دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کو موت کی نیند سلا دیا ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی نے اپنے حلیفوں کی مدد سے یورپ میں موجود ہر تین میں سے دو یہودیوں کو قتل کر ا دیا تھا اور اس قتل عام کو فائنل سولوشن یعنی حتمی حل کا نام دیا۔
نازی جرمنوں نے یہودیوں کے علاوہ اپنے سے مخالف نظریات رکھنے والوں ، خانہ بدوشوں کیمونسٹوں اور معذور افراد کو بھی قتل کیا اور معاشرے کی اس صفائی کو رحمدلانہ موت کا نام دیا۔
اس مشن کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے جبری مشقت ، بھوک ، کیمپوں میں قید اور گیس چیمبر یعنی آگ کی بھٹیوں کا بھی بندوبست کیا
اس سارے ظلم کو نازیوں نے ہولوکاسٹ کا نام دیا یعنی آگ کے ذریعے قربانی۔۔
اگر آپ جرمنی میں میونخ جائیں تو آپ کو کیمپ میں ان بھٹیوں کو دیکھنے کا بھی موقع ملے گا جہاں انسانوں کو جلایا جاتا رہا ہے۔
اب جب یہ سارا ظلم ہو چکا اور جرمنی نے جنگ ہار کر گھٹنے ٹیک دیئے تو انتہا پسندوں نے کوشش کی کہ اس ظلم کو دنیا سے چھپایا جائے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب قصےکہانیاں ہیں ایسا کچھ ہوا ہی نہیں یہودی کسی وبا کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور ایسی کوئی آگ کی بھٹیاں تھیں ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
انتہا پسندوں کے اس رویے کے خلاف جرمنی اور یورپ کے بہت سے ممالک نے قوانین بنوالئے ہیں جن کے تحت ہولوکاسٹ کا انکار کرنا قانونا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔
کیونکہ قانون دانوں کا خیال ہے کہ کسی ظلم ہونے کے بعد اس ظلم کا یہ کہہ کر مذاق اڑانا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے مظلوموں کی توہین کے زمرے میں آتا ہے اور ایسے بیانات مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہیں۔
واقعہ کربلا بھی اسلامی تاریخ کا سیاہ ترین سانحہ ہے جس میں مسلمانوں نے اپنے ہی محبوب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانوادے کو اس طرح قتل کیا کہ چھ ماہ کے ننھے علی اصغر کو بھی نہ بخشا۔
گزشتہ کئی صدیوں سے امت اس ظلم پرمشترکہ طور پر سراپا احتجاج رہی ہے۔
لیکن پھر پاکستان میں فرقہ واریت کی ایسی آندھی چلی، اکابرین پر تبرہ کی روایات نے دلوں میں نفرتوں کے ایسے پودے اگائے کہ اب ایسی ویڈیو بھی آپ کو یو ٹیوب پر مل جائیں گے جس میں کوئی مفتی صاحب اس واقعہ کو اعلانیہ فراڈ اور جھوٹ کہتا نظر آجائے گا۔
کچھ دن پہلےایک دانشور کا یہ جملہ پڑھ کر میں لرز گیا کہ
واقعہ کربلا میں خانوادہ رسول سفر کے دوران کسی وبا سے ہلاک ہوگیا ہوگا ۔۔۔
مظلوم کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوگی کہ مظلوم کی موت کا مذاق اڑایا جائے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے ہر مذہبی دن متنازعہ ہوجاتا ہے جن دنوں میں ہم اپنے بچوں کو اپنے ہیروز کا تعارف کراکے ان کی استقامت صبر قربانی اور ایمان کی مثالیں سنا کر ان کے دل میں ان کی محبت جگا سکتے ہیں ان دنوں میں ہم مخالف فرقے کے اکابرین کو تنقید کا نشانہ بناکر اصل سبق سے توجہ ہی ہٹا دیتے ہیں اور پھر جواب میں ایسے ایسے جاہل ایسی تاویلات لاتے ہیں۔
کسی فرقے کے خلاف بغض میں اس حد تک نہیں چلے جانا چاہیے کہ کل روز محشر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کرتے ہی شرم آئے کہ میں آپ سے محبت تو بہت کرتا ہوں لیکن آپ کے نواسے کی شہادت کا مذاق بناتا رہا یا آپ کے ان دوستوں کی توہین کرتا رہا جو آپ کے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
پاکستان میں واقعہ کربلا پر بھی اسی طرح کی قانون سازی کی جانی چاہئے جیسی یورپی ممالک نے ہولو کاسٹ پر کروائی ہے ورنہ یہ آگ ساری تاریخ کو مسخ کر دے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں