شیخ نورالدین رشی کشمیر میں نند رشی کے نام سے مشہور ہیں ۔ انہیں شیخ العالم کا خطاب بھی دیا گیا ۔ ان کا شمار کشمیر کے بڑے اولیا اور صوفی شعرا میں ہوتا ہے۔ ہندو مسلم بھائی چارے کے داعی اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں یکساں قابل احترام ہیں۔افغان گورنر عطا محمد خان نے ان کے نام کا سکہ جاری کیااور سری نگر ائر پورٹ بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔1377ء میں بڈگام میں پیدا ہوئے ، 1438ء میں انتقال فرمایا اور ضلع بڈگام ہی کے ایک قصبے چرار شریف میں دفن ہوئے۔ چرار شریف کانام ہم نے پہلی مرتبہ 1995ء میں اس وقت سنا جب میجر مست گل نامی ایک کردارنے بھارتی فوج کے ساتھ مقابلے کے دوران اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چرار شریف کے مزار میں پناہ لی ۔نتیجۃً 11 مئی 1995 ء کی رات مزارکوآگ لگا دی گئی۔ مزار کی عمارت لکڑی کی بنی ہوئی قدیم طرز تعمیر کا نمونہ تھی جو جل کر راکھ ہوگئی اور ساتھ ہی ملحقہ بازار اور مکانات بھی جل گئے۔جبکہ میجر مست گل صاحب وہاں سے فرار ہو کر مظفرآباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔آزاد کشمیر میں مست گل صاحب کے جگہ جگہ استقبال اور جلسے ہونے لگے۔ اسی نوعیت کا ایک جلسہ غالباً اگست یا ستمبر 1995ء میں راولاکوٹ میں ہوا۔ جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ دوسری طرف آزاد کشمیر کی طلبہ تنظیم جموں کشمیر این ایس ایف نے وادی کشمیر میں مسلط کیے گئے جہاد اور میجر مست گل جیسے مجاہدین کی پروموشن کے خلاف احتجاج کیا۔ این ایس ایف کا جلسہ کچہری چوک میں ہوا جبکہ میجر مست گل صاحب صابر شہید سٹیڈیم میں ایک بڑے جلسے سے مخاطب ہوتے ہوئے این ایس کے لوگوں کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر انہیں سب و شتم کرتے گرجتے رہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب یہی میجر مست گل صاحب پاکستانی طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے رہے۔
وادی میں برپا کیے جانے والے اسی جہاد کے نتیجہ میں وہ تباہی ہوئی جس کا ذکر کرتے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس جہاد میں نا صرف بھارتی افواج نے بلکہ پاکستان سے جانے والے مجاہدین نے بھی کشمیری خواتین کی عصمت دری کی۔ پاکستان سے اپنی دانست میں جہاد کی خاطر وادی میں لڑنے والے سبھی نوجوانوں کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن ان میں ایسے درندے بھی تھے جنہوں نے 1947ء میں بارہ مولہ اور دیگر علاقوں میں قبائلیوں کے ہاتھوں کی گئی عصمت دری کی تاریخ کو پھر سے دوہرایا۔
اپنی بربادی کی یہ داستان اس وقت پھر سے میرے دل و دماغ کو زخمی کر گئی جب 2 جولائی 2024ء کو میں نے غازی شہزاد صاحب کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فوج میں ملازمت کرتے تھے۔ جہاں سے استعفیٰ دے کر وہ کشمیر کی تحریک آزادی “لڑنے” کے لیے وادی میں داخل ہوئے۔ وہاں کئی سال تک مختلف جیلوں میں قید رہنے کے بعد واپس آئے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی جیل سے کیونکر رہا ہوئے اور صحیح سلامت آزاد کشمیر پہنچ گئے۔ جبکہ حالات یہ ہیں کہ غلطی سے سیز فائر لائن کراس کرجانے والے بچے یا گھاس کاٹنے والے کسی کسان کو واپس لانے کے لیے کتنے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ اور پھر ان جیلوں سے واپسی جہاں حریت کی تمام تر سیاسی قیادت اس حال میں بند ہے کہ ان کے جنازے بھی جیلوں سے اٹھ رہے ہیں۔ شاید وہ جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ جیسے وہ راولاکوٹ جیل سے فرار ہوئے۔ یہ جون 2024ء کے آخری ہفتے کا واقعہ ہے جب آزاد کشمیر کی شہر راولاکوٹ کی سنٹرل جیل سے 20 قیدی فرار ہوگئے۔ جس کی وضاحت میں ایس ایس پی پونچھ نے فرمایا کہ سنتری نے قیدیوں کو لسی دینے کے لیے دروازہ کھولا جس پر وہ فرار ہو گئے۔ فرار ہونے والے ان قیدیوں میں پانچ سزائے موت ، سات عمر قید جبکہ باقی کم و بیش سزاؤں میں جیل کاٹ رہے تھے۔ انہی قیدیوں میں راولاکوٹ کا ایک نوجوان جسے کسی جرم میں پانچ سال کی قید ہوئی تھی کو گولی مار دی گئی۔ وہ بہت دیر تک فٹ پاتھ پر پڑا تڑپتا رہا، اس کے جسم سے خون کے فوارے چلتے رہے جبکہ پولیس اور لوگ اس نوجوان کی موت کا تماشہ دیکھتے رہے۔ اسے اس وقت ہسپتال پہنچایا گیا جب وہ مر چکا تھا یا پہنچنے کی کچھ دیر بعد مر گیا۔
غازی شہزاد صاحب فرار ہونے والے انہی قیدیوں میں شامل تھے۔ اپنے ویڈیو کلپ میں انہوں نے کہا کہ وہ 76 سال تک انتظار کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ” وہ اور ان کے ساتھی کشمیر کی تحریک آزادی خود لڑیں گے”۔ پولیس سے انہیں بہت شکایت تھی اور انہوں نے پولیس کو کھلی دھمکی دی کہ اگر وہ ان کے راستے میں رکاوٹ بنے تو یاد رکھ لے کہ ان کے خاندان، بیوی بچے اسی ملک میں رہتے ہیں۔

ریاست جموں کشمیر جس کے جسد لہورنگ سے ابھی تک خون ٹپک رہا ہے۔ وہاں پر ضرورت اس امر کی ہے کہ پرامن سیاسی جدو جہد کے ذریعے لوگوں کو اپنے حق آزادی حاصل کرنے کی طر ف مائل کیا جائے، نہ کہ ایک مرتبہ پھر انہیں آگ کی بھٹی میں ڈالا جائے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لوک سبھا کے الیکشن میں لوگوں نے روایتی لیڈر شپ پر اس درجہ عدم اعتماد کیا ہے کہ ریاست کے دو سابقہ وزرا اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بہت بڑی لیڈ سے الیکشن ہار چکے ہیں۔ نیشنل کانفرنس اس ہار پر بوکھلا چکی ہے اور کل ہی اس صورتحال پر غو ر کرنے کے لیے اس نے دو روزہ اجلاس کا آغاز کر دیا ہے۔ لہٰذا سیاسی عمل ہی ریاست کے تمام حصوں کی وحدت کو بحال کرنے، خطے میں امن کے قیام اور پاکستان و بھارت کے عوام کو غربت ست نکالنے کا واحد راستہ ہے۔ غازی شہزاد صاحب سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں۔ آزادی کی تحریک لڑنے کی بجائے وہ سیاسی جدو جہد کی طرف آئیں ۔دیگر سبھی راستے تباہی کی طرف جاتے ہیں جہاد کی طرف کسی صورت نہیں جا رہے۔ آپ میجر مست گل کی طرح ایک بلا کی صورت عوام پر نازل نہ ہوں ۔ نبیﷺ کی ہدایات کے مطابق حکمت اور بصیرت سے کام لیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں