• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • استعمار زدہ معاشرے میں دانش اور دانشور/اختر علی سید

استعمار زدہ معاشرے میں دانش اور دانشور/اختر علی سید

اطالوی مفکر، مصنف، اور ایکٹیوسٹ انتونیو گرامشی اور فرانسیسی فلسفی مشعل فوکو کے بعد ایڈورڈ سعید وہ مصنف ہے جس نے انسانی معاشروں میں موجود دانش اور دانشور کے کردار پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ایڈورڈ سعید نے گرامشی اور فوکو کے نظریات کی تشریح، توسیع اور نظری اطلاق کا کام کیا ہے۔ گرامشی کے پیش نظر فسطائیت کا شکار اٹلی تھا جبکہ سعید کی توجہ ان مغربی دانشوروں پر رہی جو مشرق اور بالخصوص اسلام پر اپنے متعصبانہ نظریات کے ساتھ لکھ رہے تھے۔ ایک اہم موضوع جو شاید اب تک زیر بحث نہیں آیا وہ استعمار زدہ post colonial معاشروں کے دانشوروں میں دانش کی سطح اور مسلسل تشکیل پاتی ہوئی استعماریت colonialism کی تفہیم میں ان کا کردار ہے۔ ایڈورڈ سعید  کا یہ کہنا تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ دانشور کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عہد کے پاور سینٹر (استعمار) کی شناخت میں عوام کی مدد کرے۔

تمہید کے طور پر ایک سوال اٹھانا شاید ضروری ہو اور وہ یہ کہ استعماریت کے شکار معاشرے مادی اور انسانی ترقی کے حوالے سے آج بھی جس انتشار، سیاسی خلفشار، علمی, اقتصادی اور ثقافتی انحطاط کا شکار ہیں کیا اس سب کی ذمہ داری استعمار گردوں colonizers پر ڈالنا ایک جائز اور مناسب کام ہے؟

اس سوال کے کئی جواب دیے جا چکے ہیں۔ ایک جواب فرانس کے سائیکا ٹرسٹ فرانز فینون نے دیا تھا۔ اس کے مطابق استعمار اپنے زیر اثر معاشروں کو اس بری طرح سے معاشرتی، اقتصادی اور نفسیاتی شکست و ریخت سے دوچار کرتا ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔

گھانا کے پہلے صدر کوامی کروما نے نیو کلونیلزم کی اصطلاح متعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ استعماریت کے شکار معاشرے حقیقت میں کبھی آزاد ہوئے ہی نہیں تھے۔ اس کے مطابق پرانی استعماریت کی جگہ نئی استعماریت نے لے لی ہے۔ 1960 کی دہائی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں کروما نے ان اقتصادی حربوں کا ذکر کیا ہے جن کی مدد سے سابقہ استعماری ممالک اور امریکہ نے تیسری دنیا (اس وقت کی ایک معروف اور مستعمل اصطلاح) کے ممالک کی اقتصادی ترقی کو محدود اور مسدود کر دیا ہے۔

استعمار زدہ معاشروں کی عمومی ثقافتی (اور نفسیاتی) صورتحال پر ایک ہندوستانی مفکر اور مصنف ہومی بھابھا نے بھی گراں قدر کام کیا ہے۔ بھابھا 1949 کے ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے اس ہندوستان کا تجربہ، مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہے جو استعمار سے آزادی کے بعد بن رہا تھا۔ اپنے وسیع کام میں بھابھا نے آزادی کے بعد تشکیل پانے والے معاشروں کی خصوصیات گنوائی ہیں۔ اپنی معروف کتاب The location of culture میں استعمار زدہ معاشروں میں تشکیل پانے والی استعماری خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے ایک اہم بات یہ کی کہ یہ معاشرے استعمار کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیوں پر تشکیل پاتے ہیں۔ استعمار کے ساتھ تعلق ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس کے دوستی اور دشمنی کے علاوہ بھی کئی رنگ اور کئی پہلو ہیں۔ بھابھا نے استعمار اور محکوم معاشروں کے مابین تعلق کے ان پہلوؤں (میکانیتوں Mechanisms ) کو بیان کیا ہے۔ ان مکانیتوں پر بہت سے فکری اعتراضات کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس کتاب کے تیسرے باب میں محکوم اور استعمار کے تعلق کی مختلف صورتوں کا مطالعہ پاکستانی معاشرے اور اس کے طبقات کو سمجھنے میں یقینی مدد فراہم کرتا ہے۔ بھابھا کے بیان کردہ طریقوں میں نقالی mimicry، اختلاط Hybridity اور قومیت Nation جیسے تصورات شامل ہیں۔ بھابھا یہ بتانا چاہتے ہیں کہ استعمار سے بظاہر آزادی کے بعد بھی معاشرے محکوم ہیں اور استعماریت پر مبنی ایک ثقافتی اور سماجی نظام کا تسلط تا حال جاری و ساری ہے۔

ایک انتہائی جائز سوال اس ضمن میں بجا طور پر یہ اٹھایا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر اج تک سابقہ محکوم ریاستیں اور معاشرے اپنے پیروں پر کیوں کھڑے نہیں ہو سکے۔ آزادی اپنے حقیقی معنوں میں محکوم معاشروں پر کیوں طلوع نہ ہو سکی۔ اس پر متعدد نظریات موجود ہیں۔ یہ نظریات اقتصادیات، سماجیات، سیاسیات اور نفسیات کے ماہرین نے پیش کیے ہیں۔ ان سب نظریات کا بیان اس وقت یہاں مقصود نہیں ہے تاہم الجزائر کے فلسفی اور دانشور مالک بن نبی نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے اس کا بیان شاید یہاں دلچسپی کا سبب ہو۔

مالک بن نبی فرانز فینون کا ہم عصر تھا۔ یہ الجزائری شہری اپنے ملک پر فرانسیسی تسلط کے دوران قاہرہ میں مقیم تھا اور آزادی کے بعد وطن لوٹا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ فینون اور بن نبی نے ایک ہی زمانے میں کم و بیش ایک ہی جیسے موضوعات پر تصنیفی کام سرانجام دیا۔ مگر دونوں نے نہ تو ایک دوسرے کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا اور نہ ایک دوسرے کے نظریات پر کوئی تبصرہ کیا۔ جہاں فینون محکوم معاشروں کی ہر خرابی کی ذمہ داری استعمار پہ ڈال رہا تھا وہیں بن نبی استعماریت کی ذمہ داری محکوم معاشروں پر عائد کر رہا تھا۔بن نبی استعمار زدگی colonizability جیسی اصطلاح کے ذریعے محکوم معاشروں میں موجود اس علمی اور ثقافتی دیوالیہ پن کی طرف توجہ دلا رہا تھا جس کی وجہ سے یہ معاشرے استعماریت کے لیے ترنوالہ ثابت ہوتے ہیں اورcolonizable بن جاتے ہیں۔

اس قدرے طویل تمہید میں یہ گزارش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ آزادی (جو پاکستان کے حوالے سے 1947 میں) استعمار کی بظاہر رخصتی کے نتیجے میں حاصل کی گئی تھی اس کو حقیقی آزادی سمجھنا یقیناً درست نہیں ہے۔ محکومیت یا غلامی کی اب ایک نئی اور بعض اوقات ناقابل شناخت صورتحال ایسی ہے جس کا پاکستان جیسے معاشروں کو بالعموم سامنا ہے۔ اگر آپ ان ممالک کی فہرست مرتب کریں جو استعماریت کا شکار رہے ہیں تو اپ کو معلوم ہوگا کہ سفید فام اور چند عرب ممالک کے علاوہ ان میں سے کوئی بھی ملک آج تک پوری طرح علمی، مادی اور ثقافتی حوالوں سے اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ جن سفید فام اور عرب ریاستوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کے حوالے سے بھی کہنے والوں نے بہت سی باتیں کی ہیں جو اس وقت زیر بحث نہیں ہیں۔

استعماریت کے تسلسل کو بیان کرتی ہوئی ایک اور اصطلاح Hypercolonialism ہے۔ یہ اصطلاح امریکی مصنف مارک بورگ اور معروف اردو نادل نگار جناب مرزا اطہر بیگ نے دو مختلف معنوں میں استعمال کی ہے۔ مرزا صاحب نے اس اصطلاح کے ذریعے غلبہ اور استبداد کی اس صورت کی طرف اشارہ کیا ہے جو ڈیجیٹل (سوشل میڈیا) انقلاب کے نتیجے میں اب استعمار کے لیے ممکن ہوچکی ہے. غلبے کی صورت میں اب محکوم اور استعمار کے تعلق کی ایسی نئی اور ناقابل شناخت شکل ممکن ہے جو آج سے پہلے موجود نہیں تھیں۔

استعماریت کبھی بھی صرف اقتصادیات تک محدود نہیں تھی برطانوی استعمار نے متحدہ ہندوستان کو صرف 43 ٹریلین پاؤنڈز سے ہی محروم نہیں کیا بلکہ یہاں کے سماج، سماجی تعلقات، سیاسیات اور اذہان کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ تاہم جس نقصان کا اب کھلے دل سے اور کھلے بندوں اعتراف کیا جاتا ہے وہ محکوموں کے ذہن کو پہنچنے والا نقصان ہے جسے اصطلاحاً Colonization of mind کہا جاتا ہے۔ استعمار کا محکوموں کے ذہن پر اثرات کا جائزہ سب سے پہلے فرانسیسی مصنف اوکٹیو مینونی نے لیا تھا۔ بعد ازاں اس موضوع پر لکھنے والے مصنفین مفکرین اور ماہرین کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مخصوص حالات میں اور مخصوص خطوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نفسیات پر استعماریت کے اثرات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ محکوم افراد کے ذہنی مطالعے کے لیے کون سی شخصیات زیادہ قابل اعتماد قرار پائیں گی؟ وہ جو استعماری معاشروں سے تعلق رکھتی ہیں یا محکوم معاشروں سے تعلق رکھنے والے ماہرین؟

مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اس طرح کا نفسیاتی مطالعہ جو بھی کرے اس کا طریقہ کار methodology بہرطور مغرب یعنی استعماری ممالک ہی میں تشکیل دیا گیا ہے۔

محکوم عوام کے نفسیاتی مطالعے پر تو بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اور ان دانشوروں کے کام پر تفصیل سے میں خود بھی لکھ چکا جو مغرب میں بیٹھ کر اپنی تحقیقات بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان دانشوروں کا تفصیلی مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے جو محکوم معاشروں میں رہ کر مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں اور اپنے اپنے معاشروں میں انہیں دانشور خیال کیا جاتا ہے۔ یہ دانشور جن موضوعات کو اہم خیال کرتے ہیں ان کو اپنے کام کا موضوع بناتے ہیں۔ اپنے مسائل کو سمجھنے کے لیے رہنمائی کے متلاشی عوام ان کے کہے اور لکھے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم استعماریت کے مخصوص پس منظر میں ان دانشوروں کا مطالعہ اب تک نہیں کیا گیا کہ استعماریت کے استحکام یا اس کے خلاف مزاحمت میں ان کا کردار کیا رہا ہے۔تاہم برنارڈ لوئس نے نائن الیون کے بعد لکھی گئی ایک کتاب میں مسلمان صاحبان علم کے بارے میں ایک مجموعی تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عہد جدید کے شروع ہونے کے بعد مسلم دنیا نے علم، دانش، اور فنون لطیفہ کے شعبے میں کوئی قابل ذکر شخصیت پیدا نہیں کی۔۔۔ اس مسلم دنیا میں پاکستان ظاہر ہے کہ شامل ہے۔۔

پاکستانی مصنف اکبر ایس احمد نے جن مسلمان صاحبان علم وفن کے نام لوئس کا جواب دیتے ہوئے گنوائے ہیں ان میں ڈاکٹر محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، مرزا غالب، ڈاکٹر عبدالسلام اور نصرت فتح علی خان کے نام شامل تھے۔ جب کہ لوئس نام لیے بغیر چارلس ڈارون، آئنسٹائن، نطشے اور سگمنڈ فرایڈ جیسے لوگوں کا ذکر کر رہا تھا جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے مخصوص شعبوں میں کچھ نیا اور کچھ اوریجنل کام کیا تھا بلکہ ان کے کام کے علم اور فن کے دیگر شعبوں پر بھی دیر پا اثرات مرتب ہوئے۔ اگر صاحبان علم اور دانش کی یہ تعریف پیش نظر ہو تو یہ طے کرنا آسان ہے کہ مسلم دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص کی حالیہ تاریخ ایسی شخصیات سے خالی ہے۔۔

اسی موضوع پر ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک لبرل سکالر نے پاکستان کے مذہبی تعلیمی  اداروں پر تنقید کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ پاکستان کے ان اداروں نے تو کوئی قابل ذکر مذہبی عالم بھی پیدا نہیں کیا تو ان کے جواب میں مذاکرے میں شریک مذہبی عالم نے کہا کہ آپ کی یونیورسٹیوں نے کون سے چومسکی پیدا کر دیے ہیں۔۔۔ یعنی ہر دو طرح کے تعلیمی اداروں نے جو طلباء تعلیم اور تربیت کے بعد معاشرے میں بھیجے، ان میں سے ایک بھی کوئی قابل ذکر اور لائق توجہ کام دنیا کے سامنے نہیں رکھ سکا۔ یعنی اس انحطاط کی کل ذمہ داری پاکستان میں موجود مذہبی طبقے کے استبداد پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

اس تحریر کی تمہید میں مختصراً عرض کیا جا چکا کہ استعمار سے آزاد ہونے والی ریاستیں اور معاشرے انسانی ترقی کے اوسط پیمانوں پر بھی مسلسل پسماندگی کے شکار نظر آتے ہیں۔ اسی میں ایسے معاشروں میں دانشوروں کی تعداد اور ان کی استعداد کا مسئلہ بھی شامل سمجھا جانا چاہیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں دانش کے پنپنے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کو یہ استعمار زدہ معاشرے پورے نہیں کر پاتے۔ ان تقاضوں میں اقتصادی آسودگی بھی شامل ہے لیکن دنیا کے بڑے فلسفیوں اور دانشوروں میں آپ ایسے بے شمار نام ڈھونڈ نکالیں گے کہ جن کی پوری زندگی غربت اور افلاس میں گزر گئی لیکن علم و دانش کی دنیا میں ان کے نام اور ان کے کیے گئے کام آج بھی روشنی کے مینار سمجھے جاتے ہیں۔۔

کیا معاشرے میں موجود مذہبی طبقے کا استبداد ہمارے ہاں دانش اور علم کے اس بحران کی وجہ ہے؟

ہمارے ہاں موجود مذہبی طبقے کا استبداد کسی بھی صورت عہد تار Dark ages کے مذہبی طبقے جیسا نہیں ہے۔ کیا اسی عہد تار سے مغرب میں روشن خیالی کا سورج طلوع نہیں ہوا۔ اگر مغرب میں عہد جدید اسی تاریک دور کی کوکھ سے برامد ہو سکتا ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟

اس مختصر تحریر میں نہ یہ ممکن ہے اور نہ اس طالب علم کا محدود مطالعہ یہ اجازت دیتا ہے کہ پاکستان میں علم و دانش کی تاریخ کا باریک مطالعہ آپ کے سامنے رکھ کر اس سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جائے کہ مجموعی طور پر پاکستانی دانشوروں نے آج تک استعمار کی مختلف شکلوں کو شناخت کرنے میں عوام کی کیا مدد کی اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے کے طریقوں سے عام آدمی کو کیسے آگاہ کیا۔ یہ ایک بڑا کام ہے تاہم ایک اجمالی جائزے کی کوشش بہرحال کی جا سکتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد پیشہ ورانہ تعلیم کے علاوہ علم و دانش کے دو واضح میدان اور اس میں کارکردگی دکھانے والے ارباب علم کا کام آج ہمارے سامنے ہے۔

ایک طبقہ مذہبی علما کا ہے اور دوسرا لبرل اور سیکولر دانشوروں کا۔۔۔

مذہبی علما اور سکالرز میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور غلام احمد پرویز نے ایک مربوط فکر کے زیر اثر اپنا تصنیفی کام سرانجام دیا۔ مولانا مودودی کے سیاسی نظریات کی وارث جماعت اسلامی پاکستان ہے لیکن ان کے علمی کام کے اثرات کے نتیجے میں ڈاکٹر اسرار احمد اور جاوید احمد غامدی جیسے علما پیدا ہوئے۔ جبکہ لبرل ( گو یہ غلط ہے مگر ہم یہاں لبرل، سیکولر، سوشلسٹ اور کمیونسٹ کے درمیان فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے گفتگو کررہے ہیں) روایات سے جڑے ہوئے لوگوں میں سید سبط حسن اور علی عباس جلالپوری کی کتابیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ جبکہ دائیں بازو کے مفکرین میں ایم ایم شریف اور خلیفہ عبدالحکیم جیسے لوگوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ ان ناموں پر اعتراض ہو سکتا ہے اور اس بات پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ چند اہم نام اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے۔ مگر یہاں مقصد نام گنوانا نہیں بلکہ دانشوروں کے گروہ اور طبقات کی نشاندہی ہے۔ شاعروں، ادیبوں اور ناول نگاروں میں بھی آپ یہی طبقات موجود پائیں گے۔ اگر فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور سعادت حسن منٹو ایک گروپ میں ہیں (گو مجھے ان کے ذاتی اختلافات کا علم ہے مگر یہاں مقصد اس طبقے کی استعمار مخالف تخلیقات کی نشاندہی کرنا ہے) تو دوسرے طبقے میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد جیسے ادیب ہیں۔ جو یا تو لوکل استعمار کے ساتھ کھڑے رہے یا جنہوں نے استعمار کی کارگزاریوں سے عوام کی توجہ دوسرے غیر ضروری موضوعات کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کی ۔

پاکستان کے مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے چاہے ادیب ہوں یا شاعر، سیاستدان ہوں یا عالم۔۔ انہوں نے کبھی استعمار کی کارگزاریوں کو درخور اعتنا اور پاکستان کے مسائل کی وجہ نہیں سمجھا۔ استعمار چاہے بین الاقوامی ہو یا مقامی، اس گروہ نے اس کو شناخت کرنے اس پر تنقید اور گرفت کرنے کو من حیث المجموعی کبھی اپنا شعار نہیں بنایا۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی ادیب نے تقسیم کے بعد استعمار سے نجات یا اس کے ہندوستانی مسلمان پر اثرات جیسے موضوع پر کوئی بڑا شہ پارہ تخلیق نہیں کیا۔ منٹو کی بڑی کہانیاں ان سانحات کے گرد گھومتی ہیں جن کا سامنا ہندوستانی علاقوں سے آنے والے مہاجرین نے کیا۔ جبکہ انتظار حسین کا فوکس نقل مکانی اور آبائی وطن سے بچھڑنے پر رہا۔ فیض احمد فیض اور احمد فراز جیسے بڑے شاعر ملک میں موجود استعماری طاقتوں کے خلاف لڑتے رہے۔ جلاوطنی کی تکالیف اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ فیض صاحب تو ضیاء الحق کے دور میں ہی وفات پا گئے تھے مگر فراز صاحب 2008 تک حیات رہے۔ ان دونوں کی شاعری کی استعمار مخالف روح بھی ضیاء الحق کی روح کے ساتھ پرواز کر گئی۔ مشرف دور میں استعماریت کی جو صورت قوم کو درپیش رہی اس کے بارے میں فراز صاحب اس پورے دور میں اپنے پڑھنے والوں کو کوئی قابل ذکر رہنمائی فراہم نہ کر سکے۔ مشرف دور میں کوئی ایک ایسا قابل ذکر شعر یا افسانہ سامنے نہیں آیا جو عام عوام کے ذہن و قلب میں اس طرح سے ترازو ہوا ہو جیسے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
یا
اسے معلوم نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے
جیسی سطریں زباں زد عام ہو گئی تھیں۔ مرزا اطہر بیگ کا ناول غلام باغ 2006 میں شائع ہوا تھا اس کا نام اور پلاٹ استعماریت کے منظر نامے پر ہی استوار ہوا تھا۔ اس ناول کے آج تک غالباً چھ یا سات ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا انتہائی جدید تکنیک کا ناول ہے۔ جس سے اس عوامی اپیل کی توقع رکھنا عبث ہے جو نسیم حجازی کے ناول رکھتے تھے۔

فلسفے کے میدان میں سبط حسن اور علی عباس جلال پوری کی روایات انہی کے ساتھ دم توڑ گئیں ان کی کتابیں بھی فلسفیانہ مباحث پہ تبصرے اور خلاصے بیان کرنے تک محدود تھی۔ اوریجنل فلسفیانہ خیال ان کے ہاں بھی موجود نہیں تھے۔ تاہم ملک میں خرد افروزی کی تحریک کے حوالے سے ان کے کام کی وقعت آج یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ ان کے بعد سے لے کر آج تک ان کے جیسا کام بھی نہیں ہو سکا۔ کوئی مصنف اس روایت کو لے کر آگے نہ چل سکا اسی لیے فلسفے اور دیگر سنجیدہ موضوعات پر ابتدائی معلومات کے لیے آج بھی لوگ انہی کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

مجھے یہ چھوٹ ضرور دیجئے گا کہ وطن سے باہر ہونے کے سبب اکثر اوقات کئی اہم تصانیف کے بارے میں معلومات مجھ تک نہیں پہنچ پاتیں،لیکن کم از کم ایک بات وثوق سے ضرور کہی جا سکتی ہے کہ سنجیدہ فکری موضوعات پر کوئی اوریجنل کام پاکستانی دانشوروں کی جانب سے سامنے نہیں آیا۔

ادبی تنقید میرا شعبہ نہیں ہے۔۔ لیکن ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ادبی تخلیقات کا استعماریت کے پس منظر میں جائزہ لینے کی جو کوشش کی ہے اس نے ادب اور استعماریت کے تعلق کو بہت وضاحت کے ساتھ دیکھنے کی روش کو یقیناً فروغ دیا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافت نے بین الاقوامی اور لوکل استعمار کی کارگزاریوں کی نشاندہی اور ان پر تنقید اور گرفت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرہ قبل تک استعمار مخالف صحافت انگریزی اخبارات تک محدود تھی۔ استعمار مخالف صحافت کے بڑے نام انگریزی اخبارات کے لیے کام کرتے رہے۔ مظہر علی خان کی ادارت میں ہفت روزہ لیل و نہار بھی شائع ہوا مگر ان کی وجہ شہرت ان کا انگریزی ہفت روزہ ویو پوائنٹ ہی بنا۔ نثار عثمانی، آئی اے رحمان، ظفر اقبال مرزا اور حسین نقی جیسے بڑے نام انگریزی صحافت ہی سے وابستہ رہے۔ اردو صحافت کے بڑے نام پاکستانی فوج اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی حمایت کے لیے جانی جاتی ہے۔ (ایسے صحافیوں کے نام لینے سے کیا حاصل, سب جانتے ہیں) عام قاری کی رسائی ظاہر ہے اردو صحافت تک آسان تھی۔ اس لیے لوکل استعمار کا موقف عوام تک بغیر کسی تعطل اور رکاوٹ کے پہنچتا رہا۔ واقعات کے جس رخ کو اجاگر کرنا لوکل استعمار کے مفاد میں تھا وہی پہلو عوام کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا۔ مثال کے طور پر افغان جنگ کے بارے میں آج بھی عوام یہی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ جنگ روس نے پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے چھیڑی تھی۔ اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے متحد ہو کر کمیونسٹ روس کا راستہ کامیابی سے روک دیا۔ یہ سب اردو صحافت کا کارنامہ تھا جو عمومی طور پر فوج اور دائیں بازو کے زیر اثر رہی۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں اردو کے ایسے کالم نگاروں میں بتدریج اضافہ ہوا جنہوں نے استعمار مخالف موقف کے ساتھ اردو میں لکھا مگر تا حال تناسب استعمار کے حامیوں کے حق میں ہے۔
سن 2000 کے پہلے عشرے سے دنیا سوشل میڈیا کے سحر میں ہے۔ اس نے انسان کے درمیان گفتگو اور مکالمے ہی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ ذرائع ابلاغ (پرنٹ اور الیکٹرانک) میں خبروں اور تجزیوں پر استعمار کے تسلط اور اجارہ داری کو ایک زوردار جھٹکا دیا ہے۔ اب خبر صحافی کی اور تجزیہ کالم نگار کا محتاج نہیں رہا۔ جو جہاں بھی کسی واقعے کو دیکھ رہا ہے، وہ رپورٹ کر سکتا ہے۔ کسی بھی مسئلے پر جو کچھ بھی کسی کی رائے ہے وہ بلا کسی رکاوٹ اور توقف کے نشر ہو سکتی ہے۔ اور اس پر ہر طرح کا تبصرہ بھی بغیر کسی روک ٹوک کے اور بلا کم و کاست دوسروں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ لہذا اب ہر وہ شخص جو ایک سمارٹ فون کا مالک ہے بیک وقت صحافی بھی ہو سکتا ہے اور دانشور بھی اور اس طرح وہ دوسروں کی رائے کو تبدیل کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ اب ہر شخص نئے رجحانات تشکیل دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ آپ اگر صحافت کی تربیت نہیں رکھتے اور اس قدر مطالعہ بھی نہیں ہے کہ کسی سنجیدہ موضوع کو اس کی جزیات سمیت دیکھ سکیں تو کوئی بات نہیں۔ آپ کسی بھی موضوع پر کوئی رائے دینا چاہیں تو نہ کوئی آپ کا ہاتھ پکڑے گا اور نہ کوئی آپ پر اعتراض کر سکے گا۔ افراد ادارے اور جماعتیں اب سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اپنے حقیقی تعارف کے ساتھ بھی اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے بھی۔۔ اب صرف یہی نہیں کہ ہر کوئی سب کچھ کہہ سکتا ہے بلکہ اب بنتے بگڑتے فکری رجحانات کو کون تشکیل دے رہا ہے اب یہ جاننا بھی مشکل ہو چکا۔ ایک ایک واقعہ کی کئی کئی رپورٹس سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس پر یقین کیا جائے اور کس پر نہیں۔ آپ سوشل میڈیا کی کسی ایک پوسٹ پر کسی واقعے کے بارے میں کسی کی رائے سنتے ہیں اور اس سے پہلے کہ آپ اس رائے سے متفق ہوں اس کے بالکل برعکس اور اتنی ہی وزنی رائے کسی اور پوسٹ میں آپ کو نظر آ جاتی ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ پہلی رائے کو اہمیت دے یا دوسری کو۔۔۔ کنفیوژن کی اس سٹیج پر ایک عام آدمی اپنی سابقہ رائے سے جڑے رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کو میں نے ایک اور تحریر میں “شور کی ثقافت” کا نام دیا تھا.

استعمار پر ہونے والی اس گفتگو کی جانب واپس چلیے جو ہم نے اس تحریر کے ابتدا میں چھیڑی تھی اور یہ عرض کیا تھا کہ ہم آج بھی ایک استعمار زدہ معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اذہان کا کنٹرول سب سے زیادہ اہم ہے۔ جدید استعماری نظام میں عوام کو قوت فیصلہ سے محروم کرنا، کنفیوژن پیدا کرنا اور معاشرے میں تفرقہ اور انتشار کی فضا کو ترویج اور ترقی دینا اہم ترین ہتھیار ہیں۔

اب اجازت دیجئے کہ اوپر بیان کردہ سارے گزارشات کو اکٹھا کر کے اپنی بنیادی بات عرض کر سکوں

ہم ایک جدید استعماری دور میں رہتے ہیں یہ استعماریت بین الاقوامی استعمار بھی مسلط کرتا ہے اور لوکل استعمار بھی۔۔۔ اب یہ استعماریت بڑی حد تک ناقابل شناخت ہو چکی ہے استعماریت کی اس صورت کو قابل شناخت بنانا اور اس کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتوں پہ نظر رکھنا کسی بھی معاشرے کے دانشوروں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔
پاکستانی معاشرہ استعماری اثرات کی وجہ سے مسلسل انتشار کا شکار ہے۔ تقسیم در تقسیم کے سنجیدہ اور پیچیدہ مسائل کے شکار معاشرے میں اب ہر بڑا سماجی گروہ چھوٹے سے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر روز معاشرے میں ایک نئی فالٹ لائن نمایاں ہو جاتی ہے۔ انتشار کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا استعمار کے مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے سہولت کار بھی یہی کام کرتے ہیں اور جانے انجانے میں اس ایجنڈے کے شکار عام افراد بھی۔۔۔ فرقہ وارانہ فسادات استعمار اور ان کے سہولت کاروں کا منصوبہ تھا لیکن اپ جانتے ہیں کہ لاکھوں افراد اس فرقہ وارانہ بیانیہ پر ایمان لے آئے  تھے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ لاکھوں افراد اب کروڑوں میں ہو سکتے ہیں۔

استعمار کے چار بنیادی کاموں میں سے ایک بڑا کام محکوموں کو مسلسل تقسیم کرنا اور تقسیم رکھنا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ محکوموں کا ایک گروہ دوسروں سے نفرت کو ایک ایسی حد تک لے جائے کہ جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے۔ استعمار خود بھی اور اپنے سہولت کاروں کو بھی مخالفین کے لیے القابات اور لیبل تراشنے میں مدد فراہم کرتا رہتا ہے۔ کافر، ملحد، غدار، اور رجعت پسند ایسے ہی القابات تھے جو ہماری حالیہ تاریخ میں مختلف گروہوں نے اپنے مخالفین کے لیے تراشے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا نے ایسے بہت سے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو جنم دیا جن کو سوشل میڈیا سے باہر شاید لوگ اتنا نہ جانتے ہوں جتنا سوشل میڈیا پر موجود لوگ۔ بعض سنجیدہ دانشور بھی سوشل میڈیا پر اپنا وجود رکھتے ہیں لیکن ان کا سنجیدہ کام سوشل میڈیا سے باہر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ فوری شہرت کا بغیر محنت کیے حصول سوشل میڈیا پر اب انتہائی آسان ہو گیا ہے جس کے سبب ایسی باتیں اب یہاں زیادہ بیان ہوتی ہیں جو پسند یا ناپسند کا سبب بن کر فوری توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ استعمار زدہ معاشرہ بنیادی طور پر چونکہ ایک فرقہ پرست اور مناظرہ باز معاشرہ ہوتا ہے اس لیے تفریق اور تقسیم کا سبب بننے والی گفتگو بہت جلد توجہ حاصل کر لیتی ہے اور ایسی گفتگو کرنے والے اصحاب راتوں رات مشہور بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب سنجیدہ دانشور تعداد اور استعداد دونوں میں کم ہوں تو ایسے نو آموز اور نیم پخت دانشوروں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ شہرت کے حصول کے لیے ہر وہ بات کی جاتی ہے جو اختلاف سے زیادہ افتراق کا سبب بنے اور سنسنی پھیلائے۔ آپ گزشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیجئے آپ انتہائی آسانی سے اس رجحان کو دیکھ لیں گے۔ ایسی ہر گفتگو چاہے مذہبی افراد کریں یا پاکستان کا لبرل کہلائے جانے والا طبقہ۔۔ معاشرے کو دو طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں ۔ ایک سنجیدہ موضوعات کو انتہائی سطحی گفتگو میں تبدیل کر دینا اور دوسرے ہر روز ایک نئی فالٹ لائن پیدا کر کے استعمار کے ہاتھ مضبوط کرنا۔ یہی سبب ہے کہ پاور سنٹر کو براہ راست چیلنج کرنے والے ملک میں زیر عتاب آتے ہیں مگر نئی سے نئی فالٹ لائن پیدا کرنے والے سوشل میڈیا انفلوئنسر محفوظ رہتے ہیں۔
عقل والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔۔۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply