ویسے اس سے پہلے میں نے دو ہزار سترہ ، اٹھارہ میں بھی کوشش کی تھی حج کرنے کی ، مگر قرعہ اندازی میں نام نہ آسکا کیونکہ اس وقت سرکاری حج سبسڈائزڈ ہوتا تھا تو درخواست گزار بھی لاکھوں میں تھے۔ پھر میں کچھ مایوس ہو کر خاموش بیٹھ گیا شاید قسمت میں نہیں ہے لیکن جب سے یہ سبسڈی ختم ہوئی تو کافی حد تک قسمت اپنے اپنے ہاتھ میں آگئی ۔ اب جیبوں کو کھنگالا اور پھر مطمئن ہو کے ارادہ مصمم کرلیا کہ ہم دونوں میاں بیوی حج پہ جا سکتے ہیں۔ پھر بیوی سے کہا کہ نیک بخت خوش قسمتی سے حکومت نے اس بار شارٹ پیکج بھی لانچ کر دیا ہے جو کہ بیس سے پچیس دن کا ہے ہم اس میں اپلائی کر دیتے ہیں آگے سے تنک کر بولی کیتی نا فیر ارائیاں آلی گل۔
میں نے بمشکل نیفے میں دھوئیں کو دباتے ہوئے جواب دیا کہ اے چائنہ کی سیّدانی۔۔ یہ ہتھوں پچھہتر ہزار فی کس مہنگا ہے اور حج تو وہی چار پانچ دن کا ہے اوپر کے دن تو اضافی یعنی نفلی ہیں ایک دو عمرے تو اس میں بھی آسانی سے ادا ہو جائیں گے۔
تو اُلٹا شرمندہ ہونے کے بجائے فرمایا آپکے لئے تو 80 دن والا پیکج ہونا چاہیے۔
میں نے سڑ کر کہا دیکھو پھر میں ایک کم از کم مومن ہوں۔ بس ضروری ضروری عبادتیں کروں گا ۔جتنی ہمت توفیق ہوئی حرم میں نماز پڑھوں گا کبھی ڈنڈی بھی لگ گئی تو میرے گلے نہ پڑنا، تمہارا جب دل کرے جاؤ آؤ بھلے وہاں اعتکاف میں بیٹھ جاؤ لیکن مجھے نا دھرْونا (گھسیٹتا)۔
ہاں جو اصل حج کے ایام ہیں اس میں انشاء اللہ کوئی کمی کوتاہی نہ آنے دوں گا کیونکہ یہی مقصود سفر ہے۔
بولی، لو جی اب عبادت بھی حسبِ ذائقہ ہوگئی۔
پھر پاسپورٹ رینیو ہونے دئیے۔ بینک میں درخواست جمع کروائی بینک والوں نے پوچھا کہ قربانی آپ خود کریں گے یا سرکاری ہوگی میں نے کہا جب سب کچھ سرکار کر رہی ہے تو قربانی میں کیا قباحت ہے ویسے بھی ہماری سرکار کھال بہت اچھی اتارتی ہے اور ہم سے تو یہاں جانور نہیں لیا جاتا چہ جائیکہ غیر ملک میں خجل ہوتے پھریں۔
پھر بینک والوں نے پوچھا کہ ڈبل روم لیں گے کہ شیئرنگ کریں گے
فرق پوچھا تو بولے کہ ڈبل روم کا ایک لاکھ اسی ہزار مزید دینا ہوگا
میں نے کہا کر دیں
بولے فی کس ایک اَسی ہے
میں فیر رہن ای دیو اسی ڈبل اچ وی سونا تے شیئرنگ اچ وی سونا۔
منیجر بولا کہ سر ڈبل روم میں کمفرٹیبل رہتے پرائیویسی ہوتی ہے۔
شاہ جی مجھے تو ایک اَسَی میں بھی گھاٹا آنا تھا ، تین ساٹھ کیسے “حلال” کروں گا۔ میں نے ایک آنکھ دبا کر جواب دیا۔
شاہ جی زیر لب مسکرائے مگر سنجیدگی کا دامن تھامے مجھ سے چیک لیا اور فارم سبمٹ کر دیئے۔
میں نے اپنے فارم الائیڈ بینک کے تھرو جمع کروائے ہیں مجھے اس بینک کی سروسز اچھی لگتی ہیں روایتی سا بینک ہے SOP,s کا بڑا دھیان رکھتا ہے اس لئے کچھ سست معلوم ہوتا ہے لیکن اسی وجہ سے بالکل سیف ہے۔ البتہ بڑے کاروباری حضرات کو وارے نہیں کھاتا۔
اس سارے پراسیس میں برانچ منیجر سید نوید رضا اور سیکنڈ آفیسر جناب ذیشان صاحب نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا ،ان کا خصوصی شکریہ اور ان کے لئے یہاں بھی خصوصی دعا کی ہے ۔
اس بار سرکار نے چھ ماہ پہلے ہی درخواستیں وصول کر لیں، کیونکہ حکومت سعودیہ کی ریکوائرمنٹ تھی کہ جنوری کے پہلے ہفتے تک معاملات فائنل کر دیئے جائیں۔لیکن اس اچانک افتاد کے نتیجے بہت سے لوگ فوری رقم کا بندوست نہ کر سکے۔ حکومت اگر یکمشت رقم نہ لیتی تو کئی ایک کا بھلا ہو جاتا۔
اب قرعہ اندازی کا انتظار شروع ہوا دل مطمئن تھا کہ اس بار درخواست گزار کم ہیں نام آ ہی جائے گا۔
اس لئے جب وزارت حج کی طرف سے ہمیں مبارک باد کا پیغام موصول ہوا خبر سن کر خوشی ہوئی مگر ایکسائٹمٹ نہ ہو سکی۔
لیکن حیرانی ہوئی جب کچھ واقفان کے نام اس قرعہ اندازی میں نہ آ سکے تب احساس ہوا کہ ہم تو اس کو فار گرانٹڈ لے رہے تھے اور حیرانی یوں تھی کہ کم درخواستوں کے باوجود قرعہ اندازی کی ضرورت ہی کیا تھی۔
بہرحال میں نے اور زوجہ نے دو دو نفل شکرانے کے ادا کئے، اور میں تو سلام پھیر کر دنیا داری میں مشغول ہوگیا مگر سْوسری زوجہ نے سلام ہی نہ پھیرا اور حج پینِک میں مبتلا ہو گئی۔
میں نے حج کیوں کیا؟
لو جی بِلا نو سو چوہے کھا کے حج کو جا ریا۔تو بھائی نو سو چوہے یا چوہیاں بِلے کی جانے بَلا۔
بھئ ارادہ حج کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آخر کرنا تو ہے کیونکہ یہ اسلام کا پانچواں ستون ہے۔
دوسرا یہ کہ بِلے کی شوگر اب پرانی ہوتی جا رہی ہے اور عمر بھی ڈھلنے لگی ہے تو سوچا کہ کچھ صحت بھی باقی ہے اور فراغت اور فرصت بھی میسّر ہے تو اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔
اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ بندہ کم از کم مؤمن ہے لہذا اتنی حاضری ضروری ہے کہ نام نہ کٹے۔ میں اللہ کی دی ہوئی ہر رخصت بھاگ کے قبول کرتا ہوں اللہ کی رحمانیت کو اس کی قہاریت پہ غالب خیال کرتا ہوں اور کہا گیا ہے کہ اللہ سے جیسا گمان رکھو گے اسے ویسا ہی پاؤ گے ،تو بھئ اپن اللہ کے لاڈْو بن کے رہتا ہوں اس لئے نماز بھی آگے پیچھے کر لیتا ہوں ظہر عصر ، مغرب عشاء مِلا بھی لیتا ہوں ایک وتر بھی پڑھ لیتا ہوں تراویح کی ڈنڈی مار لیتا ہوں تیسرا چوتھا روزہ بھی شوگر کے نام پہ چھڑوا لیتا ہوں کہ اللہ معاف کرے گا۔
ہاں مگر توحید پہ کوئی کمپرومائز جب اللہ نہیں کرتا تو ہم بھی نہیں کرتے اور اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بخشش کا دارومدار آپ کے عقیدہ اور اعمالِ پر ہے کسی پیر فقیر کو نجات کا باعث نہیں سمجھتے،رسول نہیں بلکہ اتباع رسول کو وسیلہ جانتے ہیں اور حقوق العباد میں کوتاہی کو عباد سے معافی سے مشروط سمجھتے ہیں۔
اور یہ سوچنا کہ بِلا گنہہ گار ہے یا فلاں گنہہ گار ہے بیکار ہے تو بھائی اصل ضرورت تو گنہہ گار کو جانے کی ہے نیک تو بخشا بخشایا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ جب جائے تو توبہ کا مصمم ارادہ دل میں کرکے جائے۔
تیسرا چونکہ یہ دور فتن ہے اور ہر طرف انکار اور الحاد کی بوچھاڑ ہے تو کم از کم سوشل میڈیا استعمال کرنے والا اس تیزابی بارش میں بھیگے بنا نہیں رہ سکتا اور راقم تو ویسے بھی لائی لگ مؤمن نہیں ہے تو دل پر ایک دبیز تہہ سی چڑھتی جا رہی تھی تو سوچا کہ یار اب سیکنڈ ہاف میں اپنی عاقبت خراب کرنا عاقبت نااندیشی ہوگی۔
ویسے بھی پاکستان میں ملحدین کونسا خالص ہیں کہ جن کے پیچھے لگ کر چٹی داڑھی خراب کرلی جائے کیونکہ یہ سارے ہائبرڈ ملحد ہیں یعنی انکی فیملیز دیندار اور مشرقی تہذیب کی حامل ہیں اور نماز روزہ اور دیگر اسلامی شعائر پر کار بند ہیں اور یقین کریں کہ اس بات پہ یہ چائنا کے ملحدین دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں یہ ان کے ساتھ ٹچکریں تو کرتے رہتے ہیں مگرکبھی بھی دل سے انہیں الحاد قبول کرنے کی دعوت نہیں دیتے کیونکہ انہیں پتا ہے اس صورت میں انہیں اولڈ ہوم کا منہ دیکھنا پڑ جائے گا کیونکہ الحاد پرستی کا ماخذ سائنس ہے جسے یہ قدرت کا نام دیتے ہیں اب بندہ پوچھے کہ قدرت تو قادر سے مشروط ہے بنا فاعل کے کیسا فعل اور کہاں کا فعل۔ ؟
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں