کیا دنیا کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے؟-شیخ خالد زاہد

ہم نے ہمیشہ سے دنیا کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر نظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہر انسان ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ ہر انسان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور وہ ان کے مطابق آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ خاندانی مسائل ایک خاندان تک محدود ہوتے ہیں، علاقائی مسائل اس علاقے کے مکینوں سے وابستہ ہوتے ہیں، ملک کے مسائل پھر خطے کے مسائل اور پھر کہیں جا کہ ساری دنیا کے مسائل پر دھیان جاتا ہے۔ اس طرح سے قدرت نے ذمہ داریاں سونپی ہوتی ہیں اور وسائل مہیا  کئے ہوتے ہیں، وسائل سے مطابقت ایک گھمبیر مسئلہ   ہوتا ہے، آیا کہ ان وسائل کو مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا جائے یا پھر ان سے مسائل پر توجہ دی جائے اور متاثرین کو دکھائی دے کہ وسائل صحیح طرح سے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ انسان نے اپنی زندگی کو سہولیات سے ہر ممکن آراستہ کرنے کیلئے آسائشوں کا اپنے گرد جال بُن رکھا ہے۔ ان آسائشوں کی تکمیل کیلئے کن بنیادی عوامل کو استعمال میں لایا گیا ہے یہ اس سے قطع نظر ہے۔ طبقاتی نظاموں میں بٹی ہوئی دنیا نے کسی کو بہت کچھ دے رکھا ہے اور کہیں کچھ بھی نہیں ہے، کسی کی  بات سننے کیلئے کھڑا  ہونا پڑتا ہے اور کسی کی  بات چلتے پھرتے بھی سننا گوارا نہیں ہوتا۔ ہم سب مختلف نظریوں کی پاسبانی کرتے ہیں۔لیکن قدرت نے زندگی گزارنے اور دنیاوی امور کے حوالے سے ایک باضابطہ حتمی لائحہ عمل ترتیب دے رکھا ہے ۔

اب ہو کیا رہا ہے کہ اس لائحہ عمل میں اپنے اپنے انداز فکر سے ترامیم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قدرت اپنی تخلیق کے شاہکار کو کبھی بھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑتی، یہ اور بات ہے حضرت انسان یہ سمجھنے لگ جائے کہ دنیا میں بھرے رنگ اس کے مرہونِ منت ہے تو پھر قدرت کہتی ہے تو پھر ٹھیک ہے ان رنگوں کو سنبھال لو جو کہ ممکن ہی نہیں ہے رنگوں نے تو ماند پڑنا ہی ہے پھر کیوں ان کی رعنائی پر انسان اتراتا پھرتا ہے اور پھر اپنا سا منہ لئے یہ کہتا   ہے یوں ہوگیا یوں ہوگیا جبکہ اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ درحقیقت وہی ہوا ہے جو ہونا تھا۔

دورِ حاضر کا ایک سب سے بڑا مسئلہ عالمی پیمانے پر درجہ حرارت میں ہونے والا بتدریج اضافہ ہے جسے عمومی طور پر گلوبل وارمنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی دنیا کو گلوبل وارمنگ جیسے انتہائی گھمبیر مسئلے نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ درجہ حرارت میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی میں اضافہ ہے جس کے باعث انسان کیلئے زندگی کے معمولات میں دشواری کا سامنا کرنا ہے۔ عالمی ادارہ موسمیا ت جو اقوام متحدہ سے منسلک ایک ادارہ ہے جو دنیا میں رونما ہونے والی موسمی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری نبھ رہا ہے۔ دنیا کے فیصلہ سازوں نے اور محققین نے سر جوڑ لئے کہ کس طرح سے اس گلوبل وارمنگ کا سامنا کیا جائے۔ سب سے پہلے تو حکومتی سطح پر اس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے وزارتِ ماحولیات قائم کر دی گئی تاکہ باقاعدہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہوا جا سکے اور عوامی سطح پر بھی اس کی اہمیت اجاگر ہوسکے۔ سب سے اہم جز جو سامنے آیا وہ ہے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، جس پر ساری دنیا میں زور و شور سے کام جاری ہے، درخت لگانے کی کوششوں کو اور ان کی نمو کیلئے ہر عمل کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس ایک کام کے برعکس جس پر ساری دنیا نے بھرپور توجہ دے رکھی ہے، دوسری طرف ماحول کو تباہ کرنے والے عوامل کی مقدار بہت زیادہ ہے، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے مادے، گھروں کو اور دیگر اشیاؤں کو ٹھنڈا رکھنے والی مشینیں، درختوں کی کٹائی جو ہماری زندگیوں کو سہل بنانے کیلئے ہے (کاغذ اور ٹشو پیپرز کی صنعتیں)، شور و غوغہ یہ وہ کچھ بنیادی ایسے کام ہیں جن میں کمی یا انکے متبادل پر اس تیزی سے کام نہیں کیا جارہا جیسا کہ کرنا چاہیے۔ ابھی حج  2024 میں ہونے والی ہلاکتوں کا باعث بھی انتہائی گرم موسم ہے۔

دنیا کی تباہی میں اس گرم موسم کا بہت بڑا کردار ہے اور موسم کو گرم کرنے میں انسان کی آسائشوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور پھر موسم کے گرم ہونے میں قدرت کے ناراض ہونے کو بھی بالائے طاق نہیں رکھ سکتے، انسان نے جب سے قدرت کے امور میں دخل اندازی شروع کی ہے تب سے ہی قدرت نے اپنے معاملات میں تبدیلی انسانوں کے لئے عذاب کی صورت میں کرنی شروع کردی ہے۔ سمندری طوفان ہوں، بارشیں ہوں، پہاڑوں کا لاوا اگلنا ہو، جنگلوں میں آگ کا لگنا ہو یا پھر بے تحاشہ بارشوں کا ہونا ہو یہ سب قدرت کی طرف سے ایک طرف تو انسان کی غیر ضروری دخل اندازی کی وجہ سے ہے یا پھر انسان کی ایسی تحقیق  کا نتیجہ ہے جس سے قدرت کی مستقل مزاجی میں دخل اندازی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم نے ہمیشہ معجزوں کی راہ دیکھی ہے اور رب کائنات کی لامتناہی قدرت کا اندازہ بھی خوب ہے لیکن قدرت کی ہم نے کس کس طرح سے نافرمانیاں کی ہیں یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔ آسائشوں میں اضافے پر مسلسل کام ہورہا ہے جس کی وجہ سے قدرتی ماحول کسی نا کسی طرح سے متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قدرت کہاں تک ہماری نافرمانیوں اور بے جا اپنے کاموں میں دخل اندازی کو برداشت کرتی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہم نے آسائشوں اور سہل زندگی گزارنے کیلئے راستہ تباہی کا چن رکھا ہے۔۔ ہم تباہی سے بچنے کیلئے تباہی کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا اندازہ تباہ ہوکر ہوجائے گااور وہ دن دور نہیں جب ہم باقاعدہ تباہ ہو رہے ہونگے۔ پلٹنا پڑے گا جو کہ یقینا ًنا ممکن سی بات ہے ورنہ سفر تباہی کی جانب تیزی سے بڑھتا ہی جائے گا۔ خاکم بدہن مگر دکھائی ایسا ہی دیکھائی دے رہا ہے کہ اب بس تباہی ہی ہوگی۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply