میرے دادا مرحوم سالاراعظم قومی رضاکاران پاکستان سابقہ آرمی افسر اپنے نوجوان رضاکاروں اور دیگر جوانوں کے ہمراہ ہر عید میلاد النبی اور دسویں محرم کو اپنی فوجی وردی پہن کر جلوس کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک رہتے اور کوٹ ادو شہر میں پُرامن جلوس کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ہمراہ نوجوانوں کی ایک پوری ٹیم ہوتی تھی جو سکاؤٹس کی طرز پر اپنے فرائض انجام دیتی تھی ۔مجھے یاد ہے کہ میرا دوست مشہور پریس رپورٹر شناخت علی زاہد مرحوم جو چھوٹے قد کی وجہ سے ننھا مجاہد کہلاتا تھا ۔مخصوص وردی پہنے سب سے آگے آگے ہوتا تھا اور ہم اسکول کے بچے بھی اس کے ہمراہ اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہوتے تھے ۔ دادا جان خود بھی شہر کے جرگہ ممبر اور ممبر تحصیل کونسل ہونے کے ساتھ ساتھ شہری امن کمیٹی کے صدر اور پٹھان برادری کے سربراہ بھی ہوا کرتے تھے ۔تاریخ شاہد ہے کہ کوٹ ادو میں ان کی زندگی میں کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا ،بلکہ شہر میں باہمی امن کی مثالی فضا قائم تھی ۔میں نے ان کے ہمراہ کبھی پولیس نہیں دیکھی ۔یہ سب کچھ وہ ہمیشہ سے کرتے چلے آۓ تھے ۔قیام پاکستان سے قبل سونی پت شہر میں بھی انہوں نے یہ ذمہ داری لی ہوئی تھی ۔وہ کہتے تھے کہ میں یہ کام کسی کو دکھانے یا معاوضہ کے لیے نہیں بلکہ اللہ ،اسکے رسول ؐ اور اہل بیت کی محبت اور اپنے ملک وقوم کے امن کی خاطر کرتا ہوں ۔ گو اپنے ملک اور شہر میں پُرامن ماحول کو قائم رکھنا اپنی اپنی جگہ ہر مسلمان کا فرض ہوتا ہے لیکن ہم جیسے لوگوں کے لیےیہ اخلاقی ،قانونی ،معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ مذہبی فریضہ بھی ہوتا ہے ۔
ان کے بعد یہی طریقہ کار میرے والد مرحوم کا بھی ہوا کرتا تھا جو ایک سابقہ پاکستان آرمی آفیسر تھے ۔وہ بھی ان تقریبات میں شریک ہوکر نا صرف ان کا حصّہ بن جاتے تھے بلکہ ضلعی امن کمیٹی کے عہدیدار ہونے کے ناتے اپنا فرض بھی ادا کرتے تھے ۔اکثر شام غریباں اور مجالس میں ان کی مختصر سی تقریر ضرور شامل ہوتی تھی ۔آج جب ایسے مواقع پر سیکورٹی فورس تعینات ہوتی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ رواداری ،باہمی امن وآتشی اور بھائی چارے کے یہ عظیم کردار اب دیکھنے میں کیوں نہیں آتے ؟ جبکہ ان روایات کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے ۔
فنا کی ر ہ گزر پہ منزل بقا حسین ؑہے
یہی ہے قصہ مختصر یزید تھا حسین ؑہے
ہمارے اباجی کی روایت تھی کہ وہ رات کو اپنے بچوں کو اپنے ہمراہ بیٹھا کر اس روز کی نسبت سے آگاہی دیتے اور بتاتے کہ ہم یہ دن کس کی یاد میں اور کیوں مناتے ہیں ؟ یہ جلوس کیوں نکالتے ہیں ؟عیدمیلادالنبی کی خوشی اور محراالحرام کا دکھ اور سوگ کیوں لازم ہوتا ہے ؟ اس زمانے میں الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہ تھا اس لیے وہ ہمیں یکم محرم سے ہی روزانہ کی بنیاد پر کربلا کے واقعات بتانا شروع کردیتے تھے ۔جو دس محرم الحرام کی شام تک جاری رہتے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ محبت رسول ؐ کا تقاضا ہے کہ اپنے بچوں کو آل رسول اور اہل بیت سے وفاداری اور شہداء کربلا سے محبت سکھائی جائے کیونکہ تاریخ میں کربلا سے بڑی قربانی کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔وہ بتاتے تھے کہ تاریخ عالم میں یہ پہلا اور آخری انقلاب تھا جس میں تلوار پر خون فاتح ہوا ۔چودہ سو سال گزرنے کے باوجود یہ کربلائی انقلاب ایسا تازہ ہے جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہے حضرت امام حسین ؑ نے یہ عظیم قربانیاں دیکر یہ ثابت کیا ہے کہ حق وانصاف کو کسی بھی ظلم وجبر سے دبایا نہیں جا سکتا ۔اباجی ہمیں داستان کربلا کا یہ سبق اس لیے دیتے تھے ،تاکہ ہم بچے ناصرف کربلا والوں کے دکھ ،قربانیوں اور غم کو محسوس کریں بلکہ ان کی تعلیمات اور نظریات کو بھی اپنے دلوں میں زندہ رکھیں ۔وہ بتاتے تھے کہ نواسہ رسول اور کربلا والوں کی قربانی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری عالم انسانیت کے لیے ہیں ۔
آج بھی دنیا میں جب بھی جہاں بھی انسانیت یا آزادی اظہار راۓ کی بات ہوگی امام حسین ؑ کا ذکر ضرور ہوگا ۔کربلا کوئی جنگ یا حادثہ نہیں احیاۓ انسانیت اور تحفظ دین ہے ۔کربلا کا سبق یاد کرلیں تو یہ انسان کی زندگی بدل دیتا ہے اور آپ کو زندگی بھر کسی ظالم اور جابر کے سامنے نہ جھکنے کا حوصلہ ملتا ہے ۔ آپؑ نے اور آپ ؑکے خاندان نے میدان کربلا میں بے پناہ مصائب کا مقابلہ کرکےیہ ثابت کیا کہ حق کی راہ میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آسکتی ۔ ان کی شہادت حق کی بڑی فتح اور باطل کی تاریخی شکست تھی جو ہمیں حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم دیتی ہے ۔یزید مٹ چکا ہے سردار شہداء امام حسین ؑ آج بھی زندہ ہیں ۔
مٹی میں مل گئے ارادے یزید کے
لہرا رہا ہے آج بھی پرچم حسینؑ کا
ہمارے اباجی فرمایا کرتے تھے کہ دراصل کربلا میں جنگ ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ شروع ہوئی تھی اور یہ حق وباطل کی جنگ قیامت تک جاری رہے گی اور ہر دور میں باطل یزیدی قوتیں حق و صداقت کے حسینی لشکروں سے ٹکراتی رہیں گی ۔ہر انسان کو موقع ضرور ملتا ہے کہ وہ حق و صداقت کا ساتھ دیکر حسینی لشکر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا پھر باطل کی قوتوں کے سامنے سر جھکاتا ہے ۔ حضرت امام حسین ؑ نے حق وباطل کے درمیان اپنے اور اپنے خاندان کے خون سے جو ایک سرخ لکیر کھنچ دی ہے وہ ہمیشہ واضح نظر آتی رہے گی ۔یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اس لکیر کی کس جانب کھڑے ہوتے ہیں ۔ایک جانب نجات اور سربلندی ہے تو دوسری جانب ظلم و جبر کے پہاڑ کھڑے ہیں ۔اس لکیر کی ایک جانب حسین ؑ ہیں ان کی اور کربلا والوں کی مظلومیت ہے تو دوسری جانب یزید اور اسکی فرعونیت و ظلم کی بے پناہ طاقتیں ہیں ۔ ہم نے کس کے نقش قدم پر چلنا ہے یہ فیصلہ ہمارا ہے ۔بےشک نانا کے دین محمدی کو امام عالیٰ مقام نے کربلا کے تپتے صحرا میں آبرو بخشی اور شہداے ٔ کربلا کی بے نظیر قربانیوں سے دین اسلام کو بقا نصیب ہوئی ۔اگر زمانے کی سختیوں سے بچنا ہے اور آخرات کی نجات چاہیے تو آل رسول اور اہل بیت کی محبت اور تعلیمات کو سینے سےہمیشہ لگاے رکھو کیونکہ کر بلا والے حیثیت نہیں نیت دیکھتے ہیں۔ یہ سرداران جنت محبت کے بدلے محبت دیتے ہیں اور وفاداری کے بدلے دنیا میں اتنی عزتوں سے نوازتے ہیں کہ زمانہ رشک کرتا ہے اور آخرت میں بھی سرخرو کرنے والے ہیں ۔بے شک ہر ہر زمانہ اور ہر ہر وقت میرے حسین ؑ کا ہے ۔دنیا میں مسلمان کے لیے خدا کے بعد اسکے رسول ؐسے محبت سب سے بڑا سرمایہ حیات ہوتا ہے اورآپ ؐ کا فرمان ہے کہ “حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں جو شخص حسین ؑ سے محبت کرتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرے اور حسین ؑ میری اولاد سے ہیں ” ۔ہر آنے والا دن فلسفہ کربلا کی اہمیت اور افادیت کو مزید اجاگر کرتا جارہا ہے۔ پوری دنیا جان چکی ہے کہ انسانیت کی بقا کربلا سے وابستہ ہے ۔اہل بیت سے محبت دراصل رسول اللہ سے ہی محبت ہے
اے ٔ چرخ تو نے حوصلہ دیکھا حسین کا
ہر زخم کھا کے کھلتا ہے چہرہ حسین کا
جو وقت کے یزید سے ٹکرا گیا بیاض… ؔ
بس جان لو کہ ہے وہی پیارا حسین کا
وقت کا تقاضا ہےکہ امت مسلمہ کربلا کے ایک ایک کردار کو اپنا رول ماڈل بناکر ان کی پیروی کریں ۔عزداری اور دکھ کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت کو بھی اپنا کر دنیا کے سامنے ایسی مثال پیش کریں جس سے ثابت ہو کہ ہم فلسفہ کربلا کو سمجھنے اور جاننے والے ہیں ۔کربلا کے شہداء اور جانبازوں کے افکار ،کردار اور نظریات کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی معاشرتی زندگی میں نافذ کریں تب جاکر ہی اصل ہدف اور مقصد کو حصول ممکن ہو سکتا ہے ۔ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کو قربانی حسین ؑ سے روشناس کرانے کے لیے فلسفہ کربلا ازبر یاد کرانے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ آج دنیا کو درپیش چیلنج اس بات کے متقاضی ہیں کہ حق کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے پیروی امام حسین ؑ کی جاۓ ۔فلسطین ہو یا کشمیر کی جدوجہد آزادی سب مظلوموں کا آسرا اور حوصلہ امام عالیٰ مقام کی شہادت اور صبر سے ہی تقویت حاصل کرتا ہے کیونکہ ہر زمانہ میرے حسیؑن کا ہے !
در نواۓ زندگی سوز از حسین ؑ

اہل حق حریت آموز از حسین ؑ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں