لیبر پارٹی نے گزشتہ 14 سال سے اپوزیشن میں رہنے کے بعد چار جولائی 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ ہاؤس آف کامنز کی 650 سیٹوں میں سے 412 سیٹیں یعنی 65 فیصد سیٹیں لیبر پارٹی نے اٹھا لیں اور کنزرویٹو پارٹی جو 14 سال سے مسلسل حکومت میں تھی ، کو بدترین شکست حاصل ہوئی۔
کنزرویٹو پارٹی کی اس بدترین ناکامی کی وجہ عوام کا ان کی پارٹی اور حکومت سے اعتماد اٹھ جانا تھا۔ دائیں بازو کی اس جماعت نے گزشتہ کئی برس میں اپنے دور حکومت میں کئی ایسی پالیسیاں بنائیں جو عوام کے مفاد کے منافی تھیں، اور یکے بعد دیگرے بہت سی غلطیاں کیں۔ نئے وزیراعظم سر کیئر سٹارمر نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی کابینہ کے 22 ارکان کا اعلان کر دیا ۔ کابینہ کی ان 22 کلیدی پوزیشنوں میں 11 خواتین ممبر آف پارلیمنٹ شامل ہیں۔ یعنی خواتین کو برابری کے اصول پر حکومت میں وزارتیں دی گئی ہیں جو برطانیہ میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک نہایت خوش آئند عمل ہے۔ ڈپٹی پرائم منسٹر بھی خاتون ایم پی اینجلا رینر ہیں جو ہاؤسنگ ، کمیونٹیز اور لیولنگ اپ سیکرٹری متعین کی گئی ہیں۔ ایم پی ریچل ریوز برطانیہ کی پہلی خاتون چانسلر آف دی ایکس چیکر کے اہم ترین عہدے پر تعینات ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے برطانیہ کی تاریخ میں ہمیشہ چانسلر کا عہدہ مرد ایم پی کو ہی دیا جاتا رہا ہے۔ ہوم سیکرٹری ایم پی ایویٹ کوپر کو بنایا گیا ہے جو لیبر پارٹی میں اعلیٰ رتبے کی حیثیت کی حامل ہیں ۔ کابینہ کی ان 11 خواتین وزراء میں ایشین کمیونٹی سے برمنگم کی ایم پی شبانہ محمود کو لارڈ چانسلر اور سیکرٹری فار جسٹس بنایا گیا ہے کیونکہ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک بیرسٹر رہ چکی ہیں۔ شبانہ محمود سابقہ ٹوری وزیراعظم لز ٹرس کے بعد دوسری خاتون ہیں جو لارڈ چانسلر کے عہدے پر مقرر ہوئی ہیں۔ یہ ایشین کمیونٹی کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ مانچسٹر سے ایم پی لوسی پاول کو بھی وزارت دی گئی ہے۔ مانچسٹر رشوم سے منتخب شدہ ایم پی افضل خان جو اب دوسری بار الیکشن میں جیتے ہیں ماضی میں مختلف پوزیشنوں پر شیڈو منسٹر رہے ہیں ۔ لیبر پارٹی کی فلسطین اور اسرائیل جنگ میں ، اسرائیل حمایت کی پالیسی کی وجہ سے افضل خان کو مسلمان کمیونٹی کی طرف سے شدید رد عمل کا سامنا ہوا لہذا انہوں نے شیڈو منسٹری سے استعفٰی دے دیا تھا ۔ اور اس کے بعد سے وہ پارلیمنٹ میں مسلسل جنگ بندی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں ۔ یہ ایک عقلمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ اگر افضل خان ایسا نہ کرتے تو ان کے مسلم ووٹ بینک میں کمی آ جاتی اور شاید وہ اپنی سیٹ بچا نہ پاتے۔ وہ ایک مقبول شخصیت کے ایم پی ہیں انہوں نے ووٹرز کھونے سے پہلے ہی اپنی پوزیشن سیکور کر لی اور شاندار کامیابی حاصل کی ۔ ایم پی اینڈریو گوون مانچسٹر کے ایک حلقے گورٹن اینڈ ڈینٹن سے بھرپور اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئے ہیں اس سے قبل وہ ایشٹن انڈر لائن کے ایم پی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی شیڈو منسٹری پوزیشن سے کوئے استعفٰی نہیں دیا تھا اور وہ لیبر پارٹی کے فرنٹ بینچ پر تھے مگر ان کو بھی کابینہ میں کوئی وزارت نہیں دی گئی۔ کابینہ میں شمولیت کے لیے میرٹ کا معیار پارٹی لیڈر یا نئے وزیراعظم کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قریبی ساتھیوں یا اپنے سپورٹرز ممبرز آف پارلیمنٹ کو منتخب کرتا ہے۔ کابینہ میں جہاں مرد اور خواتین کا برابر تناسب دکھائی دیا یعنی 22 وزراء میں 11 مرد اور 11 خواتین ہیں وہاں پر ڈائیورسٹی یا تنوع کی کمی نظر آئی مختلف سماجی اور نسلی پس منظر کے ممبران کی شدید کمی دکھائی دی ہے ۔
بہرحال لیبر پارٹی کو حکومت سنبھالتے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ جن میں اولین ترجیح ملک کا معاشی استحکام ہے ۔ مہنگائی ، ٹیکس اور مارگیج میں حتی الامکان کمی کی ضرورت ہے۔ پبلک سروس جو ٹوریز کے دور میں بکھر چکی تھی، اس کو بہتر بناتے ہوئے ورکنگ کلاس لوگوں کے لیے کام کرنا ہے جو اس ملک کو چلاتے ہیں۔ برطانیہ کی تعمیر نو کرنا ہے توانائی سے متعلق بحران کا خاتمہ اور نیشنل ہیلتھ سروس کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ سڑکوں اور گلی محلوں میں ہونے والے جرائم کا خاتمہ کر کے شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔ بارڈر سکیورٹی کو محفوظ بنانا ہے اس کے لیے حکومت سینکڑوں نئے اسپیشلسٹ سٹاف اور تفتیشی افسران کی بھرتیاں کرے گی تاکہ بارڈرز پر ہونے والے جرائم اور گینگز کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جرائم میں کمی کے لیے اور غیر سماجی رویے کے خاتمے کے لیے پولیس سٹاف میں اضافہ کیا جائے گا۔ غیر قانونی امیگریشن کے بحران کو ختم کرنا ہے۔ سابق وزیراعظم رشی سناک کے روانڈا پلان جس پر اب تک 310 ملین پاؤنڈ لاگت آ چکی ہے جس کے خلاف بہت سی قانونی کاروائیوں کی وجہ سے ابھی تک روانڈا کیلئے کوئی جہاز پرواز نہیں کر سکا ، اس پلان کو کس طرح ختم کرنا ہے کیونکہ لیبر پارٹی ہمیشہ سے روانڈا پالیسی کے خلاف تھی۔ وزیراعظم سر کیئر سٹارمر نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ان کی ترجیح پہلے ملک ہے بعد میں پارٹی ۔ اور تبدیلی کی شروعات ہو چکی ہے مگر ایسا نہیں کہ تبدیلی ایک سوئچ دبانے سے راتوں رات ا جائے گی اور سب کچھ بہتر ہو جائے گا اس کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔ دیکھتے ہیں کہ لیبر پارٹی کتنے کم وقت میں اصلاحات کرتی ہے کہ عوام بہت بےچین ہے۔ دوسری بات یہ کہ لیبر پارٹی نے کچھ عرصہ قبل فلسطین اور اسرائیل جنگ کے حوالے سے اپنے پالیسی بدل کر فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا تھا ، دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت فلسطین میں جنگ بندی کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور کیا برطانیہ کی طرف سے فلسطین کی جنگ کی فنڈنگ اسلحہ اور رقوم کے ذریعے جاری رہے گی یا بند کر دی جائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں