سفرِ حج(3)-عاصم اظہر

کوئی پوچھتا ہے کہ حج کا کتنا خرچہ ہوا تو میں کہتا ہوں کہ سرکاری چَٹی تو گیارہ لاکھ پینتیس ہزار ہے اور سماجی چٹی آپکے رسم و رواج کیمطابق اور زاد راہ حسب ضرورت۔
مخے یہ سماجی چٹی کیا ہے؟
بھئی واپسی پر کیا کیا تحائف لانے ہیں بہن بھائیوں کے لئے کیا ہوگا ،بھابیوں بہنوئیوں کے لئے کیا لینا ہے پھر ماں باپ بچے بھانجے بھتیجے یار دوست وغیرہ ہیں۔
اس کے علاوہ جانے سے پہلے دعوت عام کرنی (جو کہ ہر گز مسنون نہیں ہے)۔پھر آنے کے بعد مبارک باد والوں کا چائے پانی اور رشتہ داروں کا قیام طعام وغیرہ
تو بھائی جانے سے پہلے کھجور اور زم زم کے علاوہ تقریباً ہر چیز یہیں سے لینی ہوتی ہے کیوں کہ سعودی عرب میں تو کچھ بنتا نہیں ،کپڑا وغیرہ تو یہاں سے ہی جاتا ہے اور تسبیح مصلے چائنہ سے ۔ تو وہاں سے مہنگا کیوں لیں اور وزن کیوں اٹھائیں۔ سو ہم نے بھی شاپنگ کرلی۔

جب دو دن رہ گئے یعنی سات تاریخ کو ڈاکیومنٹس لینے پھر حاجی کیمپ ملتان پہنچے۔ حاجی کیمپ قلعہ کہنہ قاسم باغ میں قائم کیا گیا تھا یہ ایک بڑی مارکی تھی جس میں ائیر کنڈیشنر چل رہے تھے اور بے شمار کاؤنٹرز قائم تھے جن میں ان تمام بینکوں کے کاؤنٹر بھی تھے جنہوں نے حج درخواستیں جمع کی تھیں۔ اسکے علاؤہ چائے پانی شربت کی سبیل بھی تھی۔ تمام عملہ نہایت خوش اخلاق اور تعاون کرنے والا تھا۔ حاجیوں کی بہت تکریم کی جا رہی تھی۔ ہم کاغذ وصول کرکے اپنے بینک کے کاؤنٹر پہ گئے اور وہاں سے بیگز وصول کئے اور ریال کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے لیں گے تو مہنگے ملیں گے بہتر ہے آپ اوپن مارکیٹ سے پرچیز کرلیں اور ہمیں مارکیٹ کا بتایا، مزید دو چار نامور منی چینجرز کا بھی بتایا۔
خیر جب منی چینج مارکیٹ گئے جو کہ مال پلازہ ملتان کینٹ میں واقع ہے تو ہمیں پراچہ والوں کے دام مناسب لگے جب میں نے کاونٹر پہ بیٹھے لڑکے کو آئی ڈی کارڈ دیا تو اس نے ایک نظر شناختی کارڈ پر ڈالی اور دوسری مجھ پر اور کہنے لگا کہ آپ فیس بک والے عاصم اظہر ہیں؟
میں نے کہا میاں ساری دنیا ہی فیس بک پہ ہے ۔
بولا نہیں “وووہ” والے
میں نے کہا ہاں وووہ والا میں ہی ہوں۔
اٹھ کر بغلگیر ہوا اور بولا کہ میں بھی آپ کے مریدوں میں سے ہوں آپ نے پہچانا نہیں ۔
میں بولا منہ پرے کرو تو پہچان لوں گا۔۔

خوب قہقہہ مار کے ہنسا اور چائے پانی کھانا کھانے کی پُر زور فرمائش کی، میں نے وقت کی کمی کا عذر کر کے شکریہ ادا کیا۔ اس نے بغیر کہے طے شدہ قیمت پر دس پیسے مزید چھوڑ دیئے اور دروازے تک رخصت کرنے آیا ۔اللہ اسے اجر دے۔
لیکن یہ دیکھ کر بیگم صاحبہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور کہنے لگی ایڈے تسی وسیم اکرم
میں نے کہا تم نے ہی گھر کی مرغی سمجھا ہوا ہے۔

حج کی تیاری کے لئے چار ماہ واک کی اور پانچ ماہ میڈیسن لی ،ٹرائی گلائسرائڈ تین سو سے ایک سو تیس تک لے کر آیا اور HBA1c ساڑھے نو سے سات اعشاریہ دو تک لے آیا ۔
لاسٹ ڈے پر سوچا تھا کہ ملتان روانگی سے پیشتر دو تین گھنٹے سو کر تازہ دم ہو جاؤں گا مگر سسر صاحب کی ناگہانی وفات کے باعث ایسا نہ ہوسکا اور دس بجے ملتان ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے ۔اس سے پہلے سب دوست احباب نے الوداع کیا ۔ ملتان میں کئی دوست راستے میں ملے اور کچھ ایئرپورٹ پر جن میں شہزاد اقبال، عبد الرحمن اور عمار وغیرہ تھے۔ جو کہ بھرپور تکلفات کے ساتھ آئے اور کھانے پینے کا بہت سا سامان بھی ساتھ لائے اور دعاؤں کی درخواست کی ۔ اللہ انہیں اجر دے۔
اسکے بعد بورڈنگ کی ذلالتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ایک لائن پھر دوسری لائن پھر تیسری ۔ ۔۔
اک اور لائن کا سامنا تھا مجھے
بیگز ریپنگ کی لائن میں ایک خاتون دھکے سے میرے آگے یہ کہتی ہوئی آ کھڑی ہوئی کہ “عورتاں دے وی حبوْب (حقوق) نیں”
میں فوراً یہ کہتا ہوا پیچھے سرک لیا کہ آہو جی ہوندے ای تہاڈے نیں۔ ( ہوتے ہی آپ کے ہیں)
سب سے بُرا یہ ہوا کہ جب آخر میں ہم سے لائٹر لے لئے گئے۔
ابھی پرواز میں ڈھائی گھنٹے پڑے تھے اور نکوٹین کی اشد طلب ہورہی تھی۔
پھر ہوا یہ کہ واش روم کا ایک سوئپر آتے جاتے بڑا جھک جھک کر سلام کر رہا تھا خیر میں سمجھ تو گیا اور میں نے اسکے ہاتھ پہ تین سو روپے رکھے اور کہا میں نے سگریٹ پینی ہے اس نے جھٹ سے اپنی جیب سے ایک لائٹر نکالا اور مجھے ایک کچرا کنڈی میں دھکیل دیا۔
آ ہا ہا کیا گلوریا جینز میں کافی پینے  کا  سرور آتا ہوگا جو مجھے اسوقت کچرا کنڈی میں سگریٹ پینے کا آیا خیر دو سگریٹ اس وقت کھینچے اور دو بعد میں۔
پھر پرواز کا اعلان ہوا اور ہم ائیر بلیو میں داخل ہوگئے اور جہاز میں بیٹھ کر میں نے دل ہی دل میں ایک بار پھر شاہد خاقان عباسی کو جی بھر کے گالیاں بکیں

بس اینویں سا جہاز تھا بہت ہی تنگ راستہ ،سیٹوں کے درمیان بہت کم جگہ گوڈے ہی پھنسے رہے ،سیٹیں بھی غیر آرام دہ کم فوم والی ، اس سے تو ہماری بسیں کہیں زیادہ لگژری ہوتی ہیں ۔ مانا کہ پہلے بھی کبھی بزنس کلاس میں سفر نہیں کیا مگر یہ   زیادہ ہی  گھٹیا تھا۔
بہرحال ہوسٹسز قدرے بہتر تھیں مگر حج سے زیادہ بیگم کی وجہ سے ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا تھا وہ کہتے ہیں ناں کہ ‘رب نیڑے کہ گْھسن’
البتہ جب ایک ہوسٹس نے ایمرجنسی کی صورتحال سے نبٹنے کا طریقہ بتانا شروع کیا اور دوسری نے اشاروں سے ڈیمو دینا شروع کیا تو خوب توجہ سے دیکھا۔ حالانکہ ایمرجنسی میں ہم نے تو کیا خاک کرنا تھا ان بیچاریوں سے خود اس پہ عمل نہیں ہو پانا تھا۔

پانچ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد سعودی وقت کے مطابق سات بجے مدینہ ائیرپورٹ اترے۔ کوئی رش نہیں تھا آرام سے ایگزٹ ہوگیا کوئی تلاشی نہیں ہوئی بلکہ افسوس ہوا کہ سگریٹ سپاری کیوں کم لائے۔
باہر ہمیں ایک ہینڈ بیگ میں ایک ٹن پیک ، چاکلیٹس اور کھجوریں دی گئیں اور بسوں میں لاد کر ہوٹل لے آئے ۔
جہاں دف کی تھاپ پر منسٹری کی طرف سے ہمارا پرجوش استقبال کیا گیا ویلکم ڈرنکس اور چھوٹے چھوٹے تحائف دئیے گئے چونک ہماری پہلی فلائٹ تھی یہ اس وجہ سے تھا کیونکہ ٹی وی پہ بھی یہی استقبال دکھایا گیا اگر اپ لوڈ ہو سکا تو کمنٹ میں کر دوں گا۔

اسکے بعد ریسیپشن پہ رش لگ گیا کیونکہ یہاں روم الاٹ کروانے تھے پہلے سے نہیں تھے۔
میں رش کم ہونے کے انتظار میں باہر آگیا جہاں ایک اور حاجی صاحب (جن کا نام بعد میں معلوم ہوا کہ عامر قریشی ہے اور وہ میرے روم میٹ بھی بنے) سگریٹ جلانے کے لئے وہاں کھڑے لڑکوں سے لائٹر مانگ رہے تھے ۔ میں بھی جھٹ سے ان کے پاس چلا گیا اور سگریٹ سلگا لیا۔لڑکے عربی بول رہے تھے مگر قومیت کا کنفرم نہیں ہے وہیں کہیں سِمیں بیچتے تھے۔
قریشی صاحب نے لڑکوں سے کہا کہ وہ لائٹر انہیں دے دیں یا فروخت کردیں۔ تو لڑکے نے دس ریال مانگ لئے۔ میں ابھی جمع تفریق ہی کر رہا تھا کہ قریشی صاحب نے دس ریال دے کر لائٹر لے لیا۔

قریشی صاحب لائٹر لے کر اندر گئے تو میری نظر ہوٹل کے نیچے بنی ہوئی دوکان پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا کہ ہر چیز تین ریال۔ میں نے خوشی خوشی تین ریال میں ویسا ہی نیا لائٹر لے لیا اور ہوٹل کے اندر چلا گیا جہاں قریشی صاحب اپنی بیگم کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں نے کہا قریشی صاحب یہ دیکھیں یہی لائٹر یہاں سے تین   ریال کا ملا ہے۔ پاس کھڑا ایک حج معاون ہنس کے بولا حاجی صاحب آگے بازار چلے جاتے تو یہی ایک ریال کا مل جانا تھا۔
میں نے نگاہیں اوپر کیں اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا شکر اے، اسیں کلِ٘ے نہی خراب

پھر ریسیپشن پہ جا کر معلوم ہوا کہ تین، چار اور پانچ کی شیئرنگ میں روم ملیں گے پھر قریشی صاحب اور میں نے موجود لوگوں پر ایک نگاہ دوڑائی اور ان میں سے دو لوگ منتخب کئے پھر ان کی بیگمات کا جائزہ لیا (وہ پردے میں تھیں جائزہ لینے کا مقصد اپنی فیملیز کے ہم مزاج لوگوں کی تلاش تھی) اور انہیں اپنے ساتھ ٹھہرنے کی آفر کی ،

جو انہوں نے شکرئیے کے ساتھ قبول کر لی۔ یوں ہمیں چار چار کی شیئرنگ میں تیسرے فلور پہ آمنے سامنے کے دو روم الاٹ کر دیئے گئے ایک برائے حضرات اور دوسرا برائے خواتین ۔
پھر ہم رومز میں چلے گئے جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ یہ ایک تھری اسٹار ہوٹل ہے العنصر گولڈن ٹیولپ کے نام سے جو مووو اینڈ پک کے بالکل سامنے اور مسجد نبوی کے نہایت قریب ہے بس ایک روڈ کراس کرنا ہوتی ہے۔
بہت لگژری ہوٹل ہے عام دنوں میں بھی اس کا رینٹ بیس پچیس ہزار ہے اور آج کل ستر ہزار روپے۔ کمرے بہت آرام دہ تھے مگر تین کی شیئرنگ تک ٹھیک تھا چوتھے سے کچھ تنگی محسوس ہو رہی تھی لیکن خیر بستر پہ گرتے ہی ساری کلفت دور ہوگئی کمرہ فل چِل تھا۔

میرے روم میٹس میں ملتان سے عامر قریشی روڈ کنسٹریکٹر ، شیخ رضوان جنکا خانیوال میں سندس کلاتھ کے نام سے کپڑے کا بہت بڑا کاروبار ہے اور ملتان سے ہی اعظم علوی جو کہ عراق میں آئل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ قریشی صاحب میرے ہم عمر ہیں اور باقی دونوں نوجوان ہیں سب لوگ آدھے گھنٹے میں ہی گھل مل گئے اسی طرح خواتین آپس میں۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ انتخاب درست رہا۔

میں تو تھکن کے مارے بستر میں دبک گیا باقی ظہر کے لئے حرم کا پروگرام بنانے لگے میں نے کہا کہ آپ جاؤ میں تو کل مدینے پہنچوں گا۔
لیکن عصر کے وقت میں سو کر اٹھا تو فریش ہو چکا تھا اور پتا چلا کہ ہماری خواتین تو ظہر سے ہی مسجد میں ہیں۔
میں نے کہا لو جی چور نالوں پَنڈ کاہلی ( گٹھڑی چور سے بھی آگے )یعنی ہماری اٹینڈینٹ (زوجہ ماجدہ) ہم سے بھی پہلے مسجد پہنچی ہوئی تھیں۔

قریشی صاحب کچھ زیادہ ہی زوجہ پرست واقع ہوئے ہیں فوراً پریشان ہوگئے کہ پتا نہیں بیگمات کہاں چلی گئیں کیسے واپس آئیں گی کوئی رابطہ نہیں ہو رہا کیونکہ اس وقت تک ہمیں نہیں پتا تھا کہ مسجد اتنی قریب ہے بولے آؤ انہیں ڈھونڈنے چلتے ہیں میں نے جمائی لیتے ہوئے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں وہ مدینہ میں ہیں کونسا کچے کے علاقے گئی ہیں سْوسریاں جیسے گئی ہیں ویسے ہی واپس آ جائیں گی اور تھوڑی دیر کے بعد ساری اٹھلاتی ہوئی واپس آ گئیں اور قریشی صاحب کی جان میں جان آئی ۔

تین وقت کھانا سرکار کی جانب سے دیا جا رہا ہے ناشتے میں چنے، آملیٹ ، آلو انڈہ، نہاری ، پائے میں سے کوئی ایک چیز اور چائے اور حلوہ۔ لنچ اور ڈنر میں مٹن ، چکن ، دال چاول ، بریانی، پلاؤ میں سے کوئی ایک چیز اور ساتھ مکس سبزی اور ایک سوئٹ ڈش کھیر، سویاں ، زردہ یا کوئی ایک فروٹ جیسے سیب ، ناشپاتی ، “ہراسمنٹ کنندہ” کیلا اور پیک دہی اور کبھی لَبن (لسی) ہوتی ہے لیکن جب بھی لبن سامنے آتا ہے تو ذہن میں کمبخت کٹیٹا کوند جاتا ہے جسے لاحول پڑھ کر جھٹک دیتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply