میں اکثر اپنی وڈیوز میں علمِ نجوم وغیرہ کا ذکر کرتی ہوں، مقصد لوگوں کا ردِ عمل جاننا ہوتا ہے کہ وہ کتنا سنجیدہ لیتے ہیں ایسے علوم کو جو ہزاروں سال پرانے ہیں،اور میری وڈیو میں جب میں نے علمِ نجوم کی ایک تکنیک کا ذکر کیا جس سے ٹیلنٹ معلوم کیا جاسکتا ہے تو کمنٹ کا انبار لگ گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر کمنٹ دوسرے سے مختلف۔ اب انسان کس تکنیک کو صحیح مانے؟
نفسیات پڑھتے ہوئے اور تجربہ کی بنیاد پر ایک بات سمجھ میں آئی کہ عموماً وہ لوگ روحانیت ، ظہور پذیری، علمِ نجوم، ٹیرو کارڈ، وغیرہ ٹائپ چیزوں کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں جن کی پرورش یا تو توہم پرست ماحول، غربت، نرگسیت پسند والدین، بچپن میں جذباتی، جنسی، جسمانی ابیوز ہوا ہو، یا پھر کسی بھی قسم کا ٹروما، یہ لوگ ان چیزوں کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں ، ایسے لوگ منطق کا استعمال ٹھیک سے نہیں کرپاتے۔ لیکن کیوں؟؟
ہر بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو بالغ لوگوں پر منحصر ہوتا ہے کیونکہ وہ لاچار ہوتا ہے۔ بچوں میں “جادوئی سوچ” پائی جاتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب ہمارا منطق والا دماغ (لوجیکل برین) نشوونما پاتا ہے تو گزرتے وقت کے ساتھ ہمیں سمجھ آجاتا ہے کہ جادو یا فینٹسی بس دماغ میں ہے حقیقت میں نہیں اور دنیا میں کیسے چلنا ہے ہم سیکھ جاتے ہیں۔ لیکن جب بچپن میں حالات سازگار نہ ہوں، اور تکلیفیں ہوں تو منطق والا دماغ (جو کہ نئی چیزیں سیکھنے، توجہ اور فوکس کے لیے بھی ذمہ دار ہے) ٹھیک سے نشوونما(انڈر-ڈیویلپمنٹ) نہیں کر پاتا۔ایسے لوگوں کو جذبات کو صحیح سے سمجھنے، محسوس کرنے اور پراسس کرنے میں دِقت ہوتی ہے۔ انکا دماغ حقیقت کو اپنی من مرضی کی کہانیوں اور رنگوں میں رنگ دیتا ہے (کیونکہ ان کے دماغ کو عادت ہوتی ہے بچپن میں ہونے والے حادثات کو اپنی طرح سے معنی اور مطلب دینے کی جو کہ بہت ممکن ہے کہ صحیح نہ ہو) جس کا ان کو محض نقصان ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر نے حقیقت کو اپنی من مرضی کے رنگ سے رنگا ہوا ہوتا ہے، کیونکہ منطقی حقیقت کو قبول کرنا مطلب کہ اپنے پسندیدہ نظریات اور خیالات کو چھوڑ کر نئی حقیقت کے آگے جھک جانا، جو کہ یقیناً ایک دردناک عمل (پراسس) ہے۔
میں ایسے لوگوں کے لیے ہمدردی رکھتی ہوں، کیونکہ اس میں انکا کوئی قصور نہیں کہ ان کے والدین، ملک، مالی حالات، جینیات وغیرہ نے انہیں اس موڑ پر لاکر چھوڑ دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اکثر منطق اور لاجک کی بات محرک (ٹریگر) کرتی ہے کیونکہ وہ ان کی من پسند کہانیوں اور توہم پرست سوچ سے میل نہیں کھاتی۔
لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں اور اللہ کا بہت کرم ہے کہ ہماری دنیا جذباتی یا جادوئی سوچ والے لوگ نہیں چلاتے۔ دنیا میں جو بھی طاقتور لوگ ہیں، انہیں منطق سے کام لینا پڑتا ہے۔ امریکہ کا صدر نجومیوں، ٹیروکارڈ پڑھنے والا یا کسی بابا کے پاس جاکر ملک کے فیصلے نہیں لیتا، اگر ایسا ہوتا تو انجام مجھے بتانے کی یقیناً ضرورت نہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں ایڈالف ہٹلر نے نجومی یا روحانی استاد نہیں بٹھائے تھے فیصلہ لینے کے لیے۔ بلکہ سائنسدانوں کو کام پر لگایا تھا کیونکہ جنگ جیتنی تھی، دنیا پر قبضہ کرنا تھا اور اس کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی چاہیے ہوتی ہے۔ یوں زندگی میں بھی عقلی نقطہ نظر کی اشد ضرورت پڑتی ہے مسائل کو حل کرنے کے لیے۔
میں یہاں جذبات کی نفی نہیں کررہی، میں انہیں اہمیت دیتی ہوں کیونکہ ہم جذباتی مخلوق ہیں، جذبات ہمیں ہماری اندر کی دنیا کی معلومات فراہم کرتے ہیں اور ہمارے لیے جذبات کو سمجھنا ضروری ہے، البتہ جذبات میں بہنا نہیں۔
میں اس “جادوئی سوچ” کی طرف اشارہ کررہی ہوں جس میں کسی انسان کو لگتا ہے کہ ایسا کوئی جادو کائنات میں ہے جس کو حاصل کرکے وہ اپنے سارے مسائل حل اور دکھوں سے مکتی حاصل کرلیں گے۔ اس بات کو ماننا کہ ایسا کوئی جادو باہر سے نہیں ہوگا، اور آپ کی اندر کی دنیا آپ کی توجہ کی طلب گار ہے کیونکہ اصل جادو وہیں ہوسکنے کے کچھ امکانات ہیں، یہ بہت ہی تلخ اور بورنگ حقیقت ہے۔ وہ سب جو آپ کے ساتھ بچپن میں ہوا، وہ ساری ناانصافی جس کے لیے آپ ذمہ دار نہیں، اس سب کی ذمہ داری لے کر زندگی اور اپنے حالات کو سمجھ پانا اور کسی حد تک بہتر کرنا جتنی آپ کی سکت ہے، یہ آسان نہیں ہوتا۔ آپ کی “انا” ہر ممکن کوشش کرے گی کہ من پسند خیالوں سے بنا شیشے کا محل نہ ٹوٹے، کیونکہ “انا” کا کام ہی ہے آپ کو “اچھا” محسوس کروانا۔ یہ بہت ہی تلخ اور کڑوی گولی ہے، البتہ یہی آپ کو سکون دے سکتی ہے، لیکن کیسے؟؟ اسکا تفصیلی ذکر ایک الگ آرٹیکل میں کروں گی۔
آب وہوا کا بھی بہت اثر ہوتا ہے انسان کے جذبات پر، مشرق میں لوگ ہمدرد، گرم جوش، جذباتی اور جلدی بھروسہ کرنے والے ہیں، جبکہ مغرب کی جغرافیہ اور آب و ہوا ایسی ہے کہ لوگ بھروسہ نہیں کرتے ایک دوسرے پر، منطق سے کام لیتے ہیں، زیادہ گھلتے ملتے نہیں، زیادہ جذباتی نہیں تبھی وہاں سے انسان “خود غرض” ہے، کے فلسفے نے جنم لیا، جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے لیکن مشرق کا فلسفہ، خاص کر برِ صغیر میں ہندوازم اس کے برعکس ہے، اور برِ صغیر کا فلسفہ بھی غلط نہیں۔
جیسے اچھائی برائی ساتھ ہیں، تھے اور رہیں گے ویسے ہی منطق اور جذباتی لوگ بھی تھے، ہیں اور رہیں گے، یہ محض ایک فینٹسی ہے کہ دنیا ایک ہی قوت کی طرف جھک جائے گی اور ہم ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ فطرت میں موجود تضاد کو سمجھ کر اس کے ساتھ رہنا سیکھنا آپ کی مجبوری ہے، کوئی انتخاب نہیں۔
منطقی انسان کبھی بھی کسی علم کو دھتکارتا نہیں، ایسا شخص ان علوم کو جس سے وہ اختلاف رکھتا ہے، انہیں پڑھتا اور سمجھتا ہے، پھر جو اس میں اچھا ہے اسے قبول کرتا ہے جو منطق یا جدید دنیا کے مطابق نہیں اسے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ کوئی خیالی اور کتابی تصور نہیں ہے، ایسا ہونا ممکن ہے۔
اگر آپ واقعی میں زندگی میں منطقی اور اچھے فیصلے لینا چاہتے ہیں تو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیے گا (یہ قول میں نے پڑھا تھا) کہ :
“جو صحیح ہے وہ میرا ہے” (یہ بھی مشرق کا فلسفہ ہے)

ہم میں سے زیادہ تر انسان اس نظریہ کو گلے سے لگائے رکھتے ہیں کہ “جو میرا ہے وہ صحیح ہے”، اور پھر جب کچھ ایسا ہمارے سامنے آجائے جو ہمیں غلط ثابت کردے تو ہم اسے رد کردیتے ہیں اور ان باتوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو ہماری سوچ اور نظریات سے میل کھاتی ہو۔ کیونکہ ہمیں اپنی من پسند اور گھڑی ہوئی کہانیوں اور توہم پرست نظریات سے”جذباتی لگاؤ” ہوتا ہے۔ جب بھی آپ کے نظریات کو ٹھیس پہنچے اور فطرت آپ کی من گھڑت کہانیوں کو آپ کے سامنے زیرہ ریزہ کردے تو اس وقت درد سے گزرنے کے بعد حقیقت کو ویسے قبول کرلو جیسی وہ ہے، اسے ویسے دیکھو اور اسکا درد بھی محسوس کرو۔ شروع میں پریکٹس نہیں ہوگی تو درد چڑچڑا پن زیادہ ہوگا جب جذبات اور جادوئی سوچ کی کرچیاں اڑیں گی، پھر وقت گزرنے کے ساتھ عادت ہوجائے گی، اور دماغ کا منطق والا حصہ مزید مضبوط ہونے لگے گا، آپ کا فوکس، توجہ اور سیکھنے کی صلاحیت بھی بہتر ہونے لگے گی، آپ “کسی حد تک سکون” محسوس کرنے لگیں گے(خوشی یا پلیژر نہیں)۔ جب بھی جذبات کا چشمہ آنکھوں پر آئے گا اسے نوٹ کرکے، تسلیم کرکے ہٹانا ضروری ہے تاکہ آپ منطقی فیصلے لے سکیں۔
بس یہ قول ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ “جو صحیح ہے وہ میرا ہے”۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں