دعاء رسول اللہ ﷺ سے فہم و فراست کی بلندیوں کو چھو جانے والے ، آپ ﷺ کے اپنے چچا زاد ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“رب العالمین نے قلوبِ بشر کی طرف دیکھا تو سب سے ستھرا ، پاکیزہ اور کامل و مکمل دل محمدِ عربی ﷺ کا پایا۔۔ سو اس کو منصبِ رسالت کیلئے چُن لیا ، پھر قلوبِ انس کی طرف نظر فرمائی تو اصحابِ محمد الرسول اللہ ﷺ کے قلوب و أفئدۃ کو پاک طینت ، پارسا باطن اور عمدہ و بہترین پایا سو ان کو صحبتِ نبوی ﷺ کیلئے منتخب فرما لیا ۔”
یہ تو وہ فضلِ عام از ربِ رحمن ہوا جو شمعِ رسالت کے تمام ہی پروانوں کو حاصل ہے لیکن جنابِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا جس طرح اسلام نرالا تھا اس طرح ان کا انتخاب بھی نرالا تھا ۔
واقعہ کچھ یوں ہے!
اسلام کے ابتدائی ایام تھے اور حالات بہت نا ساز ہوتے جا رہے تھے ، ارضِ مکہ اپنے ہی باشندوں پر تنگ ہو رہی تھی کسی پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے تو کوئی مارے خوف کے اپنے اسلام کو چھپا رہا تھا ، ایک دن بارگاہِ الہی میں نبی رحمت ﷺ کے دل سے دعا نکلتی ہے کہ رب العلمین اپنے دین کا بول بالا فرما اپنے دین کو عزت بخش اور یہ تیرے بندے بہت کمزور ہیں انہیں طاقت عطا فرما۔
لیکن وہ کیسے؟
سارے جہاں کی مال و دولت مل جائے۔نہیں نہیں
سارے کافر تباہ ہو جائیں ۔۔نہیں
سارا مکہ مسلمان ہوجائے ۔۔نہیں
پھر آخر کیا ہو؟
لبِ محبوب ﷺ سے اپنا اختیار نکلا اور رسول رحمت نے اپنا اختیار ربِ مختار کے سامنے رکھ دیا کہ:
“الہی عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب کو ہدایت دے دے”
اور یہاں پر اس انتخابِ ربانی کا فیصلہ صادر ہونا تھا جو عمارتِ اسلام کے اہم معمار کا فیصلہ تھا۔۔۔۔اور پھر وہ دن آتا ہے کہ اللہ کا انتخاب ، ابن خطاب ٹھہرتے ہیں ، اور پھر دنیا جانتی ہے کہ جب انتخاب ربِ مختار کا ہو تو لب سے نکلی بات کو رب قرآن بناتا ہے ، جس راستے سے گزریں اس راستے سے شیطان بھاگ جاتا ہے ، پھر شجاعت و بہادری کی وہ تاریخ رقم ہوتی ہے جو چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھی ہو ، پھر عدل و انصاف کے وہ دواوین تیار ہوتے ہیں کہ دنیا عش عش کر اٹھتی ہے ، پھر نظم و نسق کا وہ نظام ملتا ہے کہ انسانیت ششدر رہ جاتی ہے۔
اب جس کو اصطفاءِ ربانی اور انتخابِ رسولِ صمدانی پر اعتراض ہو یقینا ًاس کو اپنے ایمان میں نظرِ ثانی کرنا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں