سو بھید چُھپے ہیں منظر میں /ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

آپ قبرستان کے پاس سے گزر رہے ہیں، وہاں ایک اچھے حلیے والا شخص کھڑا قہقہے لگا رہا ہے۔
آپ کے ذہن میں کیا آیا؟
یہی کہ کیسا فضول انسان ہے، قبروں پہ کھڑا ہو کر زور زور سے ہنس رہا ہے۔
آپ نے یہ نہیں سوچا کہ ممکن ہے کسی صدمے سے اس کا دماغی توازن خراب ہو گیا ہو اور وہ ہنسنے رونے کا شعور کھو چکا ہو۔

آپ بس میں سفر کر رہے ہیں۔ ایک بزرگ سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہو کر سفر کر رہے ہیں۔ وہاں پاس ہی ایک نوجوان سیٹ پہ بیٹھا ہوا ہے لیکن اس نے اٹھ کر بزرگ کو سیٹ نہیں دی۔
آپ کے ذہن میں کیا آیا؟
کہ اس لڑکے میں انسانیت ہی نہیں، یہ بنیادی اخلاقیات سے ہی محروم ہے۔
آپ نے یہ نہیں سوچا کہ ممکن ہے وہ لڑکا خود بیمار ہو، ہسپتال سے واپس آ رہا ہو یا کسی وجہ سے بہت زیادہ تھکا ہوا ہو اور کھڑے ہونے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔ آپ نے بس ایک واقعہ دیکھا اور رائے قائم کر لی۔

آپ مسجد جاتے ہیں، ایک جوان بندہ سکون سے چلتا ہوا آتا ہے اور کرسی پہ بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔
آپ کے ذہن میں کیا آیا؟
کیسا بُرا مسلمان ہے، ٹھیک ٹھاک چلتا آیا اور بلاوجہ کرسی پہ بیٹھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی۔
آپ نے یہ نہیں سوچا کہ ممکن ہے اسے جوڑوں کا درد ہو، اس کا گھٹنہ فریکچر ہو، ٹانگ میں کوئی چوٹ ہو، پاؤں میں موچ ہو ۔۔جس کی وجہ سے وہ زمین پہ بیٹھنے کی تکلیف برداشت نہ کر سکتا ہو۔

وہیں مسجد میں ایک لڑکا پندرہ منٹ سے موبائل چلانے میں مگن ہے۔
آپ نے کیا محسوس کیا؟
یہی کہ کیسا فضول لڑکا ہے، مسجد آ کر بھی موبائل میں لگا ہوا ہے۔ ممکن ہے آپ اس کے والدین کی تربیت پہ بھی افسوس کر چکے ہوں۔
آپ نے یہ نہیں سوچا کہ ممکن ہے وہ موبائل پہ قرآن پاک پڑھ رہا ہو، کوئی حدیث دیکھ رہا ہو۔

بچوں کے سکول کا رزلٹ آیا۔ آپ نے ایک ہزار نمبر لینے والے کو قابل سمجھ لیا، پانچ سو نمبر لینے والے کو نالائق سمجھ لیا۔
آپ نے یہ نہیں سوچا کہ ممکن ہے ہزار نمبر لینے والے کا سکول اچھا ہو، گھر کا ماحول پڑھائی والا ہو۔ پانچ سو نمبر لینے والا غیر معیاری سکول میں پڑھتا ہو، سکول کے بعد نوکری کرتا ہو، گھر میں باپ کی گالیاں سنتا ہو، مار کھاتا ہو۔
آپ نے بس نمبر دیکھے اور اپنی رائے قائم کر لی۔

آپ نے دوسروں کو جانچنے میں اتنی جلدی کیسے کر دی؟ آپ نے ان پہ کوئی لیبل کیوں لگا دیا جب کہ آپ پوری حقیقت جانتے ہی نہیں تھے۔

آپ نے دوسروں کی نیتوں کے متعلق اندازے کیوں لگانے شروع کر دیے؟ آپ نے دوسروں کے اچھا برا ہونے کا فیصلہ کرنا کیوں شروع کر دیا؟
دوسروں کا ایمان کیوں ناپنا شروع کر دیا۔ یہ فیصلہ، یہ اختیار تو خدا کی طرف سے آپ کو دیا ہی نہیں گیا۔

نیتوں کا حال تو بس خدا جانتا ہے نا، اچھائی برائی کا فیصلہ تو بس وہی کر سکتا ہے۔ انسانوں کی کمیوں کوتاہیوں کا فیصلہ تو ان کے حالات اور معاملات جان کر کیا جا سکتا ہے تو ہم اتنی جلدی کیوں یہ فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔

کوئی مسجد سے جوتیاں اٹھا کر لے جا رہا ہو تو کیا ضروری ہے کہ اسے چور ہی سمجھا جائے؟
ممکن ہے اس نے خود ہی اضافی جوتیاں کسی وجہ سے لا کر وہاں رکھی ہوئی ہوں، جو اب واپس لے کر جا رہا ہو۔

کسی کے گھر جائیں اور وہ دن کو سو رہا ہو تو ضروری نہیں کہ وہ سست اور کاہل ہو۔ ممکن ہے اس نے رات نوکری کی ہو یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے رات جاگ کر کاٹی ہو۔

کوئی میزبان آپ کو صرف سادہ پانی پلا کر ٹرخا دیتا ہے تو ضروری نہیں اس کی مہمان نوازی پہ سوال اٹھائیں۔ ممکن ہے حالات کی سختی کی وجہ سے ٹھیک نظر آنے والے کے گھر میں بھی پیش کرنے کے لیے پانی کے سوا کچھ نہ ہو۔

کوئی آپ کے کال یا میسج کا جواب نہیں دے رہا تو ضروری نہیں وہ نخرے کر رہا ہو، آپ کی تضحیک کر رہا ہو۔ ممکن ہے وہ اپنے کسی معاملے میں اتنا الجھا ہوا ہو کہ کسی سے بات کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ ہو۔

کوئی خاتون بائیک چلا رہی ہو، رات کے وقت اکیلی سڑک پہ چل رہی ہو تو کیا ضروری ہے کہ اسے عجیب نظروں سے دیکھا جائے؟ اس کو خراب سمجھا جائے۔

ہم دوسروں کی مجبوریاں نہیں جانتے، ان کے حالات سے واقفیت نہیں رکھتے۔ ہم نے ان کی پریشانیاں نہیں دیکھیں۔ ہم ان کے متعلق رائے کیسے قائم کر سکتے ہیں؟

ہمارا حسنِ ظن کہاں چلا گیا ہے؟ ہماری مثبت سوچ کم کیوں ہو گئی ہے۔ ہم منفیت سے بھرے ہوئے کیوں ہو گئے ہیں۔ ہم دوسروں کو ذرا سی گنجائش دینے پہ بھی تیار کیوں نہیں۔

ہمیں دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو نظر آ رہا ہے اس کے پیچھے بہت سی ان دیکھی کہانیاں ہیں۔ ان کہانیوں سے واقف ہوئے بغیر صرف دیکھے ہوئے کی بنا پہ فیصلے نہیں کیے جا سکتے۔

julia rana solicitors

ہمیں دوسروں کی عزتِ نفس، ان کے احترام کا خیال رکھنا چاہیے۔ اپنے اندر بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ان کے لیے نفرت یا ناپسندیدگی نہیں پالنی چاہیے۔ یہ منفیت دوسروں سے ہمارے تعلقات تو خراب کرے گی ہی، ہماری خوشیوں کو بھی گہنا دے گی۔ ہمارا سکون برباد کر دے گی کہ ہمیں ہر انسان ہی برا لگنے لگے گا۔ ہر فرد میں بس خامیاں ہی نظر آنے لگیں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply