• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زیر تعمیر کتاب” یوں آئے گی جمہوریت”کے آخری صفحات/اعظم معراج

زیر تعمیر کتاب” یوں آئے گی جمہوریت”کے آخری صفحات/اعظم معراج

حرف تمنا
جمہوریت پسند ہم وطنوں ،کوئی بھی نیا خیال نوزائیدہ بچے کی طرح ہوتا ہے۔جسے پیدائش کے وقت ماں، نانی, دادی، دائی ,نرس ،ڈاکٹر کے علاوہ کوئی اُٹھانا پسند نہیں کرتا۔لیکن جیسے ہی اسے نہلا دھلا کر تیار کیا جاتاہے, دیگر عزیز و اقارب بھی اسے خوشی سے لارڈ پیار سے چومنے لگتے ہیں۔پھر جیسے جیسے وہ معاشرے کا کار آمد فرد بنتا ہے ۔ پہلے گھر ،خاندان، محلے ،شہر اور پھر معاشرے میں اس کی پسندیدگی کا معیار معاشرے کے لئے اسکی افادیت پر منحصر ہوتا ہے ۔۔اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا خیال نیا بھی نہیں اور برصغیر کے برطانوی حکمرانوں نے اس پر بہت عرق ریزی بھی کی ہوئی ہے،اور برصغیر کے اس وقت کے نامور سیاسی اقلیتی راہنما جن میں نمایاں نام قائد اعظم ،امبیڈکر بھیم جی جیسے بھی شامل تھے’ اسے شرف قبولیت بخش چکے ہیں ۔اور پاکستان کی اقلیتیں تو 77سال سے ہی کسی ایسے نظام کی طلب گار ہیں ۔۔جس میں ان کی مذہبی شناخت والی نمائندگی انکے ووٹوں سے ان کے قومی ووٹ کو ختم کئے بغیر ملے، لیکن اس بات کا کریڈیٹ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ  اسکے   لئے جامع منصوبہ بندی کسی بھی دور میں نہیں ہوئی ، جیسا لائحہ عمل تحریک شناخت نے تیار کیا ہے ۔اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں۔

2001 سے خواتین کی مخصوص نشستوں کو بھی اسی نظام انتخاب کی طرح نافذ کر دیا گیا ہے ۔اس لئے آپ کے لئے یہ مطالبہ اس تناظر میں تو نیا ہوسکتاہے ،کہ پاکستان میں اس کے لئے کبھی آواز نہیں اٹھائی گئی ہے ،لیکن بنیادی خیال اور جن خامیوں کے ردِعمل میں یہ لائحہ عمل و مطالبہ تیار کیا گیا ہے۔وہ نیا نہیں ہے ۔ رہ گئی بات ان ترامیم کی  سفارشات کے ساتھ سینٹ کے انتحابات میں ترامیم کی سفارشات پیش کرنے کی ‘تو یہ طریقہ انتخاب بھی کئی ممالک میں رائج ہے ۔ اور دنیا کے بڑے   جمہوریت پسند ممالک میں بھی رائج ہے  ۔رہ گئی موجودہ نظام کی خامیاں تو ووٹوں کی خرید وفروخت چاہے اسکا بینفشری کوئی فرد ہو یا پارٹی راہنما  ، اسی طرح ایک صوبے کے شہری کا دوسرے صوبے سے سینئر منتخب کروانے کی طرح کی دیگر بے ضابطگیوں کے بعد سینٹ کے انتخاب کا موجودہ نظام جمہوریت دشمن اور سینٹ کے قیام اور اسکے  مقاصد کے حصول میں ایک رکاوٹ بن گیا ہے۔۔ خواتین کی مخصوص نشستوں اور سینٹ کے انتخابی نظام یقیناً بہت اچھی نیت سے متعارف کروائے گئے ہوں گے۔۔ لیکن جس طرح ہیرونچی نکاسی آب کے گندے پانی کے نظام کو اپنے ایک وقت کے نشے کی خاطر بند کرکے کسی بھی غریب بستی میں تعفن پھیلا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری اشرفیہ نے جمہوریت کی آڑ میں مسلسل تنزلی کی طرف کیے گئے سفر میں ، اپنی طمع ،ہرص زر و اقتدار، میں اپنائے گئے رویوں کی بدولت ان دونوں نظاموں کی خامیوں کو ایسے اجاگر کیا ہے  کہ ہر طرف ہیرونچیوں کی کارروائی کے بعد جیسا ماحول بن گیا ہے ۔۔کچے  معاشرے و سماج کا کا تار پور گٹر لیرو لیر ہوگیا۔ حساس پاکستانیوں کو معاشرہ تعفن زدہ لگنے لگا ہے ۔۔عام انسان کو بھی سمجھ بے شک نہ آتی ہو لیکن اسکی بے چینی بھی اسی طرح کی ہے ۔۔۔

اس لئے تمام جمہوریت پسند پاکستانیوں خواتین و حضرات سے گذارش ہے کہ ،ان سفارشات سے متفق ہونے کے بعد اس خیال کو پھیلانے میں جنگی بنیادوں پر حصہ لیں ۔۔ اسکے لئے پہلا مرحلہ یہ ہی ہے، کہ پہلے آئینی ترامیم کی ان سفارشات کو سمجھیں ،جسکے کے لئے آپ کو اس کتاب کی مفت کاپی مکالمہ ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔ باقی اگر آپ ہارڈ کاپی میں پڑھنا چاہیں  تو پھر آپ کو یہ کتاب خریدنا پڑے گی۔۔پڑھ ،سمجھ کر آپ متفق ہوں تو پھر اس بے ضرر مہم کا حصہ بنیں ، ہم مل جل کر اعزازی کتابیں اس ملک کی دانشور ،سیاسی ،اور ریاستی اشرفیہ تک پہنچائیں گے۔ آپ بھی اس کام میں اس طرح اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں کہ آپ اپنے آس پاس دستیاب اشرفیائی مخلوقِ سے مکالمہ کرکے انھیں قائل کرےیں کہ ،یہ سفارشات اس ملک وقوم اور جمہوریت کی بقاء کے لئے کتنی ضروری ہیں ۔ اس کے علاوہ مفت کتاب کا  لنک جتنا ہوسکے لوگوں تک پہنچائیں ۔ اگر کم وسائل والے ساتھی کتابی صورت میں پڑھنے کی خواہش رکھتے ہوں، تو ان ساتھیوں تک یہ کتابیں پہنچائیں۔ پاکستان کے چپے چپے میں پھیلے ہم خیال ساتھیوں کے یوسی سطح کے خواتین وحضرات کے علیحدہ علیحدہ  گروپ بنائیں ۔ جن کو ان تینوں ترامیم کا پورا فلسفہ سمجھ آ جائے وہ دوسروں کی مدد سے ویڈیو کلپس بنائیں ۔اپنے آس پاس پھیلے روائتی پیشہ ور سیاست دانوں کو آگاہی دیں ۔ عام سول سوسائٹی کو احساس دلائیں کہ  یہ تین ترامیم ملک و قوم کی بقاء وترقی کے لئے کتنی ضروری ہیں ۔۔ ملک میں ایک فکری انقلاب برپا کردیں۔ ان تینوں انتخابی  نظاموں کی خامیوں کو معاشرے میں پھیلائیں۔ یقین مانیں  سیاست کو پیشہ سمجھنے والوں کو بھی اپنے اس پیشے کے اسرار و رموز کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ،جہاں موقع ملے ان معصوموں کی شعوری تربیت کریں ۔۔ فکری انقلاب ہی دیگر انقلابات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔  چھوٹے بڑے شہروں میں رہنے والے خواتین و حضرات اپنے اپنے شہروں کے پریس کلبوں میں صحافیوں سے لابنگ کریں۔ یہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی ایسی فکری تحریک ہوگی جس کے راہنما  عام خواتین و حضرات ہونگے ۔ بس سب سے پہلے موجودہ نظام جس میں 1181میں سے ان 322 خواتین و حضرات جو کہ تقریباً 27.26% بنتے ہیں،کے طریقہ انتخاب سے جڑے جمہوریت دشمن پہلوؤں پر بہت سنجیدگی سے غور کریں ۔آپ جس بھی جماعت کے حمایتی یا ووٹرز ہیں وہی رہتے ہوئے اس آگاہی مہم میں شریک ہوں ۔

 قوم کی ماؤں ،بہن ،بیٹوں کے نام اپیل
ویسے تو یہ پوری قوم کا ہی انتہائی توجہ طلب مسئلہ ہے  اور موجودہ بحران نے تو ریاست کے تینوں آئینی ستونوں کی چولیں ہی ہلا کر رکھ دی ہیں ۔۔لیکِن ہماری قوم کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ ہم اجتماعی سے زیادہ انفرادی مسائل پر توجہ دیتے ہیں ۔ جسکی وجہ سے ہم قومی مسائل کی طرف کم اور مسلکی ،مذہبی ،صنفی ، لسانی جغرافیائی و دیگر ایسی شناختوں کی بنیاد پر مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ اس لئے خصوصی طور پر اپنی پاکستانی قوم کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سے گزارش کرتا ہو ں کہ وہ بھی اس مسئلے  کو سمجھیں اور پھر منظم طریقے سے اس کے لئے لابنگ کریں ۔ کوشش کریں کہ کسی طرح یہ مسئلہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہو۔ وہ سارے اقدامات کریں جو اوپر تجاویز کئے گئے ہیں ۔تاکہ آپکی صنفی شناخت پر جن خواتین کو چنا جاتاہے ۔اس نظام میں ترمیم کرکے اس کے لئے انصاف اور شفافیت پر مبنی طریقہ انتخاب وضع ہو جائے ؟ تاکہ پاکستان کی  ساڑھے بارہ کروڑ خواتین نمائندگی کے اس مقابلے میں حصہ لینے کی بھی اہل ہوں۔ اور وہ اپنی صنفی شناخت پر نمائندگان کو منتخب کرنے کا اختیار بھی آپ کے پاس ہو۔یقیناً اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے کوشش کرنا ایک تاریخی کام ہے۔ اور تاریخ بنانے کا موقع ہر وقت   ہر کسی کو نہیں ملتا، لہذا دامے، درمے، سخنے،قدمے جتنا ہو سکے اس میں حصّہ لیں ۔

اقلیتی سیاسی ،سماجی مذہبی ورکروں/راہنماؤں اور عام اقلیتی شہریوں سے اپیل
آپ جس بھی مسلک ،این جی او ،یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ آئیں اقلیتوں کے موجودہ غیر جمہوری ،غیر انسانی ، اور جمہوری غلام بنانے والے اس نظام کے خلاف پُر امن، بے ضرر آگاہی مہم میں حصہ لیں۔ اس نظام میں آپ کی شناخت پر نمائندگی کے نام سے اس ملک کی سیاسی اشرفیہ اپنے لئے 34 مزید جمہوری غلام بھرتی کر لیتی ہے ۔۔ کیا ان جمہوری غلاموں کو ہار ڈالتے انکے قصیدے پڑتے آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ کس قسم کی جمہوریت ہے ۔؟جس میں ایک کروڑ اقلیتوں کی سات آٹھ قسم کی مذہبی شناخت رکھنے والی اقلیتوں کے نام پر 25 کروڑ کے خرچے پر پُر آسائش مراعات والی نمائندگی پر صرفِ پانچ چھ لوگ نمائندے منتحب کر لیتے ہیں ۔ اس مکروہ نظام کے خلاف آپ تب ہی آواز اٹھا سکتے ہیں جب آپ اس کے پس منظر کے ساتھ اسکی خوبیوں ،خامیوں کو بخوبی جان لیں گے ۔  لہذا خدارا اس کتاب کو دھیان سے پڑھیں۔ خرید سکتے ہیں ،تو خریدکر پڑھیں، صاحب حیثیت ہیں تو بانٹیں ، اگر کتاب خرید کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو ہمیں بتائیں ہم دنیا بھر میں آپ تک مفت سوفٹ کاپی پہنچائیں گے، کھلے دل دماغ کے ساتھ پڑھ کر متفق ہو جائیں تو پھر دل جان سے جتنا وقت ہوسکے ،اپنے وسائل اہلیت ،سماجی، معاشرتی حیثیت کے مطابق اس آگاہی مہم میں حصہ لیں ۔مواد بانٹیں ، لوگوں سے گفتگو کریں ۔ سوفٹ کاپیاں شیئر کریں سوشل میڈیا پر مہم چلائیں ۔اس بے ضرر فکری انقلاب میں حصہ لیں، فکری انقلاب ہی دیگر انقلابات کی بنیاد بنتے ہیں ۔۔ آپکی معمولی سی کوشش اس ملک کی اقلیتوں کو دماغ ماؤف کر دینے والی  محرومیوں کے سوداگروں ،مذہب کے بیوپار سے وابستہ اور جمہوری غلاموں اور ان کے آقاؤں کے چنگل سے نکال سکتی  ہے ۔۔ چرچ، مندر ،گردوارے، تعلیمی ادارے ،یا جو بھی پلیٹ فارم آپکو دستیاب ہوں ۔اسے استعمال کریں ۔ اگر آج ان  34میں آپ کا نام نہیں آیا تو زندگی کے قیمتی پانچ سال اس آس امید پر نہ گزار دیں کہ ۔۔ اگلی بار تو موقع ملے گا۔۔ ایسی آس امید پر اپنے دل دماغ ،ضمیر کو نہ ماریں، آواز اٹھائیں سوال کریں ۔ کوئی عمران خان ،نواز شریف ،آصف زرداری یا نمائندگی بانٹنے کا استحقاق رکھنے والا اس سوال پر آپ کو پارٹی سے نہیں نکال دے گا۔کہ آپ نے اقلیتوں کے انتخاہی نظام میں تبدیلی کی بات کی ہے ۔۔سوچیں کیا کسی مکمل انسان کو یہ زیب دیتا ہے  کہ جمہوری غلامی کی طلب کی آس ،امید پر اپنا آپ مار لے ۔۔ بے شک  قابل رحم ہے،وہ شخص جو سیرابوں کے پیچھے سامنے پڑے امرت کے جام کو ٹھوکر مار دے ۔ اس میں شک نہیں کہ برصغیر کے باسیوں کی ہزاروں سالہ غلامی نے غلامی کی وہ خو بو (چند استشنات کو چھوڑ )ہماری رگ  رگ میں اُتار دی ہے ۔۔ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر اسکے اثرات اور بھی گہرے ہیں ۔ اس میں آخری کیل موجودہ اقلیتی انتخاہی نظام ٹھوک رہا ہے۔

اُٹھو اے اقلیتی شہریوں !ٹیکنالوجی کی بدولت سچ اب اتنا عام ہوگیا ہے،کہ اسکے زور پر روز جیتے جاگتے معجزے ہورہےہیں ۔۔تمہیں بھی اس ذہنی کیفیت سے نکلنا پڑے گا۔ اپنے اور اپنے لوگوں کے گرد پھیلے جہالت کے اندھیروں میں حقائق سے روشنی کرو۔ دیکھنا سویر ضرور ہوگی ۔۔ کوئی شک نہیں اندھیرا بہت گہرا ہے  لیکن یہ بھی عالمی سچائی ہے  کہ رات کے آخری پہر صج نو سے ذرا پہلے رات بہت گہری ہو جاتی  ہے ۔ یہ تیرگی صبح نو کی نویدِ سناتی ہے۔پُرامن جلسہ، جلوس کرنے کی اہلیت ہے تو ضرور کریں ورنہ کرنے والوں کی فکری راہنمائی کریں ۔پہلی شرط اس مسئلے کو سمجھنے کی ہے  ۔پھر اپنی بساط کے مطابق اس کے لئے لوگوں کو آگاہی دو، اس ہزاروں سال کے تاریخ کے جبر کی بدولت پیدا ہونے والی ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑ دو  ۔ اپنے آباء کی سرزمین پر شان سے جینے کا یہ وطیرہ نہیں، کہ چند مہینے کی مراعات کے لئے انسان اپنی زندگی جیسے عظیم عطیہ خداوندی کو گروی رکھ دے۔

julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply