جان مدینہ کی کتاب جینیٹک انفرنو انسانی رویے کی حیاتیاتی بنیاد کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے. انہوں نے یہ کتاب لکھتے وقت دانتے کی دی ڈیوائن کامیڈی کو بطور آرگنائزنگ فریم ورک استعمال کیا ہے ۔دی ڈیوائن کامیڈی میں جن سات مہلک گناہوں کا ذکر ہے جان مدینہ نے جینز اور دماغ سے متعلق دور حاضر کے علم کی روشنی میں ان گناہوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سات گناہ ہوس، لالچ، بسیار خوری یا پیٹو پن، کاہلی، غصہ، حسد، اور تکبر یا غرور ہیں۔ ماہرین حیاتیات اور جینز، دماغ، اور ماحول اور انسانی رویے، برتاؤ، یا کردار میں تعلق سے دلچسپی رکھنے والے احباب ہی نہیں صحافی، دانشور، استاد، کاروباری حضرات، اور والدین بھی اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
میں نے “ایک لالچی دادے کی کہانی” اسی کتاب سے لی تھی۔اس کتاب میں اور بھی دلچسپ کہانیاں ہیں، لیکن میرا مقصد آپ کو کہانیاں سنانا نہیں بلکہ آگہی دینا ہے کہ کیسے والدین سے ورثے میں ملنے والے جینز ماحول کی طرح ہمارے جذبات، احساسات، عادات، اور اخلاق و کردارکی تشکیل کرتے یا ان پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
اکثر پاکستانیوں کے رویے سے صاف ظاہر ہے کو وہ زیادہ وقت تپتے یا تتّے توے پر بیٹھے رہتے ہیں۔ ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہو کر آپے بلکہ جامے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس پوسٹ میں میں صرف ایک گناہ “غصے” اور جینز سے اس کے تعلق پر روشنی ڈالوں گا۔ پاکستانیوں کے غصے کی ایک وجہ تو اس ماحول کے اثرات ہیں جس میں وہ رہتے ہیں، ممکن ہے دوسری وجہ ان کو ماں باپ سے ورثے میں ملنے والے جینز ہوں۔
ہمارے دماغ اور جسم میں ایک کیمیکل نائٹرک آکسائڈ ہوتا ہے۔نائٹرک آکسائڈ کا حیاتیاتی کردار حیران کن ہے۔ یہ ہمارے دماغ کے افعال، خون کی گردش، جسم کے دفاعی نظام، اورخلیات کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس کے اہم ترین افعال درج ذیل ہیں۔
سیکھنے، یادداشت، اور سونے جاگنے کے چکر کو کنٹرول کرنا
جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا
کھانے پینے کی مقدار کا تعین کرنا
ہارمونل ریگولیشن اور نیورو ٹرانسمیٹر ریلیز کے عمل میں معاونت
خون کی نالوں کو ڈھیلا کرکے خون کے بہاؤ میں اضافہ کرنا
جرثوموں، وائرسوں، اور ٹیومر یا رسولی کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرنا
جین ٹرانسکرپشن کو کنٹرول کرنا
توانائی کی سپلائی اور فضلے کے اخراج میں خلیات کی معاونت
کسی جین کے کردار کا تعین کرنے کے لئے سائنسدان ایک وقت میں صرف ایک جین کو غیرفعال کرکے جاندار میں اس کا ردِ عمل دیکھتے ہیں۔اس تجربے میں چوہے استعمال کئے گئے۔دماغ کے وہ حصّے جن کا تعلق انسان کے جارحانہ رویے سے ہے وہاں بھی نائٹرک آکسائڈ موجود ہوتا ہے۔ اس وجہ سے سائنسدانوں کو دماغ میں نیورونل نائٹرک آکسائڈ پیدا کرنے والے جین اور انسان کے جارحانہ رویے میں تعلق کا شک تھا۔ انہوں نے کچھ چوہے جو ابھی حالت جنین میں تھے ان کے دماغوں سے نیورونل نائٹرک آکسائڈ پیدا کرنے والا جین نکال دیا یا غیر فعال کر دیا۔ یوں یہ چوہے نیورونل نائٹرک آکسائڈ سے محروم ہو گئے۔ یہ چوہے بالکل عام چوہوں کی طرح پرورش پاتے رہے، لیکن بالغ ہوتے ہی ان کا رویہ بدل گیا۔ جب تبدیل شدہ جین والے چوہوں کو عام چوہوں کے ساتھ رکھا جاتا تو اگلے دن عام چوہے مردہ پائے جاتے۔ سائنسدانوں نے چوبیس گھنٹے نگرانی کا فیصلہ کیا۔ جب بھی کسی تبدیل شدہ جین والے چوہے کو عام چوہوں کے پنجرے میں ڈالا جاتا وہ دس منٹ میں عام چوہوں پر حملہ کرکے ان کا قتل عام شروع کر دیتا۔ عام چوہے اطاعت کا سگنل دیتے تب بھی وہ ان پر رحم نہ کرتا، اگرایک کی بجائے تبدیل شدہ جین والے دو چوہے عام چوہوں کے پنجرے میں ڈالتے تو وہ صرف ایک منٹ میں کشت و خون شروع کر دیتے۔وہ مقتول چوہے کو اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک اس کی جان نہ نکل جاتی۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ جارحانہ رویہ تبدیل شدہ جین والے صرف نرچوہوں میں پایا گیا۔ مادہ چوہوں نے جارحانہ رویے کا اظہار نہیں کیا۔
کیا اس تجربے سے حاصل کردہ نتائج کا اطلاق انسانوں پر ہو سکتا ہے؟
سائنسدان ان جینز اور عوامل کو شناخت کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو انسانوں میں غصے کے جذبات ابھار کر انہیں تشدد اور جارحیت کی راہ پر ڈال دیتے ہیں، لیکن انہیں سوسائٹی کے کچھ طبقات کی طرف سے شدید تنقید، مخالفت، اور جارحیت کا سامنا ہے۔ یہاں صرف ایک واقعے کا ذکر مناسب ہو گا. میری لینڈ کے دیہی علاقے کے ایک ریٹریٹ سنٹر(مرکز اعتکاف) میں سائنسدانوں نے جینز اور جارحیت کے تعلق پر ہونے والے تجربات پر بحث کے لئے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ ابھی لیکچر شروع ہوا ہی تھا کہ آڈیٹوریم میں شور و غل مچ گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک کھلے دروازے سے سرخوں کا ہجوم اندر گھس آیا۔وہ سرخ جھنڈے لہرا رہے اور نسل پرستی اور نسل کشی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
بائیولوجی کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ وائی کروموسوم انسان کو مردانہ شناخت دیتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں قتل، ریپ، ڈاکے، اور دیگر جرائم میں مرد زیادہ اور عورتیں بہت کم ملوث ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے سائنسدانوں نے وائی کروموسوم اور غصے یا جارحیت کے درمیان تعلق پر بھی تحقیق کی۔ عام خیال یہ تھا کہ جن مردوں میں وائی کروموسوم کی اضافی کاپی ہے وہ زیادہ جارحانہ رویہ رکھتے ہوں گے۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا کہ ایک اضافی وائی کروموسوم رکھنے والے مردوں میں بس ذہانت کی کمی ہوتی ہے۔ وائی کروموسوم کا جارحیت سے کوئی تعلق نہیں۔پھر سائنسدانوں نے اپنی توجہ میرین کور کے ان فوجیوں پر مرکوز کر دی جو ضرورت سے زیادہ متشدد اور سائیکوپیتھک یا سماج دشمن رویہ رکھتے تھے۔ ایسے تمام فوجیوں میں ایک کیمیکل جسے فائیو ایچ آئی اے اے کہتے ہیں کی کمی پائی گئی۔جو بچے جانوروں کو اذیت دیتے ہیں ان میں اور پیشہ ور مجرموں میں بھی اس کیمیکل کی کمی دیکھی گئی۔مونوامین آکسیڈیز اے نام کا جین (ایک انزائم جو قدرتی طور پر سیروٹونن کو توڑتا ہے) ایسے خاندان میں پایا گیا جو مجرمانہ سرگرمیوں کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔ نیز متشدد رویہ رکھنے والے بچوں میں آرام کی حالت میں حرکت قلب یا دل دھڑکنے کی رفتار بہت سست پائی گئی۔ مزید براں متشدد مجرموں میں مینگنیج دھات کی مقدار زیادہ تھی۔
سائنسدان اس کوشش میں ہیں کہ انسان کے ماحول اور جینیاتی پس منظر کو سامنے رکھ کر اس کے جارحانہ یا مجرمانہ رویے کا تعین کر سکیں۔ اس سلسلے میں لے پالک بچوں پر تجربات سے یہ دلچسپ حقائق سامنے آئے۔
جن بچوں کے حیاتیاتی والدین مستحکم تھے ان بچوں کو گود لینے والے والدین کا گھرانہ مستحکم ہو یا غیرمستحکم دونوں صورتوں میں بچے بڑے ہو کرمستحکم نکلے۔ بالکل یہی معاملہ ان بچوں کا تھا جن کے حیاتیاتی والدین غیرمستحکم تھے لیکن انہیں گود لینے والے والدین کا گھرانہ مستحکم، لیکن جن بچوں کے حیاتیاتی والدین غیر مستحکم تھے اور انہیں گود لینے والے والدین کا گھرانہ بھی غیرمستحکم وہ بچے غیر مستحکم نکلے. اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جن بچوں کو حیاتیاتی والدین سے اچھے جینز مل گئے انہیں گود لینے والے والدین کے گھر کا ماحول اچھا ملے یا برا دونوں صورتوں میں وہ اچھے انسان بن جاتے ہیں۔ اگر حیاتیاتی والدین سے ناقص جینز ملیں لیکن گود والدین اچھے ماحول میں پرورش کریں تب بھی وہ اچھے اوصاف و کردار کے مالک بن جاتے ہیں۔ لے پالک بچے تب برے یا مجرم بنتے ہیں جب حیاتیاتی والدین سے ناقص جینز کے ساتھ گود لینے والے والدین انہیں برے ماحول میں رکھیں. دوسرے لفظوں انسان برا بنتا یا جارحانہ رویہ تب اپناتا ہے جب اسے جینز اور ماحول دونوں خراب ملیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نہ صرف ماحول تبدیل کر سکتے ہیں بلکہ ناقص جینز کے برے اثرات کو زائل کرنا بھی ہمارے اختیار میں ہے۔ مزید معلومات کے لئے میری ایک پوسٹ “ایپی جینیٹکس کیا ہے؟” کا مطالعہ کر لیں۔

نوٹ: جان مدینہ واشنگٹن یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ اب وہ سنٹر فار مائنڈ، برین، اینڈ لرننگ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔ بہت سے ڈاکٹروں کی طرح وہ اپنے نام کر ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں