عمر کے اس آخری پڑاؤ میں اپنے شجر سائیہ دار تلے سانس لینا یقیناً نعمت خداوندی کہ بے شک اولاد اللہ تعالیٰ کا بیش بہا تحفہ اور اولاد سعادت مند ہو تو کیا ہی کہنے .
زندگی کسی کی آسان نہیں ہوتی بہت کچھ جھیلنا، بھوگنا اور دل کو مارنا تو زندگی کی شرطِ اولین . جوانی کی خوبی یہ ہے کہ قوی مضبوط ہوتے ہیں سو جسم کو مشقت اور اعصابی نظام میں دھچکے کو جھیلنے کی قوت ہوتی ہے. جوانی تو عمرِ فانی کا وہ دور کہ بندہ اگر ٹھان لے تو پہاڑوں کو بھی تسخیر کر سکتا ہے .
اس احقر پر ذات باری تعالیٰ کا احسانِ عظیم کہ مجھ پر جو بھی ابتلا و مصیبت پڑی وہ جوانی ہی میں آئی. میں نے خاصی مشکل زندگی گزاری ہے مگر یہ میرا اپنا انتخاب تھا کہ سوجھانے، بتانے والوں نے بہت سارے شارٹ کٹ اور خوش کن مناظر بتائے بھی اور دیکھائے بھی. پر ان پر عمل پیرا ہونے سے انسانیت رسوا ہو جاتی اور انسان کا مول فقط انسانیت ہی تو ہے ورنہ اس خاک کے پتلے میں بھلا اور دھرا کیا ہے؟
میں ایک خوش باش اور مطمئن ریٹائرڈ بندہ ہوں. میرا بچپن ویسا ہی تھا جیسے غریب بچوں کا ہوتا ہے، سسکتا بلکتا محرومیوں میں کلستا ہوا. اُس دور کی ایک اچھی روایت یہ تھی کہ اس وقت دکھاوا اور نمائش، وبائی و متعدی نہ تھے. سو تعیشات کی عدم دستیابی، غیر مراعات شدہ طبقے کو نہ تو نفسیاتی مریض بناتی اور نہ ہی تشدد پر ابھارتی تھی . سادگی اور صبر کا چلن عام تھا، کھانے کو روکھا سوکھا اور تن ڈھانپنے بھر کپڑا کافی خیال کیا جاتا . اس دور میں انسان بھیڑ چال کا شکار نہ تھا اور نہ ہی ہوس کی دلدل میں گردن گردن تک اُلل رہا تھا .
میں حیدر علی اپنے ماں باپ کی ساتویں اولاد تھا پر لکی سیون ہرگز نہیں. ابا لالہ موسیٰ میں ریلوے میں کانٹا بدلنے کی ڈیوٹی پر مامور تھے. ہم سب ریلوے لائن کے قریب بوسیدہ ریلوے کواٹر کے تنگ دست مکین جو سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوششوں میں لیر و لیر ہوئے جاتے تھے . ہم تین بہنیں اور چار بھائی ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ ہی کھیل کر بڑے ہوگئے. ہمیں مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر تھی. ریلوے کالونی میں موجود ٹاٹ اسکول میں پڑھتے اور بابو صاحب بننے کا خواب دیکھتے دیکھتے میں نے میٹرک پاس کر لیا. اماں ابا میں ہم آہنگی تو نہ تھی پر صد شکر کے محبت تھی. اس لیے ہمارا بچپن محلے کے دیگر بچوں کی طرح جھپٹتا جھلستا نہ تھا. کچھ اماں محنتی بھی بہت کہ ان کے نزدیک چیزوں کا زیاں گویا گناہ کبیرہ تھا. ان کے پاس بے کار سے بے کار چیز کا بھی مصرف ہوتا اور وہ صفائی ستھرائی اور چیزوں کو برتنے کے فن میں طاق تھیں.
میری تینوں بہنوں نے چھٹی، آٹھویں سے زیادہ نہیں پڑھا. اماں نے سولہواں برس لگتے لگتے تینوں کو بیاہ دیا. رہ گئے میرے تینوں بڑے بھائی تو وہ بھی پڑھنے کے شوقین نہ تھے. مشکل سے میٹرک پاس کر کے ایک موٹر میکینک بن گیا، ایک نے درزی کی صحبت اختیار کی اور تیسرا پرچون کی دکان پر سامان تولنے جت گیا. بس ایک مجھے بابو بننے کا جنون تھا اور میں نے اپنے خوابوں کی ہمسری کے لیے جان لڑا دی .
انٹر کے بعد میں لاہور آ گیا کچھ دن امی کے دور پار کے رشتے کے بھائی کے گھر رہا پر جب ممانی کے پیشانی پر بل بہت زیادہ اکٹھے ہونے لگے تو میں نے وہاں سے اپنے آپ کو گھٹا لینے میں ہی عافیت جانی.
یہاں لاہور آ کر ہر طرح کا کام کیا. کیا پنکچر لگانا اور کیا بیراگری. کبھی اسٹیشن پر سوتا تو کبھی کسی دوکان کے تھڑے پر. لاہور اللہ کے ولی کا شہر ہے اس لیے جب کہیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملتا تب بھی داتا دربار سے پیٹ کی آگ بجھ ہی جاتی تھی. قلق مجھے اپنے وقت کے زیاں کا تھا کہ بی.کوم کے داخلے کی آخری تاریخیں سر پر تھیں اور میں اس سوچ سے لرزاں کہ لالہ موسیٰ واپس چلا جائے کہ معجزہ ہو گیا. بات نہایت معمولی بلکہ فلمی سی ہے. آپ نے بھی فلموں میں دیکھا ہو گا کہ گاؤں سے آیا ہوا مفلوک الحال ہیرو در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور اچانک کوئی حادثہ اس کی تقدیر بدل دیتا ہے. بس میرے ساتھ بھی اس حبس بھری شام عین مین یہی ہوا.
اس دن میں سبزی منڈی میں سبزیاں اور پھل کی بوریاں ڈھو ڈھو کر لوگوں کی گاڑیوں تک پہچانے کی مزدوری کر رہا تھا کہ یہ مہربان مل گئے. ان کا سامان ان کی گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر وہیں کھڑا پسینہ ہی پونچھ رہا تھا کہ زمین پر گرے ہوئے بٹوے پر نظر پڑی. تب تک صاحب اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوچکے تھے. میں گاڑی کے پیچھے بے تحاشا بھاگا، شکر کے رش کی وجہ سے گاڑی کی رفتار زیادہ نہ تھی، کچھ لوگوں نے بھی مجھے گاڑی کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے دیکھ کر انہیں رکنے کے اشارے کیے یا شاید انہوں نے رئیر مرر میں دیکھا. بہرحال گاڑی رکی. گاڑی کا روکنا تھا کہ میری رکی ہوئی زندگی چل پڑی. میرے متعلق جان کر وہ مجھے اپنے ساتھ اپنےگھر لے آئے. میں نے دو راتیں ان کے گھر کی چھت پر کاٹھ کباڑ سے بھرے اسٹور میں گزاری. پھر رضوان صاحب نے اپنی کتابوں کی دکان جو مین بازار میں تھی اسی میں بیک وقت میرا روزگار اور سونے کا ٹھکانہ مقرر کر دیا. یہ دراصل ریٹائرڈ پروفیسر تھے اور اب کتابوں کی یہ دکان ان کا شوق اور معاش. میری فلمی کہانی بھی بس یہیں تک.
آگے بہت کچھ ہوا مگر وہ سب نادان دل کی نادانی تھی.
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے؟
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاء چاند
میں کالج کے بعد دکان سنبھلتا اور رات میں دکان بند کرنے کے بعد اپنی پڑھائی .اس طرح میں نے بی. کام کیا اور نتیجہ نکلنے کے بعد سر رضوان ہی کی پر زور سفارش پر محکمہ شماریات میں نوکری بھی لگ گئی . اب میں بھاٹی گیٹ میں ساجھے داری پر کرائے کے گھر رہنے لگا تھا اور ہر سنیچر کی شام سر کے ساتھ ان کی دکان پر بسر ہوتی. پرائیویٹ ایم. کام بھی کیا. انہیں دنوں محکمے میں نیا نیا کمپیوٹر آیا تھا، سو میری لگن نے مجھے وہ بھی سیکھنے پر اکسایا اور میں اپنی قابلیت بڑھاتا چلا گیا . میں کہ چاند کا تمنائی تھا مگر چکور کے یہ نصیب کہاں کہ وہ چاند کے چرن چھو سکے؟
نری دیوانگی ہی تھی، پر یہ نابکار دل بھی کبھی عقل کے کہے میں آیا ہے؟
میں تو شعوری طور پر اسے سوچنے سے بھی گریزاں کہ طبقاتی فرق تو اپنی جگہ پر میرے شانے تو احسانات کے بوجھ سے بوجھل تھے. میں بھلا رضوان سر کی نواسی کا نام بھی کیسے لے سکتا تھا؟
کیسے اسے آنکھ بھر کر دیکھ سکتا تھا؟
عشق کے بھی اپنے پینترے، جانے کب وہ ماہ جبین میرے دل کی مکین ہو کر مجھے دونیم کر گئ.
اماں ابا کے گزرنے کے بعد میرا لالہ موسیٰ بہت ہی کم جانا ہوتا. پانچوں بھائی بہن وہیں تھے بس بھائی شبیر کراچی میں کسی بڑے بوتیک کے ٹیلر ماسٹر بن گئے تھے. معاشی طور پر میرے کم پڑھے لکھے بھائی مجھ سے بہتر کما کھا رہے تھے مگر میں اپنی کم آمدنی سے بھی مطمئن کہ میری سوتی جاگتی آنکھوں کے خواب پورے ہوئے تھے. بس دلِ ناصبور کی ایک ہی حسرت تھی جسے تا حیات، حسرت ہی رہنا تھا.
عید کے دن جب سر رضوان کے گھر اس کی منگنی کی میٹھائی کھانی پڑی تو دل ایسا وحشت زدہ ہوا کہ میں نے اپنے کچھ جوڑے تھیلے میں ڈالے اور سیدھے ریلوے اسٹیشن پہنچا اور ہوش مجھے کراچی کے کینٹ اسٹیشن پر آیا. یقیناً سر رضوان نے مجھے ڈھونڈا ہو گا کہ وہ بہت اعلیٰ ظرف اور دیالو تھے مگر میں نے پیچھے کوئی نشان چھوڑ ہی نہیں تھا.
کراچی بڑا قلندر شہر ہے یہ سب کے بھید اور زخم اپنے سمندر سمان فراخ سینے میں سمو لیتا ہے. تین مہینے تو میں بس سمندر اور عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے درمیان بھٹکتا رہا. بھائی بشیر نے دلاسے کا مرہم رکھا اور بھرجائی بھی سلوک والی تھی. میں نے بھی کام ڈھونڈنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا. ایم کام کی ڈگری سے زیادہ میری کمپیوٹر کی اسکل کام آئی اور گل احمد فیکٹری میں مجھے کمپیوٹر سیکشن میں نوکری مل گئی. گو کام نیا تھا مگر سیکھنے کی دھن نے مجھے یہاں بھی نمایاں رکھا.
دو سال بعد بھائی بشیر کی سالی سائرہ سے میری شادی ہو گئی اور ہمارے تین بچے ہوئے. تینوں بچوں کو ہم لوگوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھایا لکھایا اور اب تینوں ہی اپنی اپنی گھر گرہستی سنبھال رہے ہیں.
میں پچھلے چار سالوں سے اپنے بڑے بیٹے رضوان (جی میں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام سر کے نام پر ہی رکھا ہے) کہ اصرار پر اسی کے ساتھ اس کے گھر میں رہتا ہوں. چھوٹا ایم. ایس کرکے پردیس، آسٹریلیا جا بسا اور بیٹی اپنے خاندان کے ساتھ صحرا نشین یعنی جدہ میں ہے.
سائرہ کو حج کا بڑا ارمان تھا سو مالک نے اس کی یہ آرزو بھی پوری کی اور تین سال قبل ہم دونوں اس فریضے سے بھی فارغ ہوئے. وہ جیسے اسی کی منتظر تھی، حج سے واپسی کے ٹھیک چوتھے مہینے رات اچھی بھلی سوئی مگر کبھی نہ اٹھنے کے لیے. اس کی جدائی مجھ میں ایک خلا تو ضرور چھوڑ گئ مگر زندگی کے لیے شاید صرف سانس اور روٹی ہی ضروری کہ میں آس تو برسوں پہلے لاہور سے چلتے ہوئے وہیں پلٹ فارم پر چھوڑ آیا تھا، مگر دیکھ لو پھر بھی سانس لیتا ہوا چونسٹھ سالہ زندہ وجود ہوں.
پچھلے تین چار ماہ سے گھر کا ماحول بہت بدلا ہوا ہے، ایک تناؤ کی فضا ہے. بہو فاریہ کا موڈ بھی بہت خراب رہتا ہے سو بات بے بات دونوں پوتوں کی شامت آئی رہتی ہے. رضوان اور فاریہ کے تیرہ سالہ ازدواجی سفر میں، میں نے گھر کی یہ مسموم فضا پہلی بار دیکھی ہے. ایسا نہیں کہ یہ لوگ لڑتے نہ تھے. نہیں صاحب توبہ کیجیے لڑتے تھے اور خوب جم کر لڑتے تھے. دونوں منہ پھلائے روٹھے روٹھے تین چار دن گھومتے پھر کوئی ایک فریق دوسرے کو منا لیتا اور یہ پھر سے شیر و شکر ہوجاتے.
میں یا سائرہ کبھی کسی بچے کے جھگڑے میں نہیں بولتے تھے، سائرہ اگر کبھی سمجھاتی بھی تو صرف بیٹوں کو. بہوؤں کو اس نے کبھی ایک لفظ تک نہ کہا، نہ ہی شکایت نہ ہی کوئی ہدایت . گھر کی گمبھیرتا بتاتی تھی کہ اس دفعہ معاملہ کچھ اور ہی ہے. ان کے درمیان لڑائی جھگڑا یا منہ ماری نہ تھی بلکہ ایک جامد لاتعلقی اور کٹیلی سرد مہری. حالاں کہ فاریہ اور رضوان ایک خوش باش اور محبتی جوڑا تھے. جن کے مابین محبت اور ہم آہنگی تو تھی ہی، ساتھ احترام اور برداشت کا سبھاؤ بھی.
میں نے نوٹ کیا کہ رضوان رات گئے تک ڈرائینگ روم میں صوفے پر لیٹا فون پر مصروفِ گفتگو رہتا ہے. ایک آدھ دفعہ جب میں تہجد کے لیے اٹھا تو ڈرائینگ روم کی بتی جلتی دیکھ اس طرف گیا بھی. وہاں رضوان کو موجود پا کر اسے ٹوکا مگر اس نے کام کا بہانہ بنا کر مجھے ٹال دیا. دفتر سے گھر واپس وہ وقت پر ہی آتا تھا مگر وہ بیڈ روم میں مقید اور فاریہ خود کو گھر کے لایانی کاموں میں مصروف رکھتی یا پھر معصوم پوتوں کی شامت آ جاتی. اب ان کا پہلے جیسا آپس کا ہنسنا بولنا یا ہماہمی قصہ پارینہ .
میں تہجد کے لیے اٹھا تو ڈرائینگ روم کی بتی روشن دیکھ کر دبے پاؤں ادھر کا رخ کیا. دروازے پر خاموشی سے کھڑے ہو کر دو تین منٹ رضوان کی گفتگو سنی اور پھر اندر داخل ہوا. رضوان صوفے پر دراز تھا اور ٹیلی فون کا کمیرہ آن، اسکرین پر ایک خوش شکل خاتون تھیں. جیسے ہی میری شبیہ اسکرین پر آئی رضوان ہڑبڑا کر اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے فون پھسل کر قالین پر گر گیا. میں نے فون اٹھا کر آف کیا اور اسے سائڈ ٹبیل پر رکھ کر رضوان کے برابر بیٹھ گیا.
میں بالکل چپ تھا، رضوان نے ہکلاتے ہوئے وضاحت کی، ابا بس ایسے ہی، جانے کیسے دوستی ہو گئی؟ یقین کیجیے کچھ بھی سریس نہیں.
سریس نہیں رضوان!!!!
یہ تو بہت بہت سریس ہے کہ تم رات کے اس پہر اپنے بیڈ روم میں فاریہ کے ساتھ ہونے کے بجائے، یہاں لیٹ کر ایک انجان عورت کے ساتھ باتیں مٹھار رہے ہو. یہ تو بد کرداری اور بے حیائی ہے رضوان . تمہیں فاریہ سے کیا شکایت ہے؟ کیا اس کے کردار میں کوئی جھول ہے؟ کیا وہ تمہارا اور بچوں کا خیال نہیں رکھتی؟
میں گواہ ہوں کہ وہ نہ تند خو اور نہ ہی بد لحاظ.
پھر یہ سب کیا ہے؟؟
ابا ہمارے خیالات اور مشاغل ایک جیسے نہیں. رضوان منمنایا آیا.
تم پر یہ انکشاف اب تیرہ سال بعد ہوا ہے!!
میں نے تیز لہجے میں پوچھا. ویسے بھی یہ کوئی ایسا گمبھیر مسئلہ تو نہیں. تم دونوں نہایت خوش اسلوبی سے اس سلسلے میں کوئی کامن گراؤنڈ ڈھونڈ سکتے ہو. فاریہ سمجھ دار ہے، تم سے محبت کرتی ہے، تمہارے دو بچوں کی ماں ہے. تمہارا ایک پرسکون گھر ہے بیٹا، کیوں اسے آشوب کے نذر کرنے پر تلے ہوئے ہو. تنکا تنکا جمع کیے آشیانے کو بکھیرنے پر کیوں مائل ہو. ہوش کے ناخن لو رضوان.
آپ نہیں جانتے ابا فاریہ میری ایک نہیں سنتی اور بہت ضدی بھی ہے. اماں آپ سے کتنی محبت کرتی تھیں اور آپ کی بےجا بھی مان لیا کرتی تھیں.
تم کیا سمجھتے ہو میں اور تمہاری اماں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے؟
ہاں اماں تو آپ سے بہت محبت کرتی تھیں.
غلط فہمی ہے تمہاری.
میں نے آہستگی سے جواب دیا.
ہم دونوں کے درمیان محبت تو سرے سے تھی ہی نہیں البتہ احترام اور لحاظ کا رشتہ اور نکاح کے پاکیزہ بولوں کی حرمت ضرور تھی.
میں شادی سے پہلے سے لاحاصل کے آزار میں مبتلا تھا اور شادی کے ہفتے کے اندر اندر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ سائرہ کے پاس میرے لیے سب کچھ ہے ایک دل کے سوا. ذرا سی کھوج پڑتال سے میں اس کے دل کے متروکہ مکین سے بھی آگاہ ہو چکا تھا مگر نہ میں نے اس سے پوچھ تاچھ کی اور نہ ہی اس جنت مکانی نے کبھی میری خالی آنکھوں پر سوال اٹھایا .
بیٹا جب مقدر نے آپ کو ہمسفر بنا دیا ہے تو ایک دوسرے کے لیے جوتے میں آیا کنکر مت بنو. بے شک زندگی محبت کے بغیر ایسی ہی ہے جیسے روٹی بنا سالن. مگر بچے! سادی روٹی سے بھی پیٹ تو بھر ہی جاتا ہے نا. زوج کا رشتہ جہاں آپ کا ایمان مکمل کرتا ہے وہیں نفس کو پاکیزگی عطا کرنے کا سبب بھی. رضوان ادھر اُدھر منہ مار کر اپنے ایمان میں سیندھ مت لگاؤ . بنی نوعِ انسان کا ایک اہم فریضہ نسلِ نو کا تسلسل . رب العزت نے تمہیں اولاد سے نوازا ہے اور اس ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ تم دونوں باہمی تعاون اور کوشش سے ان بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد بناؤ، بندگی کے آداب سکھاؤ. یہ اسی وقت ممکن جب تم دونوں ایک ہی پیج پر رہتے ہوئے بچوں کی پرورش کرو.
تمہیں پتہ ہے رضوان جب ہم مدینے میں تھے تو ایک رات تمہاری ماں نے مجھ سے کہا کہ میرے سینے پر بوجھ دھرا ہے اور میں ایک اعتراف کرنا چاہتی ہوں. میں نے کہا میں وہ بات شادی کے ابتدائی دنوں ہی سے جانتا ہوں سائرہ، وہ حیران رہ گئ تھی .
کیسے؟
اس نے سراسیمہ ہو کر پوچھا.
میں کہا بالکل ویسے ہی جیسے تم میرے راز سے آشنا ہو، میں بھی تمہارے درد سے باخبر تھا. کیا اس حقیقت کو جان لینے سے کوئی فرق پڑتا ہے سائرہ؟
اس رشتے میں بندھنے کے بعد نہ تم نے پلٹ کر دیکھا اور نہ ہی کبھی میں ماضی میں بھٹکا. اہم یہ ہے کہ ہم دونوں نے نہایت دیانت داری اور عزت کے ساتھ نہ صرف اس رشتے کو نبھایا بلکہ اپنی پوری توانائی ان بچوں کو پروان چڑھانے پر لگا دی. بس یہ ہی کافی ہے سائرہ باقی سب غیر ضروری.

بیٹا تم سمجھ دار ہو، نیک و بد کے فرق سے کما حقہ واقف بھی. مجھے نہیں معلوم کہ تم کس کمزور لمحے میں مغلوب ہوئے کہ دنیا تو ہے ہی ترغیبات کا گڑھ. آج یہ ہے کل کوئی اور بھی ہو سکتی ہے. کہاں تک اور کس کس کے پیچھے بھاگو گے؟
یہ چور دروازے کب تک رضوان ؟
اس دامِ آرزو سے اپنے آپ کو جلد از جلد آزاد کر والو بیٹا ورنہ انجام بہت ہی عبرت ناک ہو گا. یاد رکھنے کی بات صرف اتنی کہ پاک وہی جس کی تنہائی پاکیزہ . اُس شہنشاہ کی عدالت سے مفر نہیں، اب یہ تم پر منحصر کہ تم اپنے گریبان کو کتنے ہاتھوں سے بچاتے ہو. اپنے ہمیش کے گھر کے لیے اُس کی آسودہ جنت کا انتخاب کرتے ہو یا عزلت کے طوق کا؟
بس اب میں اور کچھ نہیں کہوں گا کہ
Your choice would be your destination. ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں