کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط15

۰”ادیب کا عندیہ سوائے تخلیق کرنے کے اور کچھ نہیں ہے!“
۰تخلیقی قوت کی کارکردگی اور خلق ہوتی ہوئی ’اندر کی آوازیں‘

ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم) سے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر 1999ء چار دنوں کی بات چیت کا اندراج میری ڈائری میں!

میں لاہور ائیر پورٹ پر اترا، میرا سامان یعنی ایک بکس اور بیگ ایک کیریر (coolie) نے جھپٹ کراٹھانا چاہا، دوسرے نے اس سے چھین کر اپنے سر پر رکھ لیا۔باہر نکلا، تو دور سے ہی وزیر آغا صاحب نظر آئے۔ کچھ اور دوست بھی تھے۔ آغا صاحب نے سامان لانے والے کو کچھ روپے دیے۔ شاید کچھ زیادہ ہی دے دیے کہ اس نے جھک کر سلام کیا۔مجھے گلے سے لگایا۔ باقی دوستوں سے بھی مصافحہ ہوا۔ دو تین گاڑیوں میں گھر پہنچے۔ شام کا وقت تھا۔ راستے میں چاروں طرف چہل پہل تھی۔ مجھے ہندوستان کے کسی اور شہر سے کچھ بھی مختلف نہ لگا، سوائے لباس کے کہ تقسیم کے باون برسوں کے بعد وہاں شلوار قمیض صرف پنجابی عورتیں ہی پہنتی تھی، مرد وں کا لباس، یعنی قصبوں اور دیہات تک بھی، قمیض پتلون ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر سب سے علیک سلیک ہوئی۔

آغا صاحب نے لندن کے کچھ دوستوں کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں بتایا، ”میں آپ کے ایک خاص دوست سے تو ملا ہی نہیں!“ بولے، ”ہاں، اسی کمرے میں آپ کا سامان رکھوایا ہے، جس میں وہ اور ان کی جرمن بیگم ٹھہری تھیں۔“ تقریباً سبھی دوست سمجھ گئے کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔ ہنسے توآغا صاحب کے ہونٹوں پر بھی ایک خفیف سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ صرف اتنا کہا، ”آپ ملتے تو میرے لیے کچھ پیغام ہی لے آتے!“۔۔ میں نے کہا، ”اب اس ’چوپالی چٹھی‘کے بعد جو دہلی کے ”ذہن ِ جدید“ میں شائع ہوئی تھی، آپ کس طرح کے پیغام کی توقع رکھتے ہیں؟“۔۔

بولے، ”چوپالی چٹھی؟یہ اصطلاح میرے لیے نئی ہے، لیکن میں مطلب تو سمجھ گیاہوں۔“ میں نے کہا، ”سرحد پار، ہندوستانی پنجاب میں، جب سے پنجابی سرکاری زبان بنی ہے، انتظامیہ میں سینکڑوں نئی اصطلاحات در آئی ہیں۔گاؤں کی سطح پر چوپال یا پنچائت کے حوالے سے یہ اصطلاح بھی لوگوں کی زبان میں ہے۔“

لندن کے دوست، یعنی ساقی فاروقی صاحب کا ذکر تو پیچھے رہ گیااور باتیں زبان میں آہستہ آہستہ آتی ہوئی تبدیلیوں کی طرف مُڑ گئی اور ہوتے ہوتے لسانیات کی طرف رجوع کر گئی۔ چائے آئی،دوست ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ کہنے لگے آپ اوپر اپنے کمرے میں جا کر تھوڑی دیر آرام کر لیں، سامان کھول کر رکھ لیں، تازہ دم ہو لیں، تو کھانا کھائیں گے۔ شاید تب تک انور سدید صاحب بھی آ جائیں۔“

میں چار دن ان کے ہاں رہا۔ با معنی گفتگو تو وہی ہوتی تھی جس میں وہ اور میں اکیلے ہوتے تھے، اور یہ وقت یا تو صبح ناشتے کے بعد اور یا شام کو کھانے کے بعد ہوتا تھا۔ احباب دن بھر آتے رہتے تھے۔ مغرب میں یہ رواج ہے کہ اگر آپ کسی دوست کے ہاں جانا چاہیں تو پہلے فون پر اس سے اجاز ت طلب کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں مشرق میں (فون گھر میں ہو یا نہ ہو، کوئی فرق نہیں ہے) سیدھا جا دھمکتے ہیں۔ مجھے اچھا بھی لگتا تھا کہ دور دور کے شہروں اور قصبوں سے احباب ملنے آ رہے ہیں۔ بہت سے ایسے تھے جو مجھ سے بطور افسانہ نگار ہی واقف تھے اور جب میرے افسانوں کا ذکر کرتے تھے، تو آغا صاحب کو تو کیا، خود مجھے بھی کچھ عجیب سا لگتا تھا۔غزل کے چیدہ چیدہ اشعار یاد رہ جاتے ہیں، افسانوں کے کچھ کردار بھی یاد رہ جاتے ہیں۔ نظموں میں سے کوئی کیا یاد رکھے؟

دوسری صبح کو ہی ناشتے کے بعد آغا صاحب میری خطوط کی ایک گڈی نکال لائے۔ ربڑ کا فیتا کھولا اور پہلی بات یہ کی کہ مجھ سے پوچھا، ”آپ ان خطوط میں تحریر کردہ اپنے منشور پر اب بھی سختی سے قائم ہیں؟“ ”منشور؟“ میں نے پوچھا۔ ”ہاں،“ بولے، ”یہی کہ ادیب کا عندیہ سوائے تخلیق کرنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اسے حالات ِ حاضرہ سے اپنی تخلیق کا کوئی تعلق بطور منشور پیش نہیں کرنا چاہیے۔“ میں نے عرض کیا، ”جی، اب تک ہوں، لیکن مثتثنیات میں دور قدیم کے سارے ادب کو رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں مہا کاویہ بھی آئیں گے، جیسے مہابھارت اور رامائن جو شعرا کی تخلیقات ہیں۔“

بات چیت کے دوران کئی نکتوں پر ان میں مجھ میں اختلاف رائے رہا۔ امریکا سے میں نے کئی بار معروف ہندوستانی تھیوسوفی فلسفی کرشنا مورتی کا ذکر کیا تھا، فون پر ہی کئی بار پورے کے پورے صفحے اس کی کتابوں سے پڑھ کر سنائے تھے۔ ایک بار ایک اقتباس ڈھونڈنے میں دس بارہ منٹ لگ گئے لیکن وہ فون کانوں سے لگائے ہوئے بیٹھے ہی رہے، جب تک کہ میں نے متعلقہ اقتباس پڑھ نہ لیا، انہیں تسلی نہیں ہوئی۔ ایک بار میں نے بات چیت کے دوران لقمہ دیا ”آپ تو مہاتما بدھ کے پہلے چیلے اور میرے ہمنام آنندؔ کی طرح تجسس سے لبا لب چھلکتی ہوئی ایک پیاسی روح ہیں جو اپنی پیاس بجھانے کے لیے ہر جتن کرنے کو تیار ہے۔“ تب انہوں نے کہا تھا، ’’مہاتما بدھ کا پہلا چیلا اور آپ کا ہمنام آنندؔ تو شاید آپ کے ہی کسی پچھلے جنم کا روپ تھا۔ آپ نے اپنی ہر تتھاگت نظم اسی کے حوالے سے شروع کی ہے۔ لیکن میں باہر دیکھنے کے بجائے اپنی پیاس بجھانے کے لیے اپنے اندر دیکھتا ہوں۔ مجھے اس مہاتما بدھ کی ضرورت نہیں ہے، جو مجھ سے باہر ہے۔“ اور پھر مجھے اپنی کتاب ”دستک اس دروازے پر“ میں مشمولہ ”پانچواں دن“ پڑھنے کی تاکید کی تھی۔

فون پر اس بات چیت کے حوالے سے میں نے کہا،”میرا یہ سفر تو گیان کے کھوج کی یاترا ہے، آپ سے ان دنوں میں بہت کچھ سیکھنا ہے۔“ تب میں نے انہیں بتایا کہ میں نے خود ”اند ر باہر کی نظمیں“ کے زیر عنوان پانچ چھ  نظمیں خلق کی ہیں، جن میں یہی امر ایک شعری تاثر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ان سے گزارش کی کہ ”دستک اس دروازے پر“ مجھے دیں تو انہوں نے فوراً نکال دی۔میں نے بلند آواز میں پڑھنا شروع کیا، انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، اور بستر پر تکیوں کے سہارے نیم دراز ہو گئے۔
”میں نے پچھلے دنوں ایک بہت دلچسپ کتاب پڑھی۔ اس کے لکھنے والے کا نام ہے۔ جولین جینز (Jullian Jaynes) اس نے لکھا ہے کہ آج سے کم و بیش تین ہزار سال پہلے تک ا نسان ”اند کی آوازوں“ سے منسلک تھا۔ جب بھی کوئی بحران نمودار ہوتا تو وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے اندر سے آنے والے ”حکم“ یا ”مشورہ“کو بغور سنتا تھا اور اسے دیوتاؤں کی آواز سمجھتا تھا۔

تین ہزار برس پہلے شعور کی کارفرمائی کا آغاز ہوا تو ”اندر“ کی آوازیں آنا بند ہو گئیں اور باہر کی آوازوں نے اس پر پوری طرح قبضہ جما لیا۔۔۔ (جب)انسان کے دماغ کا بایاں حصہ متحرک ہو گیا اور اس نے فلسفہ اور منطق کی زبان میں شور مچا دیا۔ اتنا شور مچایا کہ اندر کی آوازیں ڈر کر دبک گئیں، مگر وہ زندہ بہر حال رہیں۔۔۔ اب وہ فنون ِ لطیفہ کے ذریعے اپنا اظہار کرنے لگیں۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی نظم لکھتا ہے، رقص کرتا ہے، تصویر بناتا ہے یا گاتا ہے تو اس کے اندر کی آوازیں اس ”شگاف“ میں سے اپنا اظہار کر رہی ہوتی ہیں۔ نظم کا ہر امیج، نغمہ کی تان، رقص کا ہر بھاؤ اور تصویر کا ہر خم مثل ایک شگاف کے ہے یوں سمجھو وہ ایک (Fault) ہے جس میں سے اندر کی آواز برآمد ہوتی ہے…“(ص۔83-84)

یہ اقتباس ختم ہوا تو انہوں نے ایک اور اقتباس پڑھنے کے لیے کہا، کاغذ کی کترنیں شاید میرے سہولیت کے لیے ہی رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے پھرپڑھنا شروع کیا۔انہوں نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
”وہ (لفظ سے مراد ہے) ہے ہی پراسرار۔ اپنے زمانے میں ہندوؤں نے اس پر (لفظ پر) بہت کام کیا۔ مثلاً انہوں نے نے واک (تخلیقی لفظ)کی بحث کو سب سے پہلے اٹھایا اور کہا کہ زبان کے وسیلے سے مادی دنیا کا حتمی علم ممکن ہے۔ واک کے سلسلے میں انہوں نے بہت دلچسپ بات یہ کہی کہ اس کے چار پرت ہیں۔ پہلا پارا، دوسرا پسیانتی، تیسرا مدہیام، اور چوتھا وائک باری! یہ آخری پرت واک کا وہ روپ ہے جسے ہمارے مادی کان پہچانتے ہیں ورنہ واک کی پہلی تین پرتوں سے نکلنے والی آوازوں کو صرف ”اندر“ کے کان ہی سن سکتے ہیں۔“۔۔

دوسری طرف مغرب میں زیادہ تر لفظ کے وائک باری روپ ہی کو اہمیت ملی ہے، حتی کہ بیسویں صدی کے آغاز میں سوشیور Saussure نے بھی لفظ کے معاملے میں زیادہ تر متکلم لفظ کو ہی اہمیت دی۔“(ص۔88)
ایک اقتباس اور پڑھنے کے لیے کہا۔ کاغذ کی کترن رکھی ہوئی تھی۔ میں نے پھر پڑھنا شروع کیا، انہوں نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
”زبان کی تھیوری کے معاملے میں تاریخ کے اور وقت کے دو زمانی یعنی diachronicانداز کو اہمیت مل گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مغرب کے ماہرین لسانیات سنسکرت زبان سے آشنا ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ سنسکرت زبان اور لاطینی رومن زبانوں میں لفظیات اور گرائمر کے اعتبار سے مماثلت تھی۔ سو انیسویں صدی کی لسانیات نے تقابلی گرائمر کے نظریے کو اپنا لیا“.(ص۔90)

وہی سوال جو میں نے فون پر پوچھا تھا، دوبارہ پوچھا کہ اس کا، یعنی تقابلی گرائمر کے اصولوں کا ہندوؤں کی اس بات کا کیا تعلق ہے کہ لفظ مقدّم تو ہے ہی، لیکن بولتے یا لکھتے ہوئے ایک شخص ایک لمحے کے دورانیے میں جب دو یا تین لفظ بولتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے ذہن میں کیا کا ر فرما ہوتا ہے جو ہر لفظ کو mini second کے وقفے میں چار پرتوں میں بانٹتا چلا جاتا ہے؟ گویا ہاڈ مانس کا بنا ہوا آدمی نہ ہوا، ایک بے حد sophisticated تیز رفتار کمپیوٹر ہو گیا۔

ڈاکٹر آغا نے اپنی آنکھیں کھول دیں، میری طرف ایسے دیکھا، جیسے میری گہرائی ماپ رہے ہوں۔ پھر ہنس پڑے، بولے، ”آپ میرا امتحان لے رہے ہیں کیا؟ آدمی کے دماغ کا وہ حصہ جو گلیشیئر کی طرح ہے اورجس کا نو بٹا دس حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور دکھائی نہیں دیتا، کیا کسی کمپیوٹر سے کم ہے؟ اگر کسی وقت یہ حصہ پوری طرح بیدار ہو جائے، تو نہ معلوم انسان کیا بن جائے۔“میں بھی ہنسا، ”خدا ہی توبن جائے گا، اور کیا؟“ ہنستے رہے، ”تتھا گت نظمیں لکھتے لکھتے آپ بھی خدا کی ہستی سے منکر ہو گئے؟“۔۔میں نے لقمہ دیا ”اس لفظ ”بھی“ کا جواب نہیں ہے۔“

ہنستے رہے، بولے، ”آپ مجھ سے جو کہلوانا چاہتے ہیں، وہ میں نہیں کہوں گا۔ آپ مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ میں خدا کی ”ہستی“ سے تو منکر ہوں، لیکن اس کے ”ہونے“ سے نہیں۔ میری نظم ”بیکرااں وسعتوں میں!“ پڑھ لیں اور اس میں جو لفظ ”تیرے“ ہے، اس کے بارے میں سوچ کر مجھ سے بات کریں کہ وہ کون ہے۔ کیا وہ ایک Entity ہے، یا کہ Totality ہے؟ اگر وہ ایک Entity ہے تو اس کا Persona کیا ہے، اور اگروہ ایک Totality ہے تو اس کے جزو کیا ہیں؟نظم میری پڑھی ہوئی تھی، اس لیے میں نے ایک اور استفسار کیا۔

میں نے کہا، آپ نے فون پر فرمایا تھا کہ میں آپ کی نظم میں صرف ایک لفظ ”تیرے“ (جو ایک بار ہی وارد ہوا ہے) کے بارے میں یہ سوچوں کہ مدِمقابل کون ہے۔یعنی وہ کون ہے جسے شاعر یا اس کا واحد متکلّم کہتا ہے، ”تمام چہرے جو تیرے اندر سے جھانکتے ہیں، مرے ہی چہرے کی جھلکیاں ہیں۔“ اس وقت آپ کا جواب ہی کچھ مبہم تھا یا میری فہم ہی نا مکمل تھی۔ آج پھر پوچھ رہا ہوں۔پہلے تو آپ ہی بتایئے کہ اس لفظ سے آپ کی کیا مراد ہے،۔۔ کہنے لگے،میں نے آپ سے اس لیے پوچھا تھا کہ میں توصرف نظم گو ہوں، آپ نظم گو بھی ہیں اور نظم فہم بھی ہیں، اور قاری اساس تنقید جسے میں حرف آخر نہیں مانتا، امتزاجی تنقید کا ایک اہم جزو ضرور تسلیم کرتا ہے، اس لیے آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ میں نے عرض کیا، اگر آپ میرا امتحان ہی لینا چاہتے ہیں، تو میرا جواب ہے کہ وہ آفاق ہے، گیتی ہے، کائنات ہے، کون و مکاں ہے، Cosmos ہے۔۔

میں خاموش ہو گیا تو.بولے، ”آپ نے تو اتنی زیادہ تعداد میں لفظ گِنوا دیے، آپ ایک لفظ بھی تو کہہ سکتے تھے، جو entity اور totality دونوں کا احا طہ کرتا ہو۔۔“
میں نے کہا،”وہ لفظ میں نہیں کہوں گا کیونکہ آپ کی مراد اس لفظ کے مروّج معانی سے نہیں تھی۔ اگر میں ایشور، اللہ، خدا کہہ دیتا تو پھر اس نظم کو حمد کے قبیل سے گنے جانے میں کوئی قباحت نہیں تھی، لیکن یہ نظم حمد کی صنف ِ سخن سے نہیں ہے۔“

بولے،”آپ نے درست کہا کہ یہ حمد نہیں ہے کیونکہ اس میں حمدیہ الفاظ کااستعمال نہیں ہے، لیکن آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں اس لفظ کے استعمال سے کنّی کترا گیا ہوں۔آپ خود تو اپنی تتھاگت نظموں میں بارہا گوتم بدّھ کا یہ اپدیش دہرا چکے ہیں کہ خد ا کوئی ہستی نہیں ہے کیونکہ ہست کا براہ راست تعلق نیست سے ہے۔ یعنی اگر خدا ہست ہے تو پھر خدا نیست بھی ہے۔ لاکھوں ستارے، کہکشائیں، galaxiesپیدا ہوتی رہتی ہیں اور بلیک ہول بن کر نیست کی منزل تک پہنچتی رہتی ہیں۔ آپ مہاتما بدّھ کے یا اس کے چیلے آنندؔ کے یا خود اپنے beliefsکو مجھ پر تو مت لادیں“

میں نے کہا، ایک لمحے کے لیے اگر میں یہ مان بھی لوں کہ میں آپ کو باہمی گفتگو کے وِیوہ چکّر میں ڈال کر آپ سے کچھ منوانا چاہتا تھا، جو آپ محسوس کرتے ہیں لیکن دم رہتے ہوئے بھی اس کا اقرار نہیں کرتے، تو چلو اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں، لیکن کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ یہ نظم self اور non-self کے اس رشتے میں self کی اس خواہش کے اظہار کی داستان ہے جس میں وہ non-self میں ضم ہونا چاہتا ہے؟“

بولے، آپ نے کرشنا مورتی سے لفظ non-self مستعار لے لیا ہے۔ یہ نظم micro-cosmic self کی وہ المیہ داستان ہے، جس میں وہ ایک جامد لمحے کے دورانئے میں تن ِ تنہا کھڑا ہے، رکا ہوا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس لمحے کا انت ہونا ہی اس کی بے انت سے وصال کی گھڑی ہے۔“

وہ ایک لمحہ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا، ہماری ’ہست‘ اور ’نیست‘ والی بات تو بیچ میں ہی رہ گئی۔“
بولے،”ذرا یہ کتاب مجھے پکڑائیں۔جہاں تک مجھے یاد ہے، اس کا ڈسٹ کور نہیں ہے، لیکن کچھ کاپیوں میں پشت پر وہ کاغذ چسپاں ہے، جس پر میرا اندراج ہے۔ اس میں یقینا لفظ ”ہستی“ آیا ہے۔ لیجئے، مل گیا، میں پڑھتا ہوں.

”میں زندگی بھر وقفے وقفے سے یہ دستک دیتا آیا ہوں۔ اور دوسری طرف سے اس کے جواب میں کبھی تو مکمل سنّاٹا اور کبھی ایک واضح دستک مجھے بھی سُنائی دی ہے۔ ایک ایسی دستک جس کا کوئی ایک نقطہ ثقل نہیں ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہ یہ دستک کس مقام سے آئی ہے اور کب تک آتی رہے گی۔ کبھی ایسے بھی ہوا کی یہ شفق کی جوالا سے پھوٹ پڑی یا شبنم کے قطرے، بادل کی قوس، سُر کے ابھار، قدموں کی چاپ یا لفظ کے نافے سے برآمد ہوئی اور کبھی اندر کے”چاہ ِ یوسف“ سے مجھے سُنائی دینے لگی۔ میرے لیے سانس لینے کا یہ وقفہ جسے عمر ِ عزیز کا نام ملا ہے، محض اس لیے ایک ثمر دار عمل ثابت ہوا کہ اس کی وساطت سے مجھے دروازے کی دوسری جانب سے اُبھرنے والی دستک کو سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مگر میں اس معاملے میں اکیلا نہیں ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ دروازے کے اس جانب کی دوسری ہستی اتنی رحمدل، فیّاض اور محبت کرنے والی ہے کہ اگر کوئی دستک خلوص دل کے ساتھ دے تو وہ اس کا جواب ضرور دیتی ہے، شرط صرف دستک دینے کی ہے۔“

(آج جب میں یہ سطریں ہرنڈن (ورجینیا کے ایک قصبے میں اپنے گھر میں اکیلا بیٹھا ہوا لکھ رہا ہوں، تو مجھے ایک ایک لمحہ اس دورانئے کا جس میں ڈاکٹر وزیر آغا کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہم باتیں کر رہے تھے، یاد ہو آیا ہے۔ اب وزیر آغا اس دروازے پر دستک دینے کے بعد اسے خود ہی اپنے ہاتھوں سے کھول چکے ہیں۔ لیکن مجھے ایسے لگتا ہے، جیسے اس وقت وہ میرے پاس بیٹھے ہوں!)

”جی،“ میں نے کچھ توقف کے بعد کہا، ”میں نے لفظ ”ہستی“ کا استعمال دیکھ لیا۔لیکن میں کیا کہوں کہ میں نے تو (خیر میں تو کیا، کچھ بڑے شاعروں نے بھی) یہ لفظ ”نیست“ کے عین منفی معانی میں استعمال کیا ہے۔

شاعر کہتا ہے۔ ع: نفی سے گرتی ہے اثبات ِ تراوش گویا۔۔

شاعر کہتا ہے۔ ع: عدم عدم ہے کہ آیئنہ دار ِ ہستی ہے۔۔۔

شاعر کہتا ہے۔: کیا ڈھونڈے دشت ِ گمشدگی میں مجھے کہ ہے: عنقا مرے سراغ سے دور، اور شکستہ پر… سنسکرت میں اسے ”ستت“ اور”استت“ کہا گیا ہے، گویا ”استت“ کے سکّے کا دوسرا رخ ”ستت“ ہے، کون سا رخ چہرہ ٗ شاہی دکھاتا ہے یہ کون جانتا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟“

بولے، ”میں نے عرض کیا تھا کہ شرط دستک دینے کی ہے، پے در پے دستک دینے کی ہے، لگاتار دستک دینے کی ہے۔ فی المکان دونوں کی بقائے باہمی ہے۔ Ontological a-priory argument about existence of God *کی رو سے تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن اب آپ بہت سوال مجھ سے کر چکے، آپ ہمیشہ مجھے یہ کہہ کر شرمندہ کرتے ہیں کہ آپ مجھ سے سیکھتے ہیں، جب کہ یہ بات میں بارہا آپ سے کہہ چکا ہوں کہ میں بھی تو آپ سے سیکھتا ہوں۔لیجیے، تیار ہو جایئے، مجھے آپ سے ایک سیدھا سادا سوال کرنا ہے، کیا آپ نے یہ دستک دی ہے؟“
میں نے عرض کیا، جی دی ہے، پے در پے بھی دی ہے۔ میں آپ کو 1981ء میں لکھی ہوئی اپنی ایک مختصر نظم سناتا ہوں۔ دیکھیے، دستک کے جواب میں جو سنّاٹا ہے، وہ کس قدر مہیب ہے۔….“
کہنے لگے، ”سنا دیجئے۔“
میں نے کتاب نکال کر پوری نظم سنا دی۔
فصیلوں کے اس پار باب حجر تک
پہنچ کر بہت دیر ٹھہرا رہا وہ
پھر آہستگی سے
ثوابوں، عذابوں کی گٹھری کو
کاندھوں سے اپنے اُتارا
رکا چند لمحے
کہا۔۔”کوئی ہے جو پکارے مجھے
مجھ سے پوچھے کہ میں کون ہوں
اپنی گٹھری میں کیا کچھ اٹھائے ہوئے!

دیر سے پھر رہا ہوں
فصیلوں کے اِس پار کیوں منتظر
پتھّروں کے در ِ آخرت پہ کھڑا ہوں!“
فقط شام کے سائے تھے
اور باب ِ حجر
کور آنکھوں کی بیگانگی سے
مجھے تک رہا تھا
کہا پھر…”کوئی ہے
جو کرتا رہا ہو
رقم بہی کھاتے میں لمحہ بہ لمحہ
کہ میں خود حساب اپنا لکھتا رہا ہوں
کہ گٹھڑی میں میری وہ سب کچھ بندھا ہے
جو میں نے کمایا ہے
اچھا بُرا تو اسے دیکھنا ہے
فصیلوں کے اُس بار بیٹھا ہوا
اپنی مرضی سے،یکطرفہ، یہ احوال نامہ
مرے بہی کھاتے میں لکھتا رہا ہے!“
جواباً فقط اس کی اپنی ہی آواز کی گونج تھی
اور بابِ حجر تھا!
۔۔۔میری دانست میں وہ زیر لب مسکرائے تھے کیونکہ جو کچھ انہوں نے کہا اس میں ریش خند کا، یا کسی حد تک تمسخر کا عنصر نمایاں تھا۔ کہنے لگے:
آپ تو اقبالؔ کی خودی کے فلسفے میں پھنس گئے اور پھر، الاماں شاعر کی اناء! یعنی بجائے اس کے کہ آپ اپنے عارفانہ تصور میں باب ِ حجر تک پہنچ کر بردباری اور تحمل سے دستک دیتے، آپ نے بلند آواز ہو کر صدا لگائی، ”کوئی ہے؟“ جیسے کوئی امیر زادہ نوکر کو پکار رہا ہو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ڈر ڈر کر آہستگی سے، دستک دی جاتی۔ آخر تو ’باب‘ ایک دروازہ ہی ہوتا ہے،جس پر بے صبری اور تنک مزاجی سے بھی ”ٹھاہ ٹھاہ“ دستک دی جاتی ہے، اور جسے متانت اور آہستگی سے بھی کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن آپ نے تو حد ہی کر دی، نہ صرف بے صبری سے دروازے کو پیٹ ڈالا بلکہ غالبؔ کی ہمنوائی میں اس شعر کو بھی اپنے انداز میں کہہ دیا، ”پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق: آدمی کوئی ہمارا دم ِ تحریر بھی تھا؟“میں نے ان کی بات سمجھ لی۔ دستک سے ان کی مراد وہ نہیں تھی، جو میری تھی۔ ان کی نظم میری اس طفلانہ نظم سے نہ صرف بدرجہا بہتر تھی، بلکہ گہرے معانی کی حامل تھی، جو میری نظم میں نہیں تھے!
کچھ توقف کے بعد میں نے عرض کیا، ”گویا بے انت وہmacro-cosm ہے، جس کے ساتھ micro-cosm کے ملاپ میں ہی اس کی مکتی ہے؟“
خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد بولے، اگلی بار ہم micro-cosmاور macro-cosm کی لا محدود حدود کے بارے میں بات کریں گے۔…“

میں ہنس پڑا، ”آ پ نے یہ اصطلاح میری ایک تتھاگت نظم سے کیسے یاد کر لی؟ کہنے لگے، ّپ کی تتھاگت نظمیں آپ کا کاپی رائٹ تھوڑا ہی ہے، وہ تو سارے اردو یونیورس کا حصہ ہے۔ یہ مان لیا کہ اردو میں آپ ہی اکیلے وہ شاعر ہیں جس نے بدّھ مت کے بارے میں اتنی زیادہ نظمیں لکھی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آ پ اس گدّی پر ساہوکار بن کر بیٹھ جائیں۔“ میں پھر ہنس پڑا۔ انہوں نے ایک فرمائش کی۔ مجھ سے ایک کتاب فراہم کر کے ہوائی ڈاک سے بھیجنے کے لیے کہا۔ میں نے فوراً حامی بھر لی۔ Trevor Ling کی اس کتاب کا نام ہے۔ A History or Religion East and West۔ میں خود اسے تقابلی ادب پڑھاتے ہوئے تقابلی مذہبیات کی کتاب کے طور پر اپنے طالبعلموں کو پڑھنے کے لیے کہتا رہا ہوں۔ کہنے لگے،”جب میں ”غالب کا ذوق ِ تماشا“کے رف نوٹس لکھ رہا تھا تواس کے آخری باب کے لیے میں نے اس کتاب سے کچھ اقتباسات مستعار لیے تھے۔ آپ نے اگر ابھی تک نہیں پڑھی تو اب پڑھ لیجیے اور مجھے بتایئے کہ اس باب میں جو کچھ بدھ مذہب کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ درست ہے کہ نہیں۔“

یہاں یہ بات بر سبیل تذکرہ ضروری ہے کہ میرے امریکا لوٹنے کے بعد ان سے فون پر بات چیت اور خط و کتابت میں کچھ اور تیزی جو آنی چاہیے تھی، نہیں آئی۔میں اپنی بیوی کی بیمار ی اور خود اپنے معاملات میں ایسا الجھا ہوا تھا کہ ان سے فون پر تو بات کر لیتا تھا، لیکن خط و کتابت میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔ ان کے دو مختصر خطوط ملے جن میں میری بیوی کی بیماری اور علاج کے بارے میں استفسار تھا۔ میں نے مختصراً جواب لکھ دیا لیکن ایک خط میں لکھا کہ مجھے اب تک بدھ مت کے بارے میں آپ کے فرمودات سے اختلاف ہے۔ کیا آپ کچھ وضاحت دے سکتے ہیں؟ ان کا بھی ایک مختصر خط ملا جس میں درج تھا۔

”آپ شاید صحیح کہتے ہوں۔ لیکن کوئی بھی حتمی فیصلہ سنانے سے پہلے آپ میری کتاب کے وہ پیراگراف غور سے پڑھیں جہاں میں نے آفاق کی مثال ایک فُٹ بال سے دی ہے اور سائنسدان کو ایک متجسس بالک کہا ہے، اور اگر طبیعت آمادہ ہو تو فٹ بال، بالک، سائنس دان اور صوفی کو ایک تکون بنا کر ایک پیرابل خلق کریں اور ایک نظم لکھیں۔ میں خودبسیار کوشش کے باوجود نہیں لکھ سکا۔“

میں وہ پیراگراف نیچے نقل کر رہا ہوں۔
”فرض کیجئے کہ اربوں سالوں پر پھیلی ہوئی یہ کائنات ایک رنگین فٹ بال کی طرح ہے۔ ایسی صورت میں سائنس دان کی حیثیت اس متجسس بالک ایسے ہو گی جو فٹ بال ادھیڑ کر یہ دیکھنا چاہے کہ اس کے اندر کیا ہے اور یہ کن عناصر کا ظہور ِ ترتیب ہے جب کہ صوفی اس زیرک طالب علم کی طرح دکھائی دے گا جو فٹ بال کو ”فٹ بال کھیل“ کی محض ایک علامت قرار دے کر یہ جاننا چاہے کہ اس کھیل کے ہمہ وقت بدلتے پیٹرن کے عقب یا بطون میں کون سا اصل الاصول کار فرما ہے۔ سائنس دان یا صوفی کے مقابلے میں فنکار کی حیثیت اس کھلندڑے بچے کی سی ہو گی جسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ فٹ بال کس چیز سے بنا ہے یا ”فٹ بال کھیل“ کا اصل الاصول کیا ہے۔ وہ تو فٹ بال کی خوبصورتی کو دیکھ کر نہال ہو جائے گا اور اپنی پہلی فرصت میں اسے کک kick لگا کر اس کے پیچھے دوڑنا چاہے گا۔“

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی بر سبیل تذکرہ ہے کہ امریکا سے، میری لاہور یاترا کے چار پانچ برسوں کے بعد ایک دن مجھے ان کی بات چیت بغیر کسی تحرک یا وجہ ئ تسمیہ کے یاد آ گئی۔ صبح کے دس بجے تھے اور نرس میں بیوی کو نہلا رہی تھی کہ موقع غنیمت جان کر میں نے فون کیا اور صرف چند منٹ ہی بات کی۔ میں نے پوچھا، ”اگر میں یہ فرض کروں کہ شاعر کا واحد متکلم یعنی”میں“، یعنی ایک انسان اور آفاق یعنی کل کائنات، دو ذی روح مائکروکازم اور میکروکازم Microcosm and Macrocosmہیں، تو انکے مابین کیا بات چیت ہو گی؟دونوں ایک دوسرے کی اصلیت جاننا چاہتے ہیں۔تو نظم کی بُنت کیا ہو گی؟“
بولے۔ ”بات چیت کا تو کوئی امکان ہی نہیں، دونوں ایک دوسرے کو اجنبیوں کی طرح دیکھ رہے ہیں، متجسس ضرور ہیں کہ یہ دوسرا کون ہے، لیکن کوئی مکالمہ ممکن ہی نہیں ہے، کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے!“

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply