انگلستان میں گرمیوں کا موسم جہاں غسل آفتابی، باربی کیو اور شادیوں کا ہوتا ہے، وہیں بارش اور سردی سے محفوظ یہ موسم تعمیراتی کاموں کا بھی “سیزن” مانا جاتا ہے۔ اس موسم میں لوگ اپنے گھروں میں بہتری یا تبدیلی کا سب کام کرتے ہیں کہ موسم کام کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔
مجھے اپنے گھر میں کچھ تعمیراتی کام کرانا تھا اور موسم اور بنک میں موجود بچت ایمان کو بار بار ڈگمگا رہی تھی۔ یاد رہے کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مانند کم از کم اجرت کے اصول کی وجہ سے تعمیری و تخریبی کام اس قدر مہنگا پڑتا ہے کہ قریب ہر شخص ہی زیادہ تر کام خود کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ سو یہ لکھاری بھی وکالت کے بنیادی پیشے کے علاوہ مالی، رنگ ساز، پلمبر جیسے کئی کاموں پر بھی عطائی حیثیت کی صلاحیت کا حامل ہے۔ پھر بھی کئی کام ایسے ہیں جہاں آپ کو ایک ماہر کی ضرورت پڑتی ہے وگرنہ انجام وہی ہوتا ہے جو اپنا ویزہ کیس وکیل کے بجائے کسی ایجنٹ کو دینے سے ہوتا ہے۔
اب جو کسی ماہر کی تلاش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں آپ اپنے کام کی نوعیت لکھیے اور متعلقہ ماہر آپ کو اپنی فیس کے ساتھ “کوٹیشن” دے دے گا۔ ایک صاحب کہ جن کی بیان کی کوٹیشن جیب اور دل پہ بھاری نہ تھی، بلکہ کافی ہلکی تھی، موقع معائنہ کیلئے تشریف لائے۔ پہلے پانچ منٹ میں ہی اندازہ ہو گیا کہ صاحب “جپسی کمیونٹی” سے تعلق رکھتے ہیں۔ رومانی یا جپسی لفظ ایسا ہے کہ سنتے ہی اکثر لوگ بدک جاتے ہیں۔
ہزاروں سال قبل، جب شمال سے لوہا ہاتھ میں لیے حملہ آور ہندوستان میں وارد ہوئے تو پنجاب کا ایک حصّہ جان بچانے کو باہر کو بھاگا۔ ہزاروں میل کا سفر کر کے یہ لوگ یورپ میں پہنچے مگر راندہ درگاہ ٹھہرے۔ ان کو مجرم پیشہ تصور کیا گیا اور عوام اور ریاست کی جانب سے ہر طرح کے تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید یہی یورپی تعصبات تھے کہ جب انگریز ہمارے خطے کا حاکم بنا تو بنجاروں، پکھی واسوں وغیرہ کو جرائم پیشہ میں شمار کیا گیا اور ان سے ہر طرح کا تعصب روا رکھا گیا۔ اکیسویں صدی میں گرچہ وقت اس قدر بدلا ہے کہ مذہبی آزادی، ہم جنس پرستی اور جنس کے متعلق شناخت کی آزادی جیسے تصورات سماج اور قانون میں راسخ ہو چکے، کچھ تعصبات ابھی بھی سماج کا حصہ ہیں۔ جپسی اب بھی چوری چکاری، جسم فروشی یا دیگر جرائم سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں اور تعصب کا سامنا کرتے ہیں۔
میری بیگم کے چہرے پہ تو تفکر تھا، البتہ بطور وکیل وہ شاید اپنے خاوند سے بھی کھل کر اپنے خدشات کا اظپار نہ کر سکی سو بس پوچھا کہ “تمھیں یقین ہے کہ یہ ایسا کام کر لیں گے؟” میرا مقدمہ تھا کہ اگر کوئی جپسی روایتی تصورات کے برعکس وہ کام کر رہا ہے جو سماج کے نام نہاد رواج کے مطابق ہے، تو ہمیں باقیوں پہ اسے ترجیح دینا چاہیے۔ بیگم نے اتفاق کرتے ہوئے یہ اضافہ ضروری سمجھا کہ “ویسے بھی یہ تمھارے کزن ہیں سو تمھارا کام اپنا سمجھ کر کریں گے”۔ اس نے شاید قیمت میں وہ واضح فرق نظر انداز کیا جو میرے “پاکستانی رشتہ داروں” سے بھی کم تھا۔
اگلی سویر میرے گھر کا آنگن سات سے آٹھ جپسی مرد و خواتین سے بھرا ہوا تھا جو تندہی سے اپنا کام کر رہے تھے۔ بیگم کے “احساس تحفظ” کیلئے میں نے دفتر کے بجائے تین دن گھر سے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے پانچ دن مجھے یوں لگا جیسے میں پنجاب کے کسی اپنے گاوں میں ہوں۔ منڈے کام کر رہے، گالیاں اور چیخ و پکار چل رہی، ہاسے بکھر رہے اور چاچیاں مامیاں سگریٹ کا کش لگاتے باقاعدہ مجھے پوچھ رہی تھیں کہ یہ گوری تیرا خیال تو رکھتی ہے نا؟ ہائے ہائے ویزے کی وجہ سے منڈوں کو ان “گریگرز” سے ویاہ کرنا پڑتا ہے۔ تو وکیل ہے؟ ہائے تو تجھے کیا مجبوری تھی ایسی شادی کی؟ محبت؟ اسکے بعد میری ان چاچیوں اور مامیوں نے جو فحش تبصرے فرمائے، وہ مکالمہ کی ادارتی پالیسی بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
میرے “ریگولر قارئین” آگاہ ہیں کہ میرے پاس ایک جرمن شیفرڈ، رسٹی بھی ہے۔ معصوم اور پیار کرنے والا رسٹی اپنی جسامت و ہئیت کے باوجود ہر اجنبی کا دل موہ لیتا ہے، بالکل بھی خطرناک نپیں ہے۔ پہلے ہی دن، کچھ گھنٹوں بعد سوچا کہ رسٹی کو گھر کے پیچھے موجود دریا کنارے ٹہلا لوں۔ اب جو دروازہ کھولا تو فقط رسٹی کا سر دیکھتے ہی ایسی آہ وفغاں بلند ہوئی کہ بلوے کا گماں گزرا۔ یکایک قریب دس جپسی بجلی کے کوندے کی سرعت کے ساتھ میرے صحن سے باہر مین سڑک پر تھے۔ ایک چاچی البتہ اپنی بھدی ٹانگوں اور خوبصورت سکرٹ سمیت راہ ہی میں یوں زمیں بوس تھی کہ خوبصورت سکرٹ پوشیدہ اور بھدی ٹانگیں اور بھاری سرین عریاں تھے۔ لیٹے لیٹے چاچی نے اپنی زبان میں کچھ ایسے الفاظ کہے کہ بدن بولی نے ان کو گالیاں ہی سنایا۔ فوراًہونق رسٹی کو واپس گھر میں بند کیا اور بمشکل چاچی کو اٹھایا جس نے ایک ہاتھ دل پہ رکھ کر، ڈاگ کہہ کر بقیہ جملہ روانی میں یوں ادا کیا کہ مزید گالی کا سواد آیا۔ چاچی اور “کزنز” سے معافی مانگ کر ان کو اس وعدے پہ واپس گھر لایا کہ جان تو جا سکتی ہے پر رسٹی واپس نہیں آئے گا۔
بعد ازاں جب اس “سانحے” پر ہنستے ہوئے بیگم سے بات کر رہا تھا کہ بھلا کتے سے بھی کوئی اتنا ڈرتا ہے؟ تو جوانا نے کچھ ایسا کہا کہ ہنسی رک گئی۔ اس نے کہا تمھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے پیچھے ماضی ہے۔ جپسیز سے نفرت انگیز تعصب رکھنے والے یورپی انکو خوفزدہ کرنے یا لطف اٹھانے کو ان پہ اپنے کتے چھوڑ دیتے تھے۔ چنانچہ یہ خوف انکی سرشت کا حصہ بن گیا ہے۔ کچھ ریسرچ کے باوجود میں یہ تو طے نہیں کر پایا مگر یہ سوال ضرور موجود ہے کہ کیا خوف “جین” کا حصہ بن جاتا ہے اور نسلوں میں سفر کرتا ہے؟

اگر واقعی تعصبات اور خوف نسلوں کی وراثت بن جاتے ہیں تو سوچتا ہوں سو سال بعد میرے وطن میں کیا حالت ہو گی؟ غیر مسلم کوئی بھی داڑھی والا دیکھ کر ڈر جایا کریں گے، احمدی بکرے کو دیکھتے شاید ویسے ہی بھاگ کھڑے ہوں جیسے جپسی میرے کتے کو دیکھ کر بھاگے۔ اور تو اور بہت سے مسلمان بھی کہیں کھلے میں قرآن کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جائیں گے کہ اس کی توہین کا مدعا ان پہ نا پڑ جائے۔ سو سال بعد شاید میرے وطن میں ہر شخص مذہب کے متعلق گفتگو بند کر چکا ہو گا کہ جانے کون سا لفظ توہین بن جائے۔ لوگ فوجی وردی دیکھتے ہی ازار بند کھول لیا کریں گے اور سرعام ہنسنا مکروہ ہو چکا ہو گا۔ کاش ہم جانتے کہ ہمارے آج کے اعمال کیسے مستقبل کی نسلوں کا جینیاتی خوف بن جاتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں