ساقؔی امروہوی کی ایک نظم کا مطالعہ تاریخ گزرے ہوئے حالات و واقعات اور نامور شخصیات کا بیان ہے۔ تاریخِ عالم میں ان واقعات اور شخصیات کو جگہ ملتی ہے جو یا تو مثبت کارنامے سرانجام دیتی ہیں یا پھر ظالمانہ افعال کا مرتکب ہوتی ہیں۔ لیکن تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ واقعات کو زنگ آلود رقم کیا۔ تاریخ پر یہ سوال اٹھانا کہ آیا جو حقائق پیش کیے گئے ہیں یہ مستند اور حقیقی ہیں؟ بالکل بجا ہے۔ کیوں کہ جب ہم کسی بھی سیاسی، معاشرتی، معاشی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو مختلف مؤرخین کے ہاں مختلف اعداد و شمار ملتے ہیں۔ جن سے یہ اختلاف جنم لیتا ہے کہ اب کس کی تاریخ کو تسلیم کیا جائے؟ یہ جبر مؤرخ خود بھی کرتا ہے اور اکثر اس سے کروایا بھی جاتا ہے۔ بعض تاریخیں ایسی بھی لکھی گئیں کہ امرائے وقت نے مؤرخ کے گردن پر تلوار رکھ کر جو کچھ کہا، مؤرخ نے اپنی جان بچانے کےلیے وہ لکھا ۔ جب کہ ایسا بھی ہوا کہ تاریخ نویس نے مُراعات اور دولت کے حصول کےلیے ظالم کو عادل بنا کر پیش کیا۔ بعض تاریخیں حکما اور بادشاہوں نے اپنے ہاتھوں سے بھی لکھیں جن میں انھوں نے خود کو عادل پیش کیا ۔ اس لیے اسے مستند تاریخ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
تاریخ میں بیش بہا ایسے واقعات پڑے ہیں جو اپنی اصل سے بہت دور ہیں۔ ان تمام واقعات میں وہ شگاف اور دراڑیں ہیں جن کو پُر کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ تاریخ کی یہ صورت جو مؤرخ نے ذاتی فائدے کےلیے زنگ چڑھا کر پیش کی یا بہ زورِ شمشیر مؤرخ سے لکھوائی گئی یا حکمرانوں نے خود خلاؤں سے بھرپور پیش کی تاریخیت کے زمرے میں آتی ہے۔
جدید علوم و نظریات میں ایسے محرکات اور رجحانات بھی ملتے ہیں جنھوں نے روایتی علوم کا ازسرِ نو جائزہ لینا ضروری سمجھا اور اس کی کایا کلپ کی۔ ایسے محرکات مابعدِ جدیدیت جو کہ ایک فکری صورت حال ہے، کا حصہ ہیں۔ تاریخیت میں موجود شگافوں کو پُر کرنے کا ذمہ نوتاریخیت نے لیا ہے۔ نو تاریخیت ، تاریخیت کو مکمل طور پر رد نہیں کرتی بل کہ اس کا تجزیہ کرکے اسے صحیح ڈگر پر لاتی ہے اور اس میں موجود خلاؤں اور تخیل پر مبنی تصورات کو نکال باہر کرتی ہے۔ نوتاریخیت تاریخ کو اٹل اور حتمی نہیں مانتی بل کہ اعتدال کا دامن پکڑتے ہوئے اسے اضافی نظر سے پرکھتی ہے۔ یعنی نوتاریخیت کے مطابق تاریخ آفاقی مظہر نہیں کہ پوری دنیا کسی بھی تاریخی واقعے کو ایک نظر اور اثر سے دیکھتی ہے بل کہ تاریخ اضافی اس لیے ہیں کہ دنیا میں موجود ہر خطہ کسی بھی تاریخی واقعے کو اپنے نظریات اور رجحانات کے مطابق الگ الگ نظر سے دیکھتا ہے۔
اگر نوآبادیاتی تاریخ کو دیکھا جائے تو نوآبادکاروں نے مہا بیانیوں سے نوآبادیات قائم کی۔ ابتدا میں ان کا رویہ عادلانہ رہا لیکن مخصوص مدت کے بعد انھوں نے سامراجیت کا برتاؤ شروع کیا۔ دنیا کا ہر سامراجی نظام اسی طرح پروان چڑھا۔ ہندوستان میں بھی صورت حال اسی طرح رہی۔ ۱۶۰۰ء میں برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں بہ غرضِ تجارت ہندوستان آیا۔ ۱۷۵۰ء میں جب وہ بنگال پر قبضہ کرلیتے ہیں تو اس کا اصل مقصد سامنے آجاتا ہےکہ اس کی نظر تجارت کے بجائے تجوری پر تھی۔ آخر کار ۱۸۵۷ء میں ہندوستان سلطنت برطانیہ کا اسیر ہوجاتا ہے۔ ایسا ملک جسے وسائل کی فروانی اور دولت کی کثرت کی وجہ سے ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہا گیا غیر کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے۔ ہندوستان سونے کی چڑیا کیوں تھا اس کی تائید میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے مستند ہے:’’ اس سارے دور (مغل دور) میں ہندوستان کی ساری دولت یہیں رہی، یہیں خرچ ہوئی اور یہیں لگی۔ انگریزوں نے اس کے برعکس برتاؤ کیا۔ وہ یہاں کی دولت سمیٹ کر انگلستان لے جاتے رہے اور ہندوستان کی قیمت پر برطانیۂ عظمہ کی تعمیر ہوتی رہی۔‘‘
اہم بات یہاں یہ سامنے آتی ہے کہ ہندوستان کو زیرنگیں کرنے کےلیے برطانیہ نے۱۶۰۰ء سے لے ۱۸۵۷ء تک کا عرصہ لگایا۔ یعنی ۲۵۷ سال میں ایک ملک کو قابو کیا جس سے ہندوستان کی خودمختاریت اور طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس خودمختاریت کی بڑی وجہ ڈاکٹر جمیل جالبی کے الفاظ میں ’’متحدہ ہندوستانی قومیت‘‘ کا تصور تھا ۔ اس تصور کے سائے تلے ہندو اور مسلمان بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے۔ نوآبادکاروں نے پہلے اس بندھن کو توڑا اور پھر آہستہ آہستہ مہان ہندوستان کو نوآبادیات بنالیا۔
۱۹۴۷ء میں باقاعدہ ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں اور یوں نوآبادکاروں کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ جسمانی طور پر نوآبادکار تو یہاں سے چلا جاتا ہے لیکن ذہنی اور سائبر حوالے سے ان کا سامراجی اثر قائم رہتا ہے جو تاحال جاری ہے۔ پاکستان جو ابتدا سے بیرونی اور اندرونی سامراجی قوتوں کے لپیٹ میں رہا ہے ترقی سے آج تک محروم ہے۔ عالمی قوتیں بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں حوالوں سے اس ملک کو کنٹرول کر رہی ہیں ۔ جمہوریت تو برائے نام یہاں جاری ہے لیکن ہر ذی عقل بندہ اس راز کو جان گیا ہے کہ ہمارے حکومتی نظام کی رسی کس کے ہاتھ میں ہے۔ آج پاکستان ایک افسر شاہی منڈی بنا ہوا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اسے اپنے جغرافیے کا اسیر کہا گیا ہے۔
یہ تمام حقائق جو تقریباً ہر کسی کو معلوم ہوچکے ہیں لیکن لوگ انھیں بیان کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ ان کو غائب کرنے یا جان گنوانے میں وقت نہیں لگتا۔ لیکن ادب ایسا شعبہ ہے جو ان حقیقتوں کو سامنے لانے کے فن سے واقف ہے۔ ادیب معاشرے میں موجود خرابی کو صرف دیکھتا نہیں بل کہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں اسے بیان بھی کرتا ہے۔ ایسے بے باک ادبا میں ایک ادیب ساقؔی امروہوی بھی ہیں۔ جن کے کلام میں خود اعتمادی، امید اور رجائیت کا اثر کافی حد تک ملتا ہے۔ ساقؔی امروہوی نے ذاتی واردات کے بجائے اجتماعی موضوعات اور معاشرتی حقائق پر زیادہ توجہ دی۔ اسی سلسلے میں ان کی ایک نظم قابلِ غور ہے جس میں انھوں نے وطن عزیز کےلیے ’’افسر شاہی منڈی‘‘ کی علامت تراشی ہے۔ منڈی وہ بڑا بازار جہاں مختلف قسم کی چیزیں مختلف داموں پر ملتی ہیں اور پھر ضمنی بازاروں اور دکانوں کو منتقل کی جاتی ہے۔ منڈی میں زیادہ سازوسامان بولی کے طریقے پر فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کو ایسی منڈی کہا گیا ہے جس کی بھاگ دوڑ افسر شاہی یعنی اعلیٰ حکام کے ہاتھ میں ہے اور یہی اعلیٰ حکام جن قوتوں کے زیرِ اثر اپنا ایمان بیچ رہے ہیں دنیا ان سے واقف ہے۔ ساقؔی امروہوی نظم میں کہتے ہیں:
یہ افسر شاہی منڈی ہے آ سیر کریں اس منڈی کی
وہ دیکھ یہاں امریکہ سے کچھ تاجر آئے بیٹھے ہیں
جو اس منڈی میں مدت سے دکان سجائے بیٹھے ہیں
نوآبادکار جب کسی ملک یا علاقے کو کالونی بناتا ہے تو ان کی غرض محض حکومت کرنے یا تخت پر بیٹھنے کی نہیں ہوتی بل کہ وہ وہاں کے سارے انتظامات کو قابو کرنا شروع کرتا ہے۔ اس مقصد کےلیے وہ مقامی باشندوں میں اپنے لیے آلۂ کار ڈھونڈتا ہے ۔ یہ آلۂ کار مراعات اور دولت کے حرص میں اپنے ہی لوگوں کا سودا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو تو سب کچھ معلوم ہوتا ہے اس لیے نوآبادکاروں کو اپنے ہی ملک کے راز اور کاموں سے باخبر کرتے ہیں۔ یہ لوگ حب الوطنی کے دعوے دار بھی ہوتے ہیں اور اپنی قوم کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نوآبادکار ہمارا خیر خواہ ہےاور ہمیں مہذب اور شائستہ بنانا چاہتا ہے۔ ان آلۂ کاروں کے متعلق ساقؔی امروہوی کہتے ہیں:
اس افسر شاہی منڈی میں فرعون بھی ہیں نمرود بھی ہیں
کچھ ان میں پرانے گاہک بھی ہیں، کچھ ان میں نومولود بھی ہیں
کچھ لوگ یہاں سے بھاگ گئے، کچھ لوگ ابھی موجود بھی ہیں
آخرالذکر مصرعے میں جن لوگوں کی بات ہورہی ہے اس کا اندازہ ہر کسی کو ہے۔ کون لوگ ہیں جو ملک کے خزانے اور اثاثوں سے اپنا ذاتی خزانہ اتنا بھر دیتے ہیں کہ آئندہ نسلوں کےلیے بھی سہولت کا سامان فراہم کرتے ہیں؟۔
اہلِ قلم، فن کار، سیاست دان اور سائنس دان وغیرہ ایسے لوگ ہیں جو کسی قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ قوم کی ترجمانی کرتے ہیں اور قوم کی ترقی اور خوش حالی کا دارومدار ان پر ہوتا ہے۔ نوآباد کار اور ان کے آلۂ کار قوم میں موجود ان لوگوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ ہر شعبے میں کم زور، مجبور اورساتھ ساتھ کم ظرف قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ کچھ تو مجبور ہوتے ہیں اور کچھ نوآبادکاروں سے حصولِ مراعات کے واسطے امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ یہ بے ضمیر لوگ قوم کے اثاثوں اور قیمتی اشیا کو بیچ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ساقؔی امروہوی کی نظم سے یہ مصرعے ملاحظہ کریں:
یہ لوگ خریدا کرتے ہیں اس دیس کے کچھ فن کاروں کو
منہ مانگی قیمت دیتے ہیں ان سب ذہنی بیماروں کو
دیتے ہیں سہارا یہ تاجر ان گرتی ہوئی دیواروں کو
اس افسر شاہی منڈی میں ہر اہل قلم بِک جاتا ہے
نوآبادکار ایسی پالیسی ترتیب دیتا ہے کہ جو لوگ اس کی حقیقت آشکارا کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو غدار ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی روایات اور اقدار کے امین ہوتے ہیں لیکن مختلف پروپیگنڈوں سے انھیں جیلوں میں بند کیا جاتا ہے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ نوآبادکار کی حمایت میں ابھرتے ہیں انھیں جان باز اور حق پرست پیش کیا جاتا ہے:
اس منڈی کا ہر بیوپاری بڑھ چڑھ کر دام لگاتا ہے
جو اِس منڈی میں بِک جائے فن کار بڑا کہلاتا ہے
نوآبادکار، نوآبادیات کےلیے اپنی مرضی سے قوانین ترتیب دیتا ہے اور انھیں جبراً ماتحت پر لاگو کرتا ہے۔ نوآبادیاتی باشندے بغیر منہ کھولے ان قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ نوآبادیات کو پتا ہوتا ہے کہ ہم پر ظلم ہورہا ہے لیکن خوف اور ڈر کے مارے خاموش ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کےلیے ’’تحتانیت‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یعنی ماتحت ، اتنے مجبور و بے بس ہوتے ہیں کہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم پر ظلم ہورہا ہے ، منہ نہیں کھول سکتے۔ اس مظہر کا بیان ساقؔی امروہوی کی نظم میں کچھ یوں ہوا ہے:
اس افسر شاہی منڈی میں لگتے ہیں زبانوں پر پہرے
یہ روز لگایا کرتے ہیں ہم سوختہ جانوں پر پہرے
اگرچہ پوری نظم میں محکومیت اور غلامی کی فضا کا بیان ملتا ہے اور ملک کے اندر موجود غداری، ظلم، تشدد، رشوت وغیرہ جیسے جرائیم پر چوٹیں لگائی گئی ہیں لیکن نظم کے آخر میں ساقؔی امروہوی اپنے اصل رنگ یعنی امید و رجائیت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:
آخر یہ لگائیں گے کب تک اب اپنے خزانوں پر پہرے
یہ رات بھی اب کچھ دیر کی ہے یہ رات بھی اب کٹ جائے گی
جب صبح کا سورج نکلے گا سب تاریکی چُھٹ جائے گی

حاصل کلام یہ کہ ساقؔی امروہوی نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں وطن کے حالات و واقعات جوں کے توں بیان کیے ہیں۔ یہ نظم حقیقت نگاری کی زندہ مثال ہے جس سے شاعر کی خود اعتمادی اور غیرت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب حق پرستوں، حق لکھنے اور کہنے والوں کی زندگیاں ختم کی جاتی ہیں، ایسی حقیقت نگاری کرنا ، خود اعتمادی ، بے باکی اور باہمت ہونے کا ثبوت ہے اور جو ساقؔی امروہوی کی پہچان ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں