علامہ اقبال امام عالی مقامؓ کو فہمِ قرآن‘ اِحیائے اَقدارِ دین‘ تسلیم و رضا‘ صبر و قناعت اور عزیمت واستقامت کے لیے معیار و مدار سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک امام عالی مقامؓ بے مثال ایثار واستقامت کا ایک ابدی استعارہ ہیں؛ چنانچہ وہ کہتے ہیں
رمز قرآن از حسینؓ آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم
یعنی میں نے قرآن کا راز حضرت حسینؓ سے سیکھا اور اُن کی آتشِ عشق سے کئی شمعیں روشن کی ہیں اور کئی چراغ جلائے ہیں۔
ہانی بن ہانی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایاحسن سر سے سینے تک اور حسین باقی جسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ جسم اطہر سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔
سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ لباس میں درج زیل اشیاء استعمال فرماتے تھے: قمیض، عمدہ پوشاک، شلوار، لمبی ٹوپی، جھالر دار چادر اور ریشم کی جھالر لگی ہوئی چادر، امامہ لنگی اوپر اوڑھی جانے والی چادر اور جوتے، بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔
بالخصوص رمضان المبارک میں، انگوٹھی کے نگینے پر اللہ کا ذکر “اللہ بالغ امرہ” کے الفاظ کنداں تھے۔ ایک تلوار اور ایک ذرہ بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا” اے فاطمہ میں تم اور یہ دونوں یعنی حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور یہ سونے والا یعنی علی رضی اللہ تعالی عنہ قیامت کے روز اکٹھے ہوں گے۔
قائد اعظم کے عشق رسول ﷺ کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں۔
جب قائد اعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ “لنکنزان” لندن سے قانون کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تو ان کے دوستوں نے پوچھا آخر آپ نے قانون کی تعلیم کے لیے “لنکنز ان” کو ہی کیوں ترجیح دی؟” آپ نے جواب دیا کہ مجھے “لنکنز ان” اس لیے پسند آیا کہ وہاں حضرت محمد ﷺ کا اسم گرامی دنیا کے بڑے قانون دانوں کی فہرست میں بڑے جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔
حضرت محمد باقر سے روایت ہے کہ جب ایران کے بادشاہ یزد جرد کی بیٹی حضرت عمر فاروق کے پاس آئیں تو مدینہ کی باکرہ لڑکیاں ان کا حسن و جمال دیکھنے بالائے بام آئیں۔ جب مسجد میں داخل ہوئیں تو چہرے کی تابندگی سے مسجد روشن ہو گئی۔
حضرت علی المرتضی نے مشورہ دیا کہ اس شہزادی کو اختیار دو کہ یہ مسلمانوں میں سے کسی کو اپنے لیے منتخب کر لے ۔ اس کے حصہ غنیمت میں اس کو سمجھ لیا جائے۔
جب اختیار دیا گیا تو وہ لوگوں کو دیکھتی ہوئی چلیں اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
امیر المومنین نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے کہا جہان شاہ۔حضرت نے فرمایا نہیں بلکہ شہر بانو پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا اے ابو عبداللہ تمہارا ایک بیٹا اس کے بطن سے پیدا ہوگا جو اہل زمین میں سب سے بہتر ہوگا۔چنانچہ شہر بانو سیدنا حسینؓ کی تحویل میں آ گئیں جن سے علی بن الحسین حضرت زین العابدین پیدا ہوئے۔بس وہ بہترین عرب تھے ہاشمی ہونے کی وجہ سے وہ بہترین عجم تھے ایرانی ہونے کی وجہ سے اور مروی ہے کہ ابو الاسودد ئلی شاعر نے حضرت زین العابدین کی شان میں یہ شعر کہا وہ ایسے لڑکے ہیں جن کا تعلق کسری اور ہاشم دونوں سے ہے جن بچوں کے گلے میں تعویذ ڈالے جاتے ہیں ان میں وہ سب سے بہتر ہیں۔
علامہ اقبال نے فرمایا
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوتِ از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغِ حسرتِ مِیری است
یعنی حق وباطل کی معرکہ آرائی کبھی موسیٰ وفرعون کی صورت میں جاری رہی‘ پھر ختم المرسلین خاتم النبیینﷺ کے عہدِ مبارک میں چراغِ مصطفوی اور شرار بولہبی کی صورت میں نظر آئی اور آپﷺ کے بعد یہی معرکہ شبیر و یزید کی صورت میں بپا ہوا‘ یہی دو قوتیں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئیں‘ حق قوتِ شبیری سے زندہ ہے اورشاہی (باطل اقتدار) ظاہری فتح کے باوجود آخر کار داغِ حسرت بن کر رہ جاتا ہے
اقبال کہتے ہیں: امام عالی مقامؓ کی شہادت اسی داستانِ حرم کی انتہا ہے‘ جس کا آغازحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے ہوا تھا‘ وہ کہتے ہیں
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ‘ ابتدا ہے اسماعیلؑ
حضرت حسنین رضی اللہ تعالی عنہ اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ حج کو نکلے ابھی راستے ہی میں تھے کہ توشہ ختم ہو گیا اور بھوک اور پیاس کی شدت نے نڈھال کر دیا اچانک دور ایک خیمہ دکھائی دیا وہاں پہنچے تو دیکھا خیمے میں صرف ایک بڑھیا ہے اس سے پوچھا کہ آپ کے ہاں پینے کی کوئی چیز ہے بڑھیا نے کہا ہاں ہے ان حضرات نے بڑھیا کے ہاں پڑاؤ ڈال دیا اس کے پاس صرف ایک کمزور سی بکری تھی کہنے لگی اس بکری کا دودھ نکال کر پی لو ان حضرات نے دودھ نکالا اور پی لیا۔ پھر پوچھا کوئی کھانے کی چیز بھی ہے وہ بولی یہی بکری ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں
میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتی ہوں کہ جب تک میں لکڑیاں جمع کروں اس وقت تک تم میں سے ایک شخص اس بکری کو ذبح کر لے اور پھر اسے بھون کر کھا لو۔ چنانچہ ان حضرات نے ایسا ہی کیا اور وقت ٹھنڈا ہونے تک وہیں ٹھہرے رہے۔
چلتے وقت بڑھیا سے کہا ہم قریشی لوگ ہیں حج کے لیے مکہ جا رہے ہیں عافیت سے لوٹ آئے تو ہمارے ہاں آنا ہم تمہیں اس بھلائی کا بہترین بدلہ دیں گے.یہ کہا اور چلے گئےاس کا شوہر آیا تو اس نے سارا قصہ شوہر کو سنایا وہ سن کر ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ جن کو جانتی نہ پہچانتی ان کے لیے بکری ذبح کر ڈالی اور کہتی ہے کہ قریشی لوگ تھے۔
کچھ عرصے بعد میاں بیوی کی نوبت فاقے کو پہنچی تو مجبور ہو کر مدینہ منورہ کا رخ کیا یہاں اونٹ کی مینگنیاں چننے لگے بڑھیا مینگنیاں چنتی ہوئی ایک گلی سے گزری مینگنیاں جمع کرنے کا ٹوکرا ساتھ تھا حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہا اپنے مکان کے دروازے پر تشریف فرما تھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور آواز دے کر کہا بڑی بی آپ مجھے جانتی ہو وہ کہنے لگی نہیں حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں فلاں مقام پر فلاں سن میں فلاں روز آپ کا مہمان بنا تھا وہ کہنے لگی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو، میں نہیں پہچان سکی۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تم نہیں پہچان سکی تو کوئی بات نہیں میں نے تو آپ کو پہچان لیا۔اس کے بعد اپنے غلام کو حکم دیا کہ صدقے کی بکریوں میں سے ہزار خرید کر ان کے حوالے کر دو اور ایک ہزار دینار نقد عطا فرمائے اور اس کے بعد اپنے غلام کے ساتھ اسے اپنے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں بھیجا۔
سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی دیکھتے ہی فورًا پہچان لیا غلام سے دریافت کیا کہ بھائی حسن رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا دیا ہے اس نے بتا دیا تو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہا نے اسی قدر عطا فرمائے پھر غلام کے ساتھ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں بھیج دیا انہوں نے بھی دیکھتے ہی پہچان لیا غلام نے بتایا کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہا اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اتنا اتنا دیا ہے حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اگر آپ پہلے میرے پاس آتے تب بھی میں ان دونوں کی پیروی کرتا پھردوہزار بکری اوردو ہزار دینار کا حکم صادر فرمایا اس طرح وہ بڑھیا تمام اہل مدینہ سے زیادہ مالدار بن کر لوٹی۔
شاہ است حسینؓ و بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ و دین پناہ است حسینؓ
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقیقت یہ ہے کہ لا الہ کی بنیاد ہی حسینؓ ہیں
(خواجہ معین الدین چشتی)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں