بالآخر 8 ذی الحجہ 60 ہجری حج سے ایک قبل یعنی 9 ستمبر 680ء کے دن حضرت حسین تقریباً پچاس آدمیوں اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکہ سے کوفہ کی طرف عازم سفر ہوئے. صحرائے عرب کے شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ کارواں روانہ تھا. مکہ میں حضرت حسین کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن جعفر کے بیٹے اور مکہ کے گورنر عمرو بن سعید کا بھائی اپنے بزرگوں کے حکم کے تحت تیزرفتاری سے حسینی کاروان کا پیچھا کرتے ہوئے حضرت حسین تک پہنچ گئے. انہوں نے حضرت حسین کو کوفہ پہنچنے کا منصوبہ ترک کرکے انہیں واپسی پہ قائل کرنے بھرپور کوشش کی. اُنہوں نے مکہ واپسی پہ رضامندی کے بدلے حضرت حسین اور انکے خاندان کو مکمل حفاظت کی یقین دہانی کرائی. مگر حضرت حسین نے واپس آنے سے یہ بتاتے ہوئے انکار کر دیا کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے انکو نتائج کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھنے کا حکم دیا ہے.
سفر کے دوران ثعلبیہ نامی جگہ پر حضرت حسین کے قافلے تک مسلم ابن عقیل کے قتل اور کوفہ کی تازہ صورتحال کی اطلاع پہنچی تو حضرت حسین نے اہل کارواں سے پیچھے ہٹنے پر مشورہ طلب کیا. لیکن مسلم ابن عاقل کے بھائیوں نے اسے آگے بڑھنے کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے نہ صرف اموی حکومت کے خلاف بغاوت کا عزم دہرایا بلکہ اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم بھی کیا. لہذا کارواں ایک بار پھر سے کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا.
مکہ میں روز اول سے ہی کارواں میں شریک افراد کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ راستے میں حضرت حسین کے ساتھ مل گئے تھے. بعد ازاں زبالا کے مقام پہ حضرت حسین کو اپنے اُس قاصد قیس بن مظاہر السیداوی کی گرفتاری اور قتل کا علم ہوا جسے حجاز (مغربی عرب) سے کوفہ بھیجا تھا تاکہ اہل کوفہ کو حضرت حسین کی آمد کی پیشگی اطلاع دی جائے. قیس کی گرفتاری اور قتل کی اطلاع کے بعد راستے میں جو لوگ اس کے ساتھ شامل ہوئے تھے ان میں سے اکثر خوفزدہ ہو کر واپس چلے گئے، جب کہ باقی تمام اہل کارواں نے آخری سانس تک حضرت حسین کے ساتھ رہنے کا عزم کیا.
بہرحال اندیشوں اور خطرات کو پرکاہ برابر اہمیت دیتے ہوئے حسینی قافلہ جیسے جیسے اگے بڑھا دوسری طرف ابن زیاد نے کوفہ کے راستوں پر فوجی تعیناتی اور گشت کو بڑھا دیا. یذید کے حکم کے عین مطابق ابن زیاد نے حضرت حسین کو کوفہ پہنچنے سے روکنے کے لیے اپنی ساری قوت مجتمع کرتے ہوئے مکمل تیاری کر رکھی تھی. حتی کہ کوفہ کے جنوب میں قادسیہ کے قریب الحر بن یزید التمیمی کی کمان میں ایک ہزار فوجیوں پہ مشتمل یذیدی دستے نے حسینی کاروان کو گھیر کر ان کا راستہ روک دیا. یذیری فوج اور حسینی کارواں پہلی مرتبہ آمنے سامنے تھے. حضرت حسین نے حُر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“میں تو آپ کے خطوط موصول ہونے کے بعد آپکی طرف آیا ہوں. میرے پاس آپ کے قاصد تو یہ کہتے ہوئے آئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ہے. آپ نے میری قیادت میں حق کے لیے متحد ہونے کا پیغام بھیجا تھا. چونکہ آپ نے درخواست بھیجی تھی اس لیے میں آپ کے پاس آیا ہوں. لیکن اب آپ اپنے پیغامات، وعدوں اور قسموں سے انحراف کرتے ہوئے میری آمد کو ناپسند کرتے ہو تو میں واپس پلٹنے کو تیار ہوں”.
پھر حضرت حسین نے حَر کو ثبوت کے طور پر اہل کوفہ کی طرف سے موصول ہونے والے خطوط دیکھائے. مگر حُر نے ایسے تمام خطوط اور پیغامات سے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت حسین کو ابن زیاد کے سامنے پیش ہونے کا موقع دینے کی پیشکش کی. لیکن حضرت حسین نے حُر کی پیشکس سے قطعی انکار کیا تو حُر نے جواب دیا “ہم اپکو نہ تو کوفہ پہنچنے دیں گے نہ ہی اپکو مکہ یا مدینہ واپسی کی اجازت دی جائے گی”. اس دو-طرفہ گفتگو کے بعد حُر کے دستے میں شامل چار فوجی منحرف ہو کر حضرت حسین کے قافلے کے ساتھ مل گئے. یہ چار فوجی حضرت حسین کو خطوط لکھنے والوں میں شامل تھے.
حر نے فوجی دستہ اس طرح سے تعینات کر رکھا تھا کہ حسینی کارواں کوفہ کی طرف ایک قدم بھی بڑھانے کے قابل نہیں تھا. حضرت حسین نے قافلے کا رخ کوفہ کی بجائے قریبی شہر قادسیہ کی طرف موڑ کر برق رفتاری سے چل نکلے تو حر ان کا پیچھا کرنے لگا. نینوا کے مقام پہ حسینی کارواں کے تعاقب کے دوران حر کو ابن زیاد کی طرف سے حکم ملا کہ وہ حضرت حسین کے قافلے کو کسی ویران جگہ پر بغیر قلعہ بندی اور پانی کے رکنے پر مجبور کرے. صورتحال کا اندازہ ہونے پہ حضرت حسین کے ساتھیوں میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ وہ حر پر حملہ کریں تاکہ قریبی قلعہ بند گاؤں العقر میں پہنچنے کا موقع ملے. مگر حضرت حسین نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ لڑائی شروع نہیں کرنا چاہتے. بالآخر 2 اکتوبر 680ء یعنی 2 محرم 61 ہجری تک حسینی کارواں حُر کے مسلسل تعاقب اور گھیراؤ کی وجہ سے کوفہ کے شمال میں شہر سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر صحرائی میدان کربلا میں رک کر پڑاؤ ڈالنے پہ مجبور کر دیا گیا.
اگلے دن کوفیوں کی 4000 فوجیوں پہ مشتمل فوج عمر بن سعد کی کمان میں کربلا آن پہنچی. یہ فوج دراصل مقامی بغاوت کو دبانے کے لیے “رے” میں تعینات تھی لیکن پھر اسے حضرت حسین کے لیے واپس بلایا گیا۔ ابتدائی طور پر، وہ حسین سے لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا، لیکن ابن زیاد کی جانب سے دھمکی کے بعد اس کی تعمیل کی. حضرت حسین سے مذاکرات کے بعد ابن سعد نے ابن زیاد کو لکھا کہ حضرت حسین واپس جانے کے لیے تیار ہیں. ابن زیاد نے جواب دیا کہ حسین کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے یا اسے زبردستی زیر کر لیا جائے انکو مجبور کرنے کے لیے انکو اور ان کے ساتھیوں کو دریائے فرات تک رسائی سے روک دیا جائے. لہذا ابن سعد نے دریا کی طرف جانے والے راستے پر 500 سوار تعینات کر دئیے. جسکی وجہ سے حسینی کاروانِ تین دن تک پانی کے بغیر قیام پزیر رہا. جس کے بعد حضرت حسین کے سوتیلے بھائی حضرت عباس کی قیادت میں پچاس آدمیوں کا ایک گروپ دریا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا مگر وہ صرف پانی کے بیس مشکیزے بھرنے میں کامیاب ہو سکے.
حضرت حسین اور ابن سعد رات کو کسی تیسرے کی غیرموجودگی میں بات چیت کرنے کے لیے ملے. یہ افواہ تھی کہ حضرت حسین نے تین تجاویز پیش کیں: یا تو مدینہ واپس جانے کی اجازت دی جائے، یا براہ راست یزید کے سامنے پیش کیا جائے، یا کسی سرحدی چوکی پر بھیج دیا جائے جہاں وہ مسلم فوجوں کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہو جائیں. یہ اطلاعات شاید غلط ہیں کیونکہ اس مرحلے پر حضرت حسین نے یزید کے تابع ہونے پر غور نہیں کیا تھا. جبکہ حضرت حسین کی بیوی نے بعد میں دعویٰ کیا کہ حضرت حسین نے صرف واپس جانے پہ رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ تمام فریق سیاسی صورتحال کے واضح ہونے کے بعد کسی معاہدے تک پہنچ سکیں. بہرحال جو گفتگو بھی ہوئی ابن سعد نے وہ تجویز ابن زیاد کو بھیجی، ابن زیاد نے بھی رضامندی ظاہر کی لیکن شمر بن ذی الجوشن نے استدلال کیا کہ آج حضرت حسین ان کے دائرہ اختیار میں ہے اگر انکو جانے دیا تو پھر وہ کبھی ہاتھ نہیں آئے گا اور شائد ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ بن جائے. اس کے بعد ابن زیاد نے شمر کو حکم کے ساتھ بھیجا کہ حضرت حسین سے ایک بار پھر بیعت کا مطالبہ کرے اور اگر وہ انکار کرے تو اس پر حملہ کرے، بدسلوکی کرے، حتی کہ قتل کرنے کا اختیار بھی جاری کر دیا. اب زیاد نے حکم دیا کہ حضرت حسین کو ایک باغی، ایک فتنہ پرست، ایک لٹیرے، ایک ظالم فرد کے طور پہ دیکھا جائے. علاوہ ازیں اگر ابن سعد حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تو وہ کمان شمر کو سونپ دے گا.
جب شمر ابن زیاد کا حکمنامہ لیکر پہنچا تو عمر ابن سعد نے شمر پر لعنت بھیجی اور اس پر پرامن تصفیہ تک پہنچنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کا الزام لگایا. لیکن اس نے حکم پر عمل کرنے پر رضامندی بھی ظاہر کرتے ہوئے تاریخی کلمات کہے کہ حسین کبھی بھی بعیت نہیں کریں گے کیونکہ ان کے اندر ایک غیرت مند روح ہے.
پھر 9 اکتوبر کی شام کو یذیدی فوج نے حسینی کارواں کی طرف پیش قدمی کرنے لگی تو حضرت حسین نے حضرت عباس کو عمر ابن سعد پاس اگلی صبح تک انتظار کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہ اس معاملے پر آخری دفعہ غور کر سکیں. ابن سعد نے اس مہلت پر رضامندی ظاہر کی. حضرت حسین نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ رات کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ نکلنے کے لیے آزاد ہیں لیکن بہت کم لوگوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا. جس کے بعد دفاعی انتظامات کیے گئے: خیموں کو اکٹھا کیا گیا اور ایک دوسرے سے باندھ دیا گیا اور خیموں کے پیچھے ایک کھائی کھودی گئی اور اسے لکڑی سے بھرا گیا جو حملے کی صورت میں جلائی جانی تھی. حضرت حسین اور ان کے پیروکاروں نے اس کے بعد باقی رات عبادت میں گزاری.
10 اکتوبر کو صبح کی نماز کے بعد دونوں جماعتوں نے جنگی پوزیشنیں سنبھال لیں. حضرت حسین نے ظہیر ابن القین کو اپنی فوج کی دائیں طرف کی کمان، حبیب ابن مظاہر کو بائیں جانب کی کمان اور اپنے سوتیلے بھائی حضرت عباس کو معیاری بردار مقرر کیا۔ حضرت حسین کے ساتھ بتیس گھڑ سوار اور چالیس پیادہ تھے. عمر ابن سعد کی فوج کی کل تعداد چار ہزار تھی. شیعہ ذرائع کے مطابق مزید دستے ابن سعد کے ساتھ مل گئے تھے جس سے اس کی فوج کی تعداد 30,000 تک پہنچ گئی تھی. حسینی لشکر نے لکڑی پر مشتمل کھائی کو آگ لگا دی گئی. اس کے بعد حضرت حسین نے اپنے مخالفین کو مخاطب کرکے ایک تقریر کی جس میں حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے کی حیثیت سے اپنا مرتبہ یاد دلایا اور انہیں کوفہ پہنچنے کی دعوت دینے اور پھر وعدہ خلافی پہ ملامت کی. واپس جانے پہ اپنی رضامندی کا بتایا. مگر ابن سعد نے یزید کی حکومت کے سامنے سرتسلیم خم کا آخری موقع دیا جو حضرت حسین نے مسترد کر دیا. اس موقع پر حضرت حسین کے استدلال نے حر بن یزید التمیمی کو مجبور کر دیا کہ وہ یذیدی لشکر سے انحراف کرکے حضرت حسین کے ساتھ آن ملے.
حضرت حسین کی تقریر کے بعد یذیری لشکر حسینی کارواں پہ حملہ آور ہوا جس کا زہیر ابن القین نے دلیری سے سامنا کیا. ابن سعد کی فوج نے کئی تیر برسائے، اس کے بعد براہ راست آمنے سامنے پیدل لڑائی ہوئی جس میں حضرت حسین کے کئی ساتھی مارے گئے. پھر کوفی دستوں کے دائیں بازو نے عمرو بن الحجاج کی قیادت میں حضرت حسین کی فوج پر حملہ کیا لیکن اسے پسپا کر دیا گیا. یوں ہاتھا پائی کی لڑائی رک گئی اور تیروں کا مزید کا تبادلہ ہوا. پھر شمر جو اموی فوج کے بائیں بازو کی کمان کر رہا تھا نے حملہ کیا، لیکن دونوں طرف سے نقصان کے بعد وہ بھی پسپا ہو گیا. اس کے بعد گھڑ سواروں کے حملے ہوئے. حضرت حسین کے گھڑسوار دستے نے سخت مزاحمت کی جس کے بعد ابن سعد بکتر بند گھڑسواروں اور پانچ سو تیر اندازوں کو لے کر میدان میں اترا. تیر انداز دستے کے تیروں کی زد میں آکر حسینی لشکر کے گھوڑوں کے زخمی ہو کر ناکارہ ہو گئے. جس کے بعد گھڑ سوار پیدل ہی لڑائی لڑنے لگے.
چونکہ اموی فوجیں صرف سامنے سے ہی حضرت حسین کی فوج تک پہنچ سکتی تھیں، اس لیے ابن سعد نے خیموں کو جلانے کا حکم دیا سوائے اس کے جس کو حضرت حسین اور اس کا خاندان استعمال کر رہے تھے سب کو آگ لگا دی گئی. شمر نے اسے بھی جلانا چاہا لیکن اسے روک دیا گیا. منصوبہ الٹا ہوا اور شعلوں نے اموی پیش قدمی کو تھوڑی دیر کے لیے روک دیا. ظہر کی نماز کے بعد حضرت حسین کے لشکر کو گھیرے میں لے کر پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً حسینی فوجی ایک ایک کر کے مارے گئے. حضرت حسین کے رشتہ دار، جنہوں نے اب تک لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا، جنگ میں شامل ہو گئے. حضرت حسین کے بڑے بیٹے علی الاکبر قتل ہوئے، پھر حضرت حسین کے سوتیلے بھائی بشمول حضرت عباس قتل ہوئے اور عقیل ابن ابی طالب کے بیٹے، جعفر ابن ابی طالب اور حسن ابن علی کے بیٹے ایک ایک کر کے قتل ہو گئے. اسی دوران حضرت حسین کا ایک چھوٹا شیرخوار بچہ بھی تیر کی زد میں آ کر قتل ہو گیا.
اموی سپاہیوں نے حضرت حسین پر براہ راست حملہ کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، لیکن جب وہ دریا کی طرف بڑھے تو تیراندازوں نے تیر برسائے جس کے نتیجے میں ان کے منہ پر تیر لگا. انہوں نے اپنے خون کو ہاتھوں میں جمع کرکے آسمان کی طرف پھینکا اور اللہ سے اپنی تکلیف کی شکایت کی. یہاں تک کہ مالک بن نصیر حضرت حسین تک آن پہنچا، سر پر تلوار کا ایسا زوردار وار کیا کہ لوہے کی خورد ٹوٹ گئی جسے حضرت حسین نے اتار کر اپنے حملہ آور کے سر پہ دے ماری. حضرت حسین نے اپنے زخمی سر پر ٹوپی رکھ کر اس کے گرد پگڑی لپیٹ لی تاکہ خون بہنا رک جائے. ابن نصیر نے وہ خون آلود چادر چھین کر پیچھے ہٹ گیا.
پھر شمر پیدل سپاہیوں کے ایک دستہ لیکر حضرت حسین کی طرف بڑھا. حضرت حسین کے کیمپ سے ایک نوجوان لڑکا خیموں سے بھاگ کر ان کے پاس آیا، تلوار کے وار سے دفاع کرنے کی کوشش کی مگر اس کا بازو کاٹ دیا گیا. اسی اثناء میں ابن سعد خیموں کے قریب پہنچا تو حضرت حسین کی بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: “عمر بن سعد، کیا ابو عبد اللہ (حسین کی کنیت) کو قتل کر دیا جائے گا اور تم کھڑے ہو کر دیکھتے رہو گے؟”. بی بی زینب کی بات سن کر ابن سعد رو دیا. دوسری جانب حضرت حسین جو کربلا سے پہلے کئی جنگوں میں لڑنے کا تجربہ رکھتے تھے نے اپنے کئی اموی حملہ آور فوجیوں کو براہ راست لڑائی کے دوران کاٹ کر ہلاک کر دیا تھا. آخر کار شمر نے چیخ کر کہا: “شرم کرو! تم ایک آدمی سے کیوں ڈر رہے ہو؟ اسے مار ڈالو، ورنہ تمہاری مائیں تم سے محروم ہو جائیں گی!”. اموی سپاہیوں نے پھر سے حضرت حسین پہ حملہ کیا جس سے ان کے ہاتھ اور کندھے پر زخمی ہو گئے اور وہ منہ کے بل زمین پر گر گئے. اسنان ابن انس نامی حملہ آور نے پےدرپے وار کرکے حضرت حسین کا سر قلم کر دیا.
حسینی لشکر کے 70 یا 72 لوگ قتل ہوئے جن میں سے تقریباً بیس حضرت ابو طالب کی اولاد تھے جو علی کے والد تھے. اس میں حضرت حسین کے دو بیٹے، ان کے چھ پھوپھی زاد بھائی، حسن بن علی کے تین بیٹے، جعفر ابن ابی طالب کے تین بیٹے، اور عقیل ابن ابی طالب کے تین بیٹے اور تین پوتے شامل تھے. جنگ کے بعد حضرت حسین کے کپڑے اتار لیے گئے اور ان کی تلوار، جوتے اور دیگر سامان قبضے میں لے لیا گیا. خواتین کے زیورات اور چادریں بھی چھین لی گئیں. شمر نے حضرت حسین کے اکلوتے زندہ بچ جانے والے بیٹے علی السجاد کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس نے بیماری کی وجہ سے لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا، لیکن ابن سعد نے اسے روک دیا تھا. حضرت حسین کے جسم جس پر ساٹھ سے زیادہ زخموں تھے کو ابن زیاد کی ہدایت کے مطابق گھوڑوں سے روند دیا گیا. حضرت حسین کے ساتھیوں کی لاشوں کے سر قلم کیے گئے. ابن سعد کی فوج کے 88 مقتولین کو جانے سے پہلے دفن کر دیا گیا. ان کے جانے کے بعد غدیریہ کے قریبی گاؤں کے قبیلہ بنو اسد کے افراد نے حضرت حسین کے ساتھیوں کی بے سر لاشوں کو دفن کر دیا.
حضرت حسین کے خاندان کو، مرنے والوں کے سروں کے ساتھ، ابن زیاد کے پاس بھیج دیا گیا. اس نے حضرت حسین کے منہ پہ چھڑی کے وار کیے اور علی السجاد کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت حسین کی بہن زینب کے کہنے پہ اسے بخش دیا. اس کے بعد سروں اور خاندان کو یزید کے پاس بھیجا گیا. یذید نے حضرت حسین کے منہ پہ چھڑی کے وار کیے مگر بہت سے مورخین ایسے کسی واقعے سے انکار کرتے ہیں. بہرحال بی بی زینب کے سامنے یزید نے ابن زیاد پر حضرت حسین کو قتل کرنے پر لعنت بھیجی اور کہا کہ اگر وہ وہاں ہوتا تو اسے قتل نہ کرتا. اس کے درباریوں میں سے ایک نے حضرت حسین کے خاندان کی ایک قیدی عورت سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں یزید اور بی بی زینب کے درمیان سخت بحث ہوئی اور حضرت زینب نے اپنا مشہور خطاب کیا. وہاں یزید کے گھر کی عورتیں پہنچ گئیں اور اسیر عورتوں کے اپنے ساتھ لے گئیں اور مرنے والوں کے ماتم میں شامل ہوئیں. چند دنوں کے بعد ان عورتوں کو کربلا میں لوٹے گئے سامان کا معاوضہ دے کر مدینہ واپس بھیج دیا گیا.
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں