پنجاب، پاکستان میں لفظ ”سیاپا“ بڑے رعب و دبدبے اور جلال و تمکنت سے بولا جاتا ہے، یقیناً آپ کے کان اس لفظ ”سیاپا“ کی سماعتوں سے ضرور روشناس ہوئے ہونگے، آپ نے ضرور سماعت کیا ہو گا!
” کیی یار پٹ سیاپا اے“
پنچاب میں زیادہ تر لوگ یہ لفظ عموماً بری چیز کے اظہار یا مصیبت کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں کہ کیا سیاپا یعنی مصیبت آن پڑی ہے، اسی لفظ سیاپا پر علی ظفر کی فلم ”ٹوٹل سیاپا“ بھی بنی تھی، لیکن خواجہ سرا کلچر میں یہ ایک خاص رسم ہوتی ہے، جو ان معنوں کے قریب سے بھی نہیں گزرتی اور جو کبھی پنجاب کے کلچر کا حصہ ہوا کرتی تھی!
لفظ ”سیاپا“ کی اصل فارسی ہے اور یہ دو الفاظ کے مرکب سے مل کر بنا ہے، سیاہ اور پا!
سیاہ، کالے رنگ یا اندھیرے کو کہتے ہے جبکہ پا قدم یا پاؤں سے منسوب ہے، جس کا عام فہم لفظی معانی کالے پاؤں یعنی شیطانی راستوں پر چلنے کے بنتے ہیں!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ”سیاپا“ کی اصطلاح کچھ تہذیبوں اور ثقافتوں میں شیطان یا بد روحوں کے لیے بھی استعمال کی گئی ہے، لیکن خواجہ سراؤں کا اس سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے، خواجہ سرا کلچر میں ”سیاہ پا“ کا معانی ”شیطان کی برائی کے قدم یا برے پاؤں“ نہیں ہے بلکہ یہ ایک استعاراتی اظہار ہے، خواجہ سراؤں میں پیروں کو روحانی سفر کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس اظہار میں خواجہ سرا اپنی پرانی زندگی سے نکل کر ایک نئی زندگی میں قدم رکھ کر ایک روحانی سفر کا آغاز کرتا ہے، جس کی نشان دہی رسمی طور پر سر پر پانی ڈالنے اور پاؤں دھونے سے ہوتی ہے!
فیضی ماں اپنی فرہنگ اصطلاحات خواجہ سرا صفحہ 101 سیایا پر بطور محقق درج ذیل پیرا گراف لکھتی ہیں:
سیاپا: خاص بین جو کسی خواجہ سرا کی وفات پر کیے جاتے ہیں، رونا دھونا ماتھی راگ
سیاپا کرنے کا ایک خاص انداز ہوتا ہے یہ بین منہ سے پڑھا جاتا ہے اور چھاتی پر ہاتھ سے ماتم کیا جاتا ہے کچھ دیر بعد وہ ہاتھ رانوں پر مارنے شروع کر دیے جاتے ہیں ایک کھسرا یہ بین پڑھتا ہے باقی دوہراتے ہیں
اور خاص بات یہ کہ سیاپا وہی کھسرا کرتا ہے جس کا اپنا گرو بھی فوت ہو چکا ہواور وہ اس کی جگہ گدی نشین ہو!
یا د رہے ، یہ ایک ایسی رسم ہے جس میں جب خواجہ سراؤں کا کوئی گرو فوت ہوتا ہے تو اسکی جگہ نئے بننے والے گرو کے بال کھول دیے جاتے ہیں اور درمیان میں بٹھا کر سب باقی خواجہ سرا ماتم کرتے ہوئے خاص تال اور لے میں ہاے ہاے لکھیاں نہ مڑیاں جیسے بین پڑھتے ہوئے پہلے سینے پھر اعصابوں پر ہاتھ مارتے ہیں، خواجہ سراؤں کا اس طرح کسی گرو یا خواجہ سرا کے مرنے پر جو ماتم یا بین کیا جاتا ہے اسے سیاپا کہا جاتا ہے، ”سیاپا“ صرف وہی خواجہ سرا کرتے ہیں جن کے خود کے گرو فوت ہو چکے ہوں، گرو کے فوت ہونے پر چیلہ کے سر پر پانی ڈالنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ چیلہ نے اپنی نئی زندگی میں قدم رکھ کر ایک روحانی سفر شروع کرنا ہے!
بین:
ہائے ہائے لکھیاں نہ مڑیاں
اول نام اللہ دا
ہائے ہائے لکھیاں نہ مڑیاں
روندی بسی تیری
ہائے ہائے لکھیاں نہ مڑیاں
روندا فیض
ہائے ہائے لکھیاں نہ مڑیاں
روندا ہدیہ آباد
ہائے ہائے لکھیاں نہ مڑیاں
روندی شام چوراسی
ہائے ہائے لکھیاں نہ مڑیاں
اول نام اللہ دا
اسی طرح پشتو زبان میں ”سیاپا“ کا معنی ”سینہ یا چھاتی“ ہوتا ہے، اور جب اسے ”سیاپا“ کی رسم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو اس سے مراد موت کی رسم یا مراسم ہوتا ہے، جس میں عورتیں مرحوم کے وفات کے وقت سینے پر ہاتھ مارتی ہیں!
گو کہ ”سیاپا“ پنجاب، پاکستان کے مختلف علاقوں میں کیا جاتا تھا اور میت پر باقاعدہ خواتین کو پیسے دے کر بلایا جاتا ہے،جو اس کام میں ماھر ہوتی ہیں!

گیانی گردت سنگھ لکھتے ہیں کہ یہ سیاپا مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے کیا جاتا تھا، کہیں پر دونوں ہاتھ پہلے رانوں پر پھر سینوں پر پھر گالوں پر اور پھر پٹپڑیوں پر مارتے ہوئے مختلف بین گائے جاتے تھے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں