والدین کی پہلی اولاد ہونے کے جہاں فائدے بہت ہیں وہیں ہمارے نزدیک ایک نقصان بھی ہے اگرچہ کچھ لوگ اسے بھی فائدہ ہی سمجھتے ہیں مگر ہمیں وہ نقصان یا خرابی ہی لگتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ماں باپ کا پہلا بچہ پورے خاندان کی توجہ کا مرکز آنکھوں کا تارا ہاتھوں کا چھالا راج دلارا اور جانے کیا کیا ہوتا ہے اس کی پرورش بڑے ناز نخروں میں ہوتی ہے بعد میں آنے والے بہن بھائیوں پر بھی اس کی فوقیت قائم رہتی ہے ماں باپ کے بعد وہ گھر کا غیر اعلانیہ حاکم ہوتا ہے چھوٹے بہن بھائی اس کی رعایا ہوتے ہیں بڑے ہونے تک یہ احساس حاکمیت اس کی گھٹی میں رچ بس چکا ہوتا ہے کچھ لوگ اپنی اس ننھی منی سلطنت میں اپنی رعایا پر بہت مہربان ہوتے ہیں اور کچھ بہت سخت گیری سے کام لیتے ہیں مگر دونوں ہی اپنی حکم عدولی برداشت نہیں کرتے
ہمارا رتبہ بھی اپنے گھر میں پہلی اولاد کا تھا گویا والدین کے بعد اپنے بہن بھائیوں پر ہمارا راج چلتا تھا ہمارا شمار ایسے حاکموں میں تھا جو اپنی رعایا کے مسائل حل کرتے اور اس کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں اس کے افراد کو راہ راست پر رکھنے کے لئے اپنا رعب و دبدبہ استعمال کرتے ہیں اور کوئی ہماری بات نہ مانے یہ برداشت نہیں تھا ہمیں
اسی احساس حاکمیت کے ساتھ ہمارے سلطنت بدر ہونے کا وقت آگیا جس شخص کو ہماری ہجرت کا ساتھی منتخب کیا گیا قسمت کی خوبی ملاحظہ ہو کہ وہ بھی ہماری طرح والدین کی پہلی اولاد تھا اور اس میں بھی وہ سب خصوصیات بدرجۂ اُتم موجود تھیں جو ہماری فطرت ثانیہ بن چکی تھیں بلکہ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کا ستارہ بھی اسد یعنی شیر گویا اپنی بات نہ ماننے والے پر دھاڑ نا اضافی خوبی تھی ہم سنبلہ ہونے کی وجہ سے نرم مزاج تو ہیں لیکن باقی مزاج وہی حاکمانہ ! اندازہ ہی نہیں تھا کہ دو تیز دھار تلواریں ایک ہی نیام میں کیونکر سمائیں گی
شادی ہوگئی پہلے دو ہفتوں میں ہی اندازہ ہوگیا کہ اگرچہ دونوں اعلی تعلیم یافتہ مہذب اور شائستہ لوگ ہیں مگر ایک دوسرے پر حاکمیت برداشت کرنے والی فطرت پائی ہی نہیں گھر میں دھاڑتے پھرتے اس شیر کو اپنی فطری نرم خوئی کی بنا پر کچھ عرصہ تو برداشت کیا لیکن مستقل دب کر رہنا ناممکن تھا جوائنٹ فیملی میں دھاڑ کا جواب گرج سے دینا بھی مشکل تھا تب سوچ سوچ کر اس کا ایک حل سمجھ میں آیا ایک روز گھر سے باہر کسی جگہ بیٹھ کر عرض کیا کہ دیکھیں یہ جیون بھر کا ساتھ ہے روایتی شوہروں کی طرح ہر وقت بیوی کو دبانے اس پر رعب جھاڑنے اور خواہ مخواہ شوہریت جتانے سے کچھ نہیں ہونے والا اس سے دو نتائج نکل سکتے ہیں گھر ٹوٹ سکتا ہے یا بیوی مستقل دباؤ میں رہ کر ذہنی مریضہ بن سکتی ہے تو بہتر یہ ہے کہ میاں بیوی تو ہیں ہی اور رہیں گے کیوں نہ ہر وقت دو متحارب سپہ سالاروں کی طرح شمشیر بکف رہنے کی بجائے آپس میں دوستی کر لیں ایک دوسرے کے ہر طرح سے ہمراز و غم گسار ایک دوسرے کے ہر معاملے میں مشیر معاون و مددگار اور صحیح معنوں میں ساتھی کیوں نہ بن جائیں خاندان اور باہر کوئی بھی مسئلہ ہو ایک دوسرے سے مشاورت اور تعاون سے اسے حل کریں بیوی کا شوہر سے اور شوہر کا بیوی سے بڑھ کر کوئی ہمدرد اور دوست نہیں ہوسکتا کیونکہ زندگی کے سرد و گرم دونوں نے مل کر ہی جھیلنے ہوتے ہیں
اس دن جو ہم میثاق دوستی کرکے اٹھے تو ساری زندگی اس پر قائم رہے شوہر کی حاکمیت کی عادت دفتر تک رہی اور ہم نے اپنی اس عادت کو گھر کے ڈسپلن میں استعمال کیا ہم میاں بیوی اپنے بچوں کے والدین اور ایک دوسرے کے سچے دوست ہیں اس حیثیت سے لڑتے جھگڑتے بھی ہیں روٹھتے مناتے بھی ہیں مگر دوستوں کی طرح ! اس رشتے نے ہمارے میاں بیوی والے رشتے میں تلخیاں نہیں آنے دیں ایک دوسرے کے رشتہ داروں سے فراخ دلی سے ملتے ہیں ہمیں دکھ بھی جھیلنے پڑے تو ایک دوسرے کے سہارے نے ہمارے حوصلے ٹوٹنے نہیں دئیے میں گھنٹوں ان کی آفیشل مصروفیات کے قصے سنتی اور مشورے دیتی ہوں ایک دوسرے سے ذرا سی بات بھی چھپا کر نہیں رکھتے ہم ایک دوسرے کے فیس بک فرینڈ بھی ہیں
اس میاں بیوی اور دوستی کے رشتے کی پچاسویں سالگرہ منائی ہے ہم نے اس سال سات اپریل کو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں