نظرِ بد کی نفسیات/ندااسحاق

مجھے میرے اسسٹنٹ نے بتایا کہ میڈم آپ کو کسی نے واٹس ایپ پر میسج کرکے کہا ہے کہ “آپ کو کسی کی نظر لگی ہے اور کسی نے کالا جادو کیا ہے آپ پر”، اور وہ جناب یہ سب ٹھیک کرنے میں ماہر ہیں۔ یہ آرٹیکل اس میسج کا جواب ہے۔
کالے جادو کے بعد آج میں بری نظر کی نفسیات پر بات کروں گی اور نظر کا توڑ بھی بتاؤں گی۔ آپ کو انسانی نفسیات اور دماغ کے ڈیزائن کا علم نہیں ہے کہ یہ کس حد تک حیران کن اور فطرت کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مثال ہے۔

مغرب ہو یا مشرق، بری نظر کا فلسفہ ہر جگہ موجود ہے۔ مغرب میں پڑھا لکھا طبقہ اس سب سے باہر نکل آیا ہے(صرف پڑھا لکھا طبقہ)، لیکن مشرق ابھی تک بری نظر کے شکنجے میں ہے اور یقیناً اسکی وجوہات ہیں۔

بچپن سے ہم نے اپنے والدین کو یہی کہتے سنا کہ اگر ہمارے ساتھ کچھ برا ہوجائے تو اسکا مطلب ہمیں کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ اور یہ بری والا نظریہ ہمارا قومی نظریہ ہے۔ لیکن کیا واقعی میں ہمیں دوسروں کی نظر لگتی ہے یا یہ کھیل ہمارا دماغ ہمارے ساتھ کھیلتا ہے؟؟

مجھے آج بھی یاد ہے وہ دور جب میری صحت اچانک سے بہت بری طرح متاثر ہوئی تھی (مجھے لگا تھا کہ اچانک ہے، لیکن اچانک سے صحت کبھی خراب نہیں ہوتی) اور مجھے اکثر رشتہ داروں اور اپنی والدہ سے یہ سننے کو ملا کہ “تم فلاں شادی میں بہت اچھی لگ رہی تھیں اور تم خوش ہو اس لیے تمہیں نظر لگ گئی ہے”، اگر آج ان تصاویر کو دیکھوں تو ان میں ایک چھیاسی کلو کی بھینس لگ رہی تھی اور بھینسوں کو نظر نہیں لگتی (نظر تو ویسے بھی نہیں لگتی)۔

بہت عرصہ جب اپنی زندگی میں برے واقعات، نقصانات، مسائل وغیرہ پر غور کیا، یا جب بھی مجھے پریشانیوں سے گزرنا پڑا ان سب کا گہرا مشاہدہ کیا، انسانی رویوں کی سائنس اور نیوروسائنس پڑھی تو ایک بات توسمجھ میں آگئی کہ تقریباً ہر مسئلہ کے تہہ میں جو چیز ذمہ دار تھی میری پریشانیوں یا میرے ساتھ ہونے والے برے واقعات کے لیے وہ تھے……. “میرے اعمال”…… جی ہاں! میرے “عمل”۔

میرا برا طرزِزندگی، غیر صحت مند اور بے جا کھانا، میرا اپنے جذبات کو نہ سمجھ پانا، اسٹریس، حقیقت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی ہی کہانیاں گھڑنا، میری منفی سوچ، خود-آگاہی نہ ہونا، اور خاص کر “اپنی غلطیوں یا حرکتوں کی ذمہ داری نہ لینا”…… جی ہاں! “نظر کا کھیل یہی ہے کہ اپنی غلطیوں یا حرکتوں کی ذمہ داری کو قبول نہ کرتے ہوئے اسکا الزام دوسروں کے سر ڈالنا کہ میری زندگی میں مسائل اس وجہ سے ہیں کیونکہ میں بہت خاص ہوں اور مجھ سے دوسرے جلتے ہیں، یا پھر مجھے دوسروں کی بری نظر لگتی ہے”۔

آپ کے دماغ کی خاصیت اور نقصان دونوں ہی کہہ لیں اسے، کہ جب انسان کو شعور نہیں ہوتا اور وہ اپنی غلطیوں کو دیکھ نہیں پارہا ہوتا اور اسکی زندگی میں درد بڑھ رہا ہوتا ہے تو دماغ اس درد کو کم کرنے کے لیے اس قسم کے نظریات بناتا ہے کہ بری نظر لگ گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پرانے زمانے والے لوگوں کو چونکہ زیادہ علم نہ تھا دماغ کی سائنس کا تبھی انہوں نے اس قسم کے نظریات بنائے ان کے ساتھ ہونے والے واقعات کو نام یا مطلب دینے کے لیے(کگنیٹو سائنس میں پرسیپشن کے قوانین بتاتے ہیں کہ ہمارا دماغ چیزوں کو مطلب دینے اور مکمل کرنے کے لیے ان کے متعلق پرسیپشن بناتا ہے)۔ کیونکہ دماغ ایسا ہی ہے کہ جب اسے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط کیوں ہورہا ہے تو پھر وہ توہم پرستی کا سہارا لیتا ہے۔ جہاں “شعور” نہیں وہاں پھر دماغ کو “توہم پرستی” کا آسرا رہتا ہے۔ مغرب کو شعور آیا تبھی توہم پرستی کم ہوئی، مشرق آج بھی شعور کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔

اپنی غلطیوں اور حرکتوں کی ذمہ داری لیتے ہوئے اپنی حرکتیں درست کرنا ایک بہت ہی مشکل اور تکلیف دہ کام ہے، اور اگر تو آپ ایک جذباتی طور پر کمزور انسان ہیں، یا آپ کے گھر میں والدین شعور یافتہ نہیں، توہم پرست ہیں، یا پھر آپ ٹروما سے گزرے ہیں تو آپ کا دماغ آپ کو ذمہ داری کی تکلیف اٹھانے سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔ کاش میرے پاس الفاظ ہوتے اس حد کو بیان کرنے کے لیے، تبھی میں نے کہا کہ دماغ کا یہ عمل اچھا بھی ہے اور برا بھی، کیونکہ ہمارا دماغ ہمیں تکلیف سے بچانا چاہتا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ ہم ذمہ داری قبول کرنے جیسی کٹھن صورتِ حال سے گزریں، لیکن اسکا ہماری یوں حفاظت کرنا ہماری زندگی کو اور بھی مشکل بناتا ہے نہ کہ آسان۔

قرآنِ پاک میں اگر ایسی کوئی آیت ہے کہ “تم سے تمہاری ‘بری نظر’ کا حساب لیا جائے گا”، تو پلیز تصدیق کرکے میرے علم میں اضافہ کیجیے۔ کیونکہ میں نے تو یہی سنا اور سمجھا ہے کہ اللہ پاک ہم سے “اعمال” کا حساب لیں گے روزِ قیامت!

کیونکہ آپ کی زندگی جھنڈ آپ کے اعمال کی وجہ سے ہے(کبھی کبھار آپ کے ارد گرد والوں کے اعمال کی وجہ سے بھی، جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں وہاں کے حکمرانوں کے اعمال کے وجہ سے بھی)، کسی کی بری نظر لگنے کی وجہ سے نہیں۔ جب میں نے اپنا وزن کم کیا، جذبات کو سمجھا، اپنا کھانا پینا درست کیا، اپنی سوچ پر غور کیا، دوسروں کی اور خود کی زندگی عذاب کرنا بند کردی اور اپنی حرکتوں کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کی تو بہت حد تک مجھ پر سے “بری نظر کا سایہ” ختم ہوتا گیا۔ آج بھی جب میرے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو اسکا غیر جانبدارانہ مظاہرہ کرنے کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچتی ہوں کہ کہیں نہ کہیں کچھ چیزیں ابھی بھی درست نہیں ہورہی مجھ سے اور اسکی وجہ سے مجھے مسائل کا سامنا ہوتا رہتا ہے!

یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا دوستوں، بہت تکلیف ہوتی ہے “ذمہ داری” کو قبول کرنے میں۔ اور اس میں ہمارا دماغ بھی زیادہ تر ہمارا ساتھ نہیں دیتا کیونکہ دوسروں پر الزام لگانا آسان ہے اور اس سے وقتی طور پر ہماری اذیت اور تکلیف کم ہوجاتی ہے لیکن ہمارے مسائل کم نہیں ہوتے اور وقت کے ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ لڑکا لڑکی شادی کے وقت اتنا خوش تھے لیکن پھر دونوں میں جھگڑے ہونے لگے انکے رشتے کو نظر لگ گئی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شادی کا ہنی مون والا دورانیہ ختم ہوگیا اور اب دونوں کو شادی کی بوریت اور ذمہ داری اٹھانی پڑ رہی ہے تبھی یہ جھگڑے ہورہے ہیں، یا پھر دونوں کے جذباتی مسائل ہیں، ساس کے ساتھ مسائل، گھریلو مسائل، مالی مسائل… ہر انسان کے مسائل منفرد ہوتے ہیں، جب تک ان پر غور نہیں ہوگا، نظر لگتی رہے گی۔

کسی کو بزنس میں نقصان ہوجائے تو کہتے ہیں کامیاب ہونے کے بعد رشتے داروں کی نظر لگ گئی، جب کہ بہت ممکن ہے کہ آپ کے خرچے بڑھ گئے کیونکہ عیاشیاں بڑھ گئیں، یا آپ کے غلط فیصلے، کچھ بھی مسائل ہوسکتے ہیں جنہیں نظر کے کارپیٹ کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔
نظر کا توڑ کیا ہے؟؟

نظر کا توڑ “شعور” اور اپنی حرکتوں/غلطیوں پر غور کرکے “ذمہ داری” قبول کرنا ہے!

julia rana solicitors

شعور جب آتا ہے تو وہ دماغ سے ہماری ذہنی اذیت کم کرنے والی خصوصیت سے کہتا ہے کہ “دوست تمہارا شکریہ مجھے ذمہ داری قبول کرنے کے درد سے بچانے کے لیے لیکن اب شاید وقت آچکا ہے کہ ہم اس درد سے گزریں اور اپنی غلطیوں کی گہرائی میں جا کر، انکی سائنس سمجھ کر دوبارہ انجام نہ دیں اور اپنی حرکتوں کی ذمہ داری قبول کریں۔”
آپ کو شیطان روکے گا “شعور” کو آپ کے مسائل حل کرنے سے لیکن آپ نے شیطان کی نہیں سننی۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply