کچھ دلچسپ مطالعاتی یادیں(5)-ٍ علی ہلال

شیخ یونس خالص افغانستان کے قبائلی زعماء میں منفرد مزاج شخص تھے۔ وہ سوویت یونین جنگ کے دوران افغانستان کے ایک مقبول قبائلی زعیم کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی حیران کن بات یہ تھی کہ جنگ کے خاتمے پر امن معاہدہ کے ساتھ ہی انہوں نے جنگ سے ہاتھ کھڑے کردیے۔
دس برس سے زائد عرصے تک لڑنے والے مزاحمت کار کے لئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا ۔مگر انہوں نے اپنے وعدہ کو سچ ثابت کرنے کے لئے اپنے تمام تر اسلحہ افغانستان کی مرکزی حکومت کے حوالے کردیا۔ جس میں ٹینک سمیت بھاری ہتھیار بھی شامل تھے۔ افغانی مرد اسلحہ کو بہت محبوب رکھتے ہیں اور کسی بھی طور پر ہتھیار کی حوالگی پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ لیکن یونس خالص نے جنگ اور خونریزی سے مکمل کنارہ کشی کرلی۔

ان کا خیال تھا کہ دیگر افغانی وار لارڈز بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے پاس موجودہ ہتھیاروں کے ذخائر حکومت کے حوالے کردیں گے اور واپس آکر اپنے ہمسایہ قبائل کے ساتھ امن اور آشتی کے ساتھ رہنا شروع کریں گے۔ تاہم ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہوسکی اور کسی بھی افغانی زعیم نے ان کی اس درست رائے کا ساتھ نہیں دیا۔
ہر ایک زعیم نے نیا محاذ سنبھال لیا۔ سوویت یونین دور کے خلاف ایک محاذ پر لڑنے والے سابق اتحادی باہم دست وگریباں ہوگئے ۔ خونریز جاری رہی جس کے نتیجے میں افغانستان ایک مرتبہ پھر ایک خونریز جنگ کے دلدل میں پھنس گیا۔

میرے والد نے  بتایا کہ میں نے ان کے درمیان  صلح کے لئے بڑے جتن کئے مگر کامیابی نہ ملی۔ انہوں نے مجھے بطور راز بتایا کہ میرے بیٹے! افغان مرد بڑے ضدی ہوتے ہیں۔ انہوں نے زمین،حکومت اور قانون سمیت کسی بھی چیز پر اتفاق اور صلح کرنے سے انکار کیاہے اور اسلحہ اٹھاکر جنگ میں کود پڑے ہیں۔

میرے والد نے اس ٹکڑے ٹکڑے افغانستان کو یکجا کرنے کے لئے متعدد افغانی امراء حرب کے ساتھ ملاقاتیں کیں ۔جن میں سے احمد شاہ مسعود، رشید دوستم اور شیخ سیاف کے علاوہ باقی کسی کے نام مجھے یاد نہیں ہیں۔

میرے والد نے سب کے پاس جا جاکر ان سے ملاقاتیں کیں اور انہیں متحد ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کی مگراس مہم میں انہیں ناکامی ہوئی اور وہ بالآخر مایوس ہوگئے۔

افغانستان کے جنگ سالاروں میں احمد شاہ مسعود بین الاقوامی شہرت یافتہ افغان جنگجوکے طور پر مشہور تھے۔ ان کے والد ایک فوجی تھے۔ جس کے سبب احمد شاہ نے شروع سے اچھی تعلیم پائی اور پانچ زبانوں میں مہارت حاصل کی۔

تعلیم کے ساتھ انہوں نے سیاست میں بھی سمجھ بوجھ حاصل کی۔ احمد شاہ مسعود زمانہ طالب علمی سے افغانستان میں کمیونزم کے پھیلتے ہوئے اثرات کے مخالف تھے مگر انہوں نے ہتھیاروں کا سہارا نہیں لیا۔ کیونکہ ان کا خیال تھاکہ تشدد سے افغانستان تباہ ہو جائے گا۔

سوویت یونین کے افغانستان پر باقاعدہ حملے کے بعد وہ روس کے خلاف ہتھیار لیکر میدان میں نکلے اور افغانی مزاحمت کے نمایاں شیر بن کر ابھرے۔

سوویت یونین کے بعد احمد شاہ مسعود نے متعدد زعماء اور جنگی لیڈران کو یکجا کرکے ملک میں قیام امن کی کوششیں کیں۔ جب ہم افغانستان پہنچے اس زمانے میں وہاں جاری جنگ میں نمایاں  فریق کے طور پر طالبان کا گروپ میدان میں نمایاں تھا۔ طالبان گروپ کو طاقتور پاکستانیوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ جس کے باعث طالبان کا گروپ کامیابیاں سمیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ جس کے پیش نظر لگ یہی رہا تھا کہ یہی گروپ انجام کار سب پر حاوی ہوگا۔

میرے والد نےحالات کا جائزہ لیکر بتایا کہ طالبان گروپ کامیابیاں سمیٹ کر آگے بڑھ رہاہے اور یہ بہت جلد دیگر گروپوں پر حاوی ہورہاہے لہذا افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں بھی اس کی حمایت کرنی چاہیے ۔
اس کا سیدھا مطلب تھا کہ احمد شاہ مسعود جن کی ماضی میں میرے والد نے بہت مدد کی تھی اب میرے والد کا دشمن بنے گا۔
اس کے باوجود میرے والد مسعود کے لئےدل میں نہایت احترام رکھتے تھے۔ اور کہا کرتے تھے کہ احمدشاه مسعود کے زیرکنٹرول اراضی پر روسی کبھی قدم نہیں رکھ سکےہیں۔

میں افغانستان میں ایک دوسرے لیڈر سیاف سے بھی ذاتی طور پر ملا۔ وہ بہت خوبصورت اور متاثر کن نقش ونگار کے حامل شخص تھے۔ ان کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی طویل اور گھنی داڑھی تھی۔ اس قدر گھنی اور طویل داڑھی میں نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں ان سے اس قدر متاثر ہوا کہ ان سے داڑھی کی اس لمبائی کا راز پوچھنے کی خواہش میرے دل میں مچل اٹھی لیکن یہ سوال پوچھنے کی میری ہمت نہیں ہوسکی۔

سیاف کی عجیب بات یہ تھی کہ وہ قد میں بھی بہت بلند تھے تاہم ان کا قد میرے والد سے کم تھا۔ البتہ وہ جسمانی ضخامت میں میرے والد سے بہت بڑے تھے۔ان کا جسم ضخیم تھا مگر جسم میں چربی نہیں تھی۔ میں متعدد افغان لیڈران اور جنگ سالاروں سے ملا جو سب کے سب بہت مضبوط تھے مگر ان سب میں سیاف سب سے زیادہ بارعب شخص تھے۔

افغانستان میں قبائلی زعماء اور سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دور کے دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد آخر کار وہ دن بھی آگیا جب میرے والد نے بولا کہ بس بہت ہوگیا۔ یہی ملاقاتیں کافی تھیں ۔ اب تورا بورا جانے کا وقت ہوا ہے۔ جہاں ہمیں اپنا گھر بنانے کی تیاری کرنی ہے۔

میں پُر امید تھا کہ جلال آباد میں میرے والد کو تحفہ میں ملنے والی اراضی ان کے دل سے تورا بورا کا خیال نکال دے گی ۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمیں جلال آباد میں اس اراضی پر اپنے رہائشی کمپلیکس کی تعمیر تک ہمیں دریائے کابل کے قریب واقع اس شاہی محل میں قیام کرنا چاہئیے ۔اور تورا بورا کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے ۔

تاہم میرے والد انتہائی جلدی میں تھے۔ نہ جانے کیوں۔ بس ایک ماہ بعد انہوں نے اعلان کردیا کہ اب ہم تورا بورا جاکر اپنے اس پہاڑ کا جائزہ لیں گے جو آل بن لادن کو دیا گیا ہے۔
اس اعلان کے ساتھ میری دمہ کی بیماری میں شدت آگئی۔ بدقسمتی سے میرے پاس انہیلر اور دیگر ضروری آلات بھی میسر نہیں تھے۔
(ویسے بھی میرے والد ادویات اور طبی آلات سے علاج کے شدید مخالف تھے اور میں ادویات ان سے چھپ کر استعمال کرتا تھا)

میری حالت دیکھ کر انہوں نے اپنے رجال سے شہد کا چھتہ لانے کا کہا۔ جسے میں سونگھتا تھا۔ سونگھ سونگھ کر مجھے کوئی افاقہ نہیں ہوا مگر میرے والد جب کوئی فیصلہ کرتے تھے تو پھر ہار کبھی نہیں  مانتے تھے۔

جب شہد سے بات نہ بنی تو پیاز ابالنے کا کہا گیا۔ مجھے ابلے ہوئے پیاز کے گرم پانی کا بخار لینا پڑا۔ تاہم یہ بھی شہد کی طرح بے سود ثابت ہوا۔

جب اس سے بھی بات نہ بنی تو زیتون کے تیل کے چند قطروں کو انگاروں پر ڈال کر مجھے اس کا دھواں کھینچنے کا کہا گیا۔ دھواں کھینچ کر میری کھانسی مزید بڑھ گئی ۔ میری تکلیف اس قدر بڑھ گئی کہ مجھے لگا میں زندگی کے آخری ایام جی رہاہوں اور میں قبر کی مٹی سونگھنے لگا ہوں۔

میری تکلیف کا یہ عالم تھا کہ میں انہیلر سے چند سانسیں کشیدنے کے لئے تورا بورا کے پہاڑ میں اپنا حصہ دینے کو  تیار تھا۔ مگر مرنے سے قبل ایک سانس لینا چاہتا تھا۔
اس حالت نزع میں کوہ سفید (سپین غر) کی جانب ہم نے رخت سفر باندھ لیا جہاں تورا بورا واقع تھا۔

julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply