہوگئی تھی زندگی اسی طرح دوام سے آگے نکل جاتی ہے۔
فارغ نہ جانیے مجھے مصروف جنگ ہوں
اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply