میری اس تحریر کا محرک محترم داؤد ظفر ندیم کی ایک پوسٹ بنی۔ ان کے بقول ساٹھ سال کے آس پاس عمر انتہائی خطرناک ہے۔ کیوں؟ ان کی عمر اٹھاون برس ہے۔ ان کے والد محترم 56برس کی عمر میں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کے بہت سے دوست احباب بھی ساٹھ سال کی عمر سے پہلے یا فوراً بعد دنیا سے کوچ کر گئے۔ لہذا وہ اپنے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کسی بھی قریبی عزیز کی اچانک دنیا سے رخصتی ہمارے لئے انتہائی دکھ اور صدمے کا باعث بنتی ہے۔ نیز عزیزوں کی موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم فانی ہیں۔ موت کسی بھی وقت ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔ خیال رہے موت پورے جسم کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اکثر کسی ایک عضو مثلاً دل، پھیپھڑے، جگر، یا گردے ناکام ہونے سے بھی ہو سکتی ہے۔ اپنے جسم کے ہر عضو کا خیال رکھنا ہمارے اختیار میں ہے۔ نیز آپ اچھی خوراک اور عادات و اطوار اپنا کر بڑھاپے کو قبل از وقت آنے سے روک بھی سکتے ہیں۔ بیماریوں سے بچاؤ یا بروقت علاج کے لئے سال میں دوبار دانتوں کی صفائی، ایک بار آنکھوں کا معائنہ، اور ایک بار فزیکل یا طبی معائنہ بہت ضروری ہے۔
میری اس تحریر کا مقصد آپ کو طب، سائنس، اور ٹیکنالوجی خصوصاً جین ایڈیٹنگ اور جینیاتی انجنیئرنگ کے میدانوں میں ہونے والی پیش رفتوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ان پیش رفتوں کے نتیجے میں بڑھاپے کو آنے سے روکنا یا دور جوانی کو واپس لانا، انسان کی اوسط مدت حیات کو دگنا تین گنا کرنا، اور آخرکار موت کے خاتمہ کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔ میں نے اپنی لائبریری میں موجود بہت سی کتابوں میں سے پانچ کا انتخاب کیا ہے۔ ایک ایک کرکے ان کا تعارف کر دوں گا۔ آغاز جان مدینہ کی کتاب عمر کی گھڑی سے کرتا ہوں۔ جینیٹک انفرنو کی طرح ان کی یہ کتاب بھی انتہائی دلچسپ اور معلومات کا خزانہ ہے۔ کتاب کے ٹائٹل سے ظاہر ہے کہ اس میں ان سوالوں کے جواب موجود ہیں۔
ہماری عمر کیوں اور کیسے بڑھتی ہے؟
کیا عمر کو بڑھنے سے روکنا ممکن ہے؟
جان مدینہ ہمیں جسم کے تمام اہم اعضا کا ٹور یا دورہ کراتے ہیں اور ایک سائنسدان کے نقطہ نظر سے بتاتے ہیں کو کیسے یہ اعضا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جینیاتی تبدیلیاں کرکے کچھ جانداروں کی مدت حیات دگنی تگنی کی جا چکی ہے۔ مستقبل میں اسی عمل سے انسانوں کی اوسط عمر بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ چند اہم تاریخی شخصیات مثلاً فلورنس نائٹنگیل، جین آسٹن، بلی دی کڈ، نپولین، اور کاسانووا کی مدت حیات اور موت کی تفصیل بھی موجود ہے۔ انگلینڈ کے شاہ چارلس دوم کی دردناک موت کا بھی ذکر ہے۔ وہ معالج جن کا کام بادشاہ کی جان بچانا تھا انہوں نے سترویں صدی کے فرسودہ طریق علاج سے بادشاہ کو اذیتیں دے دے کر مار دیا۔ وہ بار بار اس کا خون نکالتے اورانیما اورالٹیوں کے ذریعے اس کا معدہ خالی کرتے رہے۔ یوں انہوں نے بادشاہ کے جسم سے سارا خون اور مائعات نچوڑ لئے۔ اس زمانے میں غلط طریق علاج کی وجہ سے مریضوں کا مرنا عام تھا۔ جو لوگ ہر وقت ماضی کی عظمت و شوکت کے ترانے گاتے اور موجودہ دور کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
اس کتاب میں جراثیمی جینیات پر ہونے والی تحقیق کا بھی ذکر ہے۔ آخر میں جان مدینہ بتاتے ہیں کہ کیسے ہم متوازن خوراک، ورزش، اور ہارمون (عمر بڑھنے کے ساتھ جن کی پیداوار کم ہو جاتی ہے) کے ذریعے خود کو طویل عمر تک صحت مند رکھ سکتے ہیں۔
عموماً بالوں کی سفیدی، جھریاں، یادداشت کی کمزوری، جوڑوں کے درد، کمر درد، اور ذیابیطس جیسی بیماریاں بڑھاپے کی علامات ہیں۔ بالوں کی سفیدی کو چھوڑ کر باقی علامات کو غذاؤں، غذائی سپلیمنٹ یا ضمیموں، اور ورزش کے ذریعے خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہوں۔ سات غذائی ضمیمے روزانہ استعمال کرتا ہوں اور باقی چار دودھ تھیسل کا عرق، زیتون کے پتوں کا عرق، میگنیشیم، اور فش آئل وقتاٍ فوقتاٍ ، آپ بھی انہیں استعمال کرکے بیماریوں سے تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کوئی دوا استعمال کر رہے ہیں تو کوئی بھی غذائی ضمیمہ استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔
ذیابیطس
بے شک! ہرب بووی کی طرف سے “مر کیوں جاتے ہیں؟:ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے ایک ابتدائی رہنما” جسمانی لافانی کی ایک دلچسپ تحقیق ہے۔ اس کتاب میں سائنس اور روحانیت کے عناصر کو دلیری کے ساتھ جوڑ کر یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ عمر کو بڑھانا نا صرف ممکن ہے بلکہ فائدہ مند بھی ہے۔ بووی تازہ زاویوں پر بحث کرتا ہے، معلوم سائنس سے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ بے عمر زندگی انسانی جینیاتی اور ثقافتی ارتقاء کا فطری نتیجہ ہے۔ اگر آپ ہمیشہ زندہ رہنے کی صلاحیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، تو یہ کتاب محرک خیالات اور انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک زبردست وژن پیش کرتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں