بیسویں صدی کا ادبی منصور/ اقتدار جاوید

میں نے اردو کے بڑے شعرا کی ترتیب میں میر، غالب اور اقبال کے بعد یگانہ کو رکھا تو آدھے سے کہیں زیادہ
دوستوں نے اس ترتیب کو جیسے سنا ان سنا کر دیا۔بہت سوں نے حیرت کا اظہار کیا۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ یگانہ اردو غزل کا وہ مسنگ لنک ہے جسے آج اردو غزل کا قاری ناشناس نظروں سے دیکھتا ہے یا ایک خاص رویے نے اسے یگانہ ناشناس بنا دیا ہے۔ ایک دو نے گویا ایک خدشے کا اظہار کیا کہ فراق کہاں گئے۔اس کا جواب شمس الرحمان فاروقی کے پاس تھا کہ انہوں نے یگانہ کو کبھی معاف نہیں کیا۔یگانہ ایک بار “جلن” کو دانستہ یا نادانستہ مذکر کیا استعمال کر بیٹھے فاروقی لٹھ کر پیچھے ہو لیے۔
فاروقی معاف کرنے والوں میں سے تھے ہی نہیں۔یہ داغ سینے پر لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
یگانہ کے خطوط کو ترتیب دینے والے وسیم فرحت کارنجوی کو بھی معاف نہیں کیا اور اس کے بھی خوب لتے لیے۔الہ آبادیوں کا تو دل گردہ بڑا ہوتا ہے مگر اس کا اظہار فاروقی کبھی نہ کر سکے۔ان کا رویہ وہی تھا جو اہل ِلکھنو کا یگانہ سے تھا۔یگانہ اپنی طرز کے آدمی تھے۔ان کا اپنا رویہ معاشرے اور انسان سے مثالی تھا۔وہ وحدت الوجودی تھے اور وحدت الوجودی کو تو ہر شے میں تناسب اور محبت نظر آتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ افلاس کا شکار ضرور تھے تہی دست کبھی نہیں رہے۔ان کا دل اور کیسہ تجربات اور عشق سے بھرا پرا تھا۔
یگانہ کے ساتھ جو کچھ ہوا یا انہوں نے اپنے ساتھ جو کچھ کیا اس کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔لیکن سوال ان کی شاعری اور ان کے شعر کہنے اسلوب سے ہے کہ وہ اپنی شاعری اور اسلوب کے لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں۔
یگانہ عظیم آباد میں پیدا ہوئے یہیں بیدل نے جنم لیا تھا جو سبک ِہندی کا سرخیل تھا جس نے گلی سڑی اور ضعف کی ماری غزل میں نئی روح پھونکی۔سبکِ ہندی میں کلیم کاشانی، نظیری، عرفی، طالب آملی اور غنی کاشمیری شعرا شامل ہیں۔سولہویں اور سترہویں صدی تھی ہی سبک ِہندی کی اور یہ تمام اساتذہ اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔غالب کا تو بیدل سے ازلی رشتہ تھا تاہم یگانہ اور بیدل کا آپس میں اس طرح کا تعلق نہ تھا۔تعلق نہ ہونے کے باوجود وہ شعرِ بیدل کی طرز کے عاشق تھے جس میں پامال مضامین سے گریز پہلی صفت تھی۔وہ دونوں عظیم آبادی تھے۔ یگانہ لکھنو میں بھی اور غزل میں بھی نئی طرح کی آواز تھی جو اہل ِزبان کے ہاں ممنوع ہی تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز تک فارسی کا جادو بھی اتر چکا تھا اور فارسی سمجھنے والے بھی نہیں رہے تھے۔
اقبال کی فارسی زبان نے پڑھے لکھے طبقے کو اپنی گرفت میں تا ہنوز لے رکھا ہے۔مگر اقبال خود کہتے تھے کہ انہوں نے شاعری خاص مقاصد کے تحت کی جس کے لیے انہوں نظم کا رستہ اختیار کیا۔مگر یہ حقیقت تھی کہ فارسی گئے وقتوں کا قصہ بن چکی تھی اور اب یہ حال ہے کہ اب یہاں فارسی غزل متروک ہو چکی ہے۔دوسری طرف
اب یہاں نہ لکھنؤ کی نزاکت کا کام چلنے والا تھا اور نہ نیا اردو قارئین کا طبقہ دلی کی حزنیہ شاعری سے مطمئن ہونا تھا۔وہ کچھ نئے کا طلب گار تھا۔اسی صورت ِحال میں یگانہ کا ظہور ہوا اور اس کے شعر کی گونج پھیلنے لگی۔پہلی بار زندگی کی دوڑ دھوپ یگانہ کے یہاں ظہور پذیر ہوئی۔یہ اس معنی آفرینی سے الگ زبان و بیان تھا اسی لیے نیاز فتح پوری نے کہا کہ یگانہ کی غزل میں زندگی تصادم اور کشاکش سے بھری پڑی ہے۔
اہل ِلکھنو یوں تو پڑھے لکھے تھے اور گلستان اور بوستان ان کے گھروں میں پڑھائی جاتی تھیں بہو بیٹیاں بھی ان کتب سے آشنا تھیں مگر شعرآ نے اس سبک ِعراق سے کچھ حاصل نہ کیا۔ سبک ِعراقی کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ صفوی عہد تک جنوبی ایران ہی عراق تھا۔موجودہ عراق کی نقشہ بندی ہوئی تو عراق ِعجم اور عراق ِعرب کی اصطلاحات وضع ہوئیں۔اس سبک کا صدر مقام شیراز تھا۔یگانہ غالب اور اقبال بھی کو”کردار کا غازی” نہیں سمجھتے تھے وہ میر اور آتش کے عاشق تھے۔جس طرح ثاقب، آرزو اور فانی وغیرہ ” عاشق کا جنازہ” اٹھاتے تھے یہ یگانہ کو کہاں قبول ہونا تھا۔
یگانہ بیسویں صدی کا ادبی منصور ہے جس کو بے گناہ مصلوب کیا گیا وقت گزر گیا آج کوئی بھی نہیں مانتا کہ منصور جھوٹا تھا بعینیٖہ کوئی نہیں تسلیم کرتا کہ یگانہ اس سلوک کا مستحق تھا۔کسی مولانا نے جنازہ پڑھنے سے انکار کیا اور غسال نے غسل دینے سے۔کربلا میں قبر میں جگہ بھی نہ دی۔جنازے میں کل چھ آدمی شریک تھے۔ان کے جنازے میں کون شریک ہوتا کہ یگانہ نے خود لکھنو سکول آف تھاٹ کا جنازہ نکال دیا تھا۔یگانہ کی بیٹی نے ابوالکلام آزاد کو قبر کی درستی کی درخواست کی وہاں سے نہ جواب آنا تھا نہ آیا۔فاروقی کے نزدیک اس کی غلطی یہ تھی کہ اس نے جلن کو مذکر باندھا تھا اور بارِ دگر کہا جس تذکیر و تانیث کا علم ہو اس کی بات کیا کرنی۔اب ہم تو نہیں کہہ سکتے فاروقی کی کیا بات کرنی۔
اب اپنی روح ہے اور سیر ِعالم بالا
کنوئیں سے یوسف ِگم کردہ کارواں نکلا
اور امڈے گا دل ِزار جہاں تک چھیڑو
یہ بھی کیا کوئی خزانہ ہے کہ خالی ہو گا
ہوتا ہے بند ایک در کھلتے ہیں صد ہزار در
اپنی طرف سے شک نہ کر نیت ِکارساز میں
کالے کوسوں نظر آتی ہے عدم کی منزل
دوش ِاحباب پہ مردہ مرا بھاری ہو گا
شوق میں دامن ِیوسف کے اڑیں گے پرزے
دست ِگستاخ سے کیا دور ہے، یہ بھی ہو گا
بیگانہ وار ایک ہی رخ سے نہ دیکھیے
دنیا کے ہر مشاہدہ ِناگوار کو
ٹکرا کے دیکھیں تم کیا ہو ہم کیا
جیتے تو جیتے ہارے تو ہارے
کس کے دم کی روشنی زندان ِآب و گل میں ہے
کون سا تنہا نشیں وحدت سرائے دل میں ہے
سبکِ ہندی یا عبدالقادر بیدل کی پیروی
کہہ لیجیے ہماری اردو کی پچھلے پچاس سالوں کی غزل ایک طرح سے بیدل کی ہی فکری توسیع ہے کہ لکھنو والوں کی غزل اب تاریخ کے صفحات پر رہ گئی ہے۔
کوئی آدمی فرشتہ نہیں ہوتا اور نہ وہ سراسر گناہ گار ہوتا ہے کہ اس کی غلطیوں کو معاف ہی نہ کیا جائے۔یہ سب درست کہ مرزا مراد بیگ شیرازی دیباچہ نگار ” آیات وجدانی” خود یگانہ ہی ہیں۔مگر اس سے یگانہ کی شعری عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی کہ یگانہ یگانہ ہی ہے!

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply